1947میں اپنے قیام کے بعد آغاز ہی سے پاکستان نے ''اسلامی بلاک‘‘ کے قیام یا اسلامی ملکوں میں اتحاد کو فروغ دینے کو اپنی خارجہ پالیسی کا اولین مقصد قرار دیا تھا۔ چونکہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک مسلم دنیا کے دل کی حیثیت رکھتے تھے‘ اس لیے پاکستان نے اس مقصد کے حصول کیلئے اپنی تمام تر کوششیں اس خطے پر مرکوز کر دیں۔ مگر اس زمانے میں مشرق وسطیٰ میں عرب قوم پرستی کا دور دورہ تھا۔ عرب قوم پرستی کی بنیاد سیکولر اصولوں پر رکھی گئی تھی اور اس کا ٹارگٹ مغربی استعمار تھا‘ جس نے دیگر ایشیائی اور افریقی ممالک کی طرح عرب ممالک کے وسائل اور اہم سٹریٹیجک مقامات پر بھی قبضہ جما رکھا تھا۔ اس نوآبادیاتی اور سامراجی نظام سے حقیقی آزادی حاصل کرنے کیلئے‘ عربوں کو اُس وقت ایسے نظریے کی ضرورت تھی جو انہیں بلاامتیاز مذہب‘ نسل اور عقیدے کے ایک جھنڈے تلے جمع کر کے ایک مؤثر طاقت بنا سکتا۔ عرب قوم پرستی کی یہ تحریک‘ جس کا آغاز مصر سے انیسویں صدی کے آخری برسوں میں ہوا تھا‘ بیسویں صدی کے وسط میں خصوصاً دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایک طاقتور تحریک کی شکل اختیار کر چکی تھی اور اس کے ذریعے عرب ممالک قومی آزادی کے میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کر رہے تھے۔ 1948میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ کے بعد اس تحریک نے مزید زور پکڑااور اس کا رُخ بیرونی دشمنوں کے علاوہ اندرونی دشمنوں کی طرف بھی ہونے لگا۔ اس کی لپیٹ میں مشرقِ وسطیٰ کے شاہی خاندان بھی آنے لگے جن میں مصر کے شاہ فاروق بھی شامل تھے ‘جنہیں جنرل نجیب اور کرنل جمال عبدالناصر کی قیادت میں مصری فوج نے اقتدار سے محروم کر دیا۔ اسرائیل کی یہودی ریاست کے قیام کو عرب ممالک‘ سامراجی ممالک خصوصاً امریکہ کی طرف سے مشرق وسطیٰ میںاپنے ایک اڈے کے طور پر قائم کرنے کی کوشش قرار دیتے تھے۔ اس کی مخالفت کیلئے انہوں نے عرب قوم پرستی کا سہارا لیا‘ کیونکہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کی آبادی میں غیر مسلم لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ لبنان کی تو آدھی آبادی عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ اس طرح فلسطین کی آزادی کی تحریک میں عرب مسلمانوں کے شانہ بشانہ عیسائی عرب بھی شریک تھے‘ اس لیے مذہب کی بنیاد پر سامراج دشمن تحریک کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اسی وجہ سے عرب دنیا میں پاکستان کی طرف سے اسلامی اتحاد یا ''مسلم بلاک‘‘ کی کوششوں کو عرب ممالک کی طرف سے نہیں سراہا جا سکا بلکہ پین اسلام ازم کی تحریک کو عرب قوم پرستی کی تحریک کو ناکام بنانے کی ایک مغربی سازش قرار دیا گیا۔
1955ء میں امریکہ کی سربراہی میں تشکیل دیئے جانے والا معاہدۂ بغداد (جو بعد میں سینٹو کے نام سے مشہور ہوا) میں پاکستان کی شمولیت سے عربوں کے پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات کی تصدیق ہو گئی اور 1956ء میں بحران کے دوران جب وزیراعظم سہر وردی کی قیادت میں اُس وقت پاکستانی حکومت نے مصر کی حمایت کی بجائے حملہ آور برطانیہ اور فرانس کے مؤقف کی تائید کی تو پاکستان اور عرب ملکوں کے درمیان بدگمانی اور بداعتمادی کی خلیج اور بھی وسیع ہو گئی۔ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں اس خلیج کو پاٹنے کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں اور ان میں کافی کامیابی بھی حاصل ہو گئی تھی کیونکہ پاکستان نے عرب ملکوں کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا اور آئندہ کیلئے یہ بھی طے کر لیا کہ پاکستان عرب ملکوں کے باہمی تنازعات اور اختلافات سے بالاتر ہو کر ان کیساتھ علیحدہ علیحدہ باہمی مفاد اور دوطرفہ بنیادوں پر معاشی‘ سیاسی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دے گا۔ اصولی طورپر تو یہ پالیسی بالکل درست تھی‘ مگر عملی طور پر یہ اس لیے زیادہ کامیاب نہ ہو سکی کہ پاکستان کی کسی حکومت نے یہ بنیادی حقیقت سمجھنے اور اسے پیش نظر رکھنے کی کوشش نہ کی کہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سیاسی محرکات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مشرق وسطیٰ بے شک جغرافیائی طور پر جنوبی ایشیا سے متصل ہے اور دونوں خطے صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ گہرے مذہبی‘ ثقافتی اور لسانی روابط کے ذریعے منسلک رہے ہیں مگر سٹریٹیجک نقطہ نظر سے مشرق وسطیٰ‘ خواہ یہ دور قدیم یونانی اور رومن سلطنت کا تھایا برطانیہ اور اب امریکہ کی بالادستی کا زمانہ‘ یورپ کے زیادہ زیر اثر رہا ہے۔ اس وقت بھی مشرق وسطیٰ کی سیاست‘ معیشت اور استحکام کو متاثر کرنے والا سب سے اہم عنصر خطے میں مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کے اہم مفادات کی موجودگی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ستمبر میں ترکی‘ ملائیشیا اور ایران کے ساتھ ایک اسلامی فورم کے قیام پر اتفاق کرتے ہوئے اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کر دیا۔ امریکہ کی نظر میں ایران مشرق وسطیٰ میں توسیعی عزائم رکھتا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ امارات امریکہ کے اس مؤقف سے متفق ہیں اور چونکہ وہ ایران کی ہمسائیگی میں واقع ہیں اس لیے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں قیاس یہ کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک ایسے فورم کے قیام کو کیسے برداشت کر لیں گے جس کے نتیجے میں بقول اُن کے ایران کی پوزیشن خطے میں اور بھی مضبوط ہو جائے۔ پاکستان کی شمولیت پر ان دونوں ملکوں کے ردعمل کی دو اور وجوہ ہیں۔ پاکستان اسلامی دنیا کا ایک اہم ملک اور ایٹمی طاقت ہے۔ ترکی‘ ملائیشیا اور ایران کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہونے سے اس فورم کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہونے کا قوی امکان تھا۔ دوسرے پانچ بلین امریکی ڈالر اور اُدھار پر ہر روز لاکھوں ڈالر کا تیل فراہم کر کے سعودی عرب اور متحدہ امارات بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو علاقائی معاملات میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ان سے مشاورت کرنی چاہیے۔ وزیراعظم سے لے کر حکومتی ترجمان تک کوالالمپور میں چند اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس میں اعلان کے برعکس شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو جواز فراہم کرنے کیلئے جو مرضی کہیں‘ لیکن سعودی عرب اور متحدہ امارات کے اس معاملے میں کردار ہونے کو بھی بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت اور سمت کے بارے میں ایک اور حقیقت واضح طور پر منکشف ہوتی ہے کہ جب تک کوئی ملک معاشی طور پر خودکفیل نہ ہو‘ وہ ایک آزاد خارجہ پالیسی اختیار نہیں کر سکتا۔ اگرچہ گلوبلائزیشن اور سکیورٹی اور ترقی کے پیچیدہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے قوموں کے ایک دوسرے پر انحصار میں اضافے کی روشنی میں مکمل خود کفالت اور پوری طرح آزاد خارجہ پالیسی کا تصور محال ہے؛ تاہم ہر ملک کو اپنے مساوی اور انسانی وسائل کو اس حد تک ضرور ترقی دینی چاہیے کہ اسے کسی دباؤ کے تحت اپنے بنیادی قومی مفادات پر سمجھوتہ کرنے یا نامناسب یوٹرن لینے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔ بدقسمتی سے پاکستان نے شروع سے ہی معاشی خود انحصاری حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ابتدائی برسوں میں ''سرد جنگ‘‘ میں روس کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر‘ پاکستان کا حکمران طبقہ امریکی ڈالروں کے سہارے ملک کا کاروبار چلاتا رہا۔ ''سرد جنگ‘‘ جب روس اور امریکہ کی گرم جوشی میں تبدیل ہو گئی تو افغانستان میں روسی قابض فوجوں کے خلاف امریکی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کر کے ڈالر وصول کیے۔ جب یہ سلسلہ ختم ہوا اور 9/11 کا واقعہ ہوا تو پاکستان کو ایک دفعہ پھرافغانستان میں امریکہ کے سہولت کار بننے کا موقعہ مل گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے پاکستان کو امریکی امداد ملنے کا سلسلہ بند ہو گیا ہے اور اب ہمیں کلیتاً اپنے ہی ذرائع اور وسائل پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے اور چونکہ ہم نے شروع سے ہی آمدنی سے زیادہ اخراجات کی عادت ڈالی ہوئی ہے اور ہمارے ذرائع آمدنی محدود ہیں اور اخراجات زیادہ ہیں‘اس لیے اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں۔ امداد کبھی غیر مشروط نہیں ہوتی‘ اس کے ساتھ کچھ تحریری اور کچھ غیر تحریری شرائط وابستہ ہوتی ہیں۔ امداد دینے والے ملک کا جب قومی مفاد تقاضا کرے تو وہ ان شرائط کو مقروض ملک کے سامنے رکھنے سے نہیں ہچکچاتا۔ کوالالمپور سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کے معاملے میں بھی ممکن ہے یہی اصول کارفرما ہو۔