قومی اسمبلی اور اس کے بعد سینیٹ میں حزب اختلاف میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف سے عسکری سربراہان کے تقرر اور سروس میں توسیع سے متعلق بل پر حکومت کے ساتھ تعاون اور اس تعاون کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بل کی بھاری اکثریت سے منظوری کے بعد سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا یہ تعاون موجودہ حکومت کی باقی ماندہ مدت کے دوران بھی جاری رہے گا یا یہ صرف اس بل تک ہی محدود تھا؟ اس سوال کا جواب ابھی تک ملے جلے الفاظ کی شکل میں دیاجا رہا ہے‘ کیونکہ ایک طرف حکومت کے اہم عہدے داران‘ جن میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی شامل ہیں‘ اپوزیشن کے کردار کی تعریف کر رہے ہیں اور اس تعاون کو جمہوریت کی مضبوطی کیلئے مفید قرار دے رہے ہیں‘ مگر اس بات کا کوئی عندیہ نہیں دے رہے کہ یہ تعاون آئندہ بھی جاری رہے گا۔ خود وزیراعظم عمران خان 2جنوری کو اسلام آباد میں سینئر افسران کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تسلیم کر چکے ہیں کہ بات چیت اور اتفاق رائے جمہوری عمل کا حصہ ہیں‘ مگر 7جنوری کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے تعاون کا شکریہ ادا کئے بغیر اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران پارٹی کو ابھی تک اپوزیشن کے ساتھ کھل کر تعاون کرنے پر تحفظات ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ حکمران پی ٹی آئی کی گزشتہ پانچ برس کی سیاست کا تمام تر انحصار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مخالفت اور تنقید پر رہا ہے۔ حزبِ اختلاف میں شامل ان دو بڑی سیاسی جماعتوں نے تو آغاز میں ہی حکومت کو اہم شعبوں خصوصاً معیشت کے سدھار میں تعاون کی پیشکش کی تھی اور اسے اس کی آئینی مدت پوری کرنے کا موقعہ فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی تھی مگر وزیراعظم نے اسے اپوزیشن کی طرف سے این آر او کی خواہش کے مترادف قرار دے کر مسترد کر دیا تھا اور وہ پارلیمنٹ کے اندر اور اس کے باہر اپنے مختلف بیانات اور تقاریر میں اپوزیشن کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت یا تعاون کو خارج از امکان قرار دیتے رہے؛ تاہم ملک کے اندرون حالات اور علاقائی سطح پر تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں نے حکومت اور اپوزیشن کو محاذ آرائی کی بجائے تعاون پر مجبور کر دیا ہے۔
سروسز کے سربراہان کی تقرری اور ملازمت میں توسیع کے بل پر فریقین کے درمیان تعاون پہلا قدم ہے اور اس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) میں اصلاحات پر مبنی صدارتی آرڈیننس پر بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور اطلاعات کے مطابق حکومت اس آرڈیننس میں ترمیم کیلئے اپوزیشن کی چند تجاویز پر غور کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے بلکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومت نے نیب بل واپس لینے‘ جو کہ اپوزیشن کا شروع سے ہی مطالبہ تھا‘ پر بھی تیار ہو گئی ۔ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی تقرری پر ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کیلئے بھی حکومت اور اپوزیشن مثبت رویہ اختیار کرنے پر تیار ہو گئی ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں کی طرف سے ان عہدوں کیلئے جو نام پیش کئے گئے تھے‘ اطلاعات کے مطابق وہ واپس لئے جائیں گے اور فریقین ان کی جگہ نئے نام پیش کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
ان اقدامات کی روشنی میں بعض حلقوں کی طرف سے توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں تعاون کا سلسلہ جاری رہے گا‘ لیکن کچھ حلقوں کی طرف سے ابھی تک اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہاہے اور یہ کہنا کہ فریقین گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ کی محاذ آرائی کو اچانک پسِ پشت ڈال کر تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے پر تیار ہو گئے ہیں‘ ابھی قبل از وقت ہوگا کیونکہ سروسز سربراہان کی تقرری اور توسیع کے بل پر تعاون کے باوجود بعض ایسے معاملات بھی ہیں جن پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نہ صرف وسیع اختلافات موجود ہیں بلکہ ان کی وجہ سے کشیدگی اور محاذ آرائی کا دور پھر سے لوٹ کر آ سکتا ہے۔
احتساب بیورو میں اصلاحات پر مبنی صدارتی آرڈیننس کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کا مسئلہ ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت مجوزہ اصلاحات میں بیورو کے لامحدود اختیارات کو کم کرنے کی سفارش نہیں کی گئی اور یہ کہ آیا اس آرڈیننس میں تجویز کردہ تبدیلیوں سے وہ ملزمان بھی مستفید ہو سکیں گے یا نہیں جو اس آرڈیننس کے اجرا سے پہلے نیب کی حراست میں ہیں؟ دوسرا مسئلہ سندھ اور مرکز میں اختلافات ہیں‘ جس کی وجہ سے اپوزیشن خصوصاً پیپلز پارٹی اور حکومت کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ماہ مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان اور سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے درمیان خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی تھی اور اول الذکر نے موخرالذکر کے شکووں اور شکایات کو دور کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا ‘مگر سندھ اور کراچی سے تعلق رکھنے والی حکومت میں شامل بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے مرکز پر سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے خلاف سخت رویہ رکھنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ملاقات سے پہلے گزشتہ تقریباً ایک سال سے وزیراعظم کا کراچی میں موجود ہونے کے باوجود صوبائی وزیراعلیٰ سے نہ ملنا اور مشترکہ مفادات کی کونسل کا تاخیر سے اجلاس بلانا اسی دبائو کا نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ مرکز اور سندھ کی درمیان گیس کی قیمتوں‘ پانی کی تقسیم اور وفاقی فنڈز میں سے سندھ کے حصے کی عدم فراہمی بھی وفاق اور سندھ کے درمیان کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ آئی ایم ایف پیکج میں شامل شرائط کے تحت وفاقی حکومت کو بجٹ یا مالیاتی خسارہ کم کرنے میں جو مشکل پیش آ رہی ہے‘ انہیں دور کرنے کیلئے وفاق کی طرف سے وفاقی فنڈز میں سے صوبوں کے حصے کو کم کرنے کیلئے اٹھارہویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی اپنے تازہ ترین ریویو میں کہا ہے کہ جب تک یہ سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ (Structural Adjustment) نہیں کی جاتی‘ پاکستانی معیشت اپنی موجودہ مشکلات سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی۔ اس مسئلے پر حکومت اور مسلم لیگ (ن) ایک پیج پر آ سکتی ہیں‘ کیونکہ اپنے سابقہ دورحکومت میں (ن) لیگ کے کئی زعما اٹھارہویں آئینی ترمیم کی بعض شقوں‘ خصوصاً جن کا تعلق وفاقی فنڈز کی مرکز اور صوبوں میں تقسیم اور تیل اور گیس میں صوبوں کے حصص سے ہے ‘پر نظرثانی کا مطالبہ کر چکے ہیں‘ مگر پیپلز پارٹی اس مطالبے کو سختی سے رد کر چکی ہے اوراب بھی اس موقف پر قائم ہے بلکہ اس کی طرف سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ بعض طاقتیں اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کر کے صوبوں کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ کراچی کا مسئلہ بھی وفاق اور سندھ کے درمیان ناراضی کا سبب بنا رہے گا‘ کیونکہ اب وزیراعظم عمران خان کی مخلوط حکومت اپنے ایم کیو ایم (پی) کے اتحادیوں کو خوش رکھنے کیلئے میگا سٹی کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز صوبائی حکومت سے بالا بالا فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔
سروسز ایکٹ کی منظوری کی صورت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے سے قانون سازی کی جس روایت کی بنیاد پڑی ہے اس کے تحت فریقین کے درمیان اسمبلیوں میں تعاون کا سلسلہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ اس میں حکومت اور ن لیگ کے درمیان قربتوں میں اضافہ ہونے کا امکان زیادہ ہے لیکن سندھ کے حوالے سے حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ حزب اختلاف کا حصہ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی اور ( ن) لیگ کے درمیان عدم اعتماد سے حکومت فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی اورغالباً (ن) لیگ کو رعایات دے کر پیپلز پارٹی کے خلاف سخت رویہ اختیار کر سکتی ہے۔