"DRA" (space) message & send to 7575

ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایک یادگار ملاقات

حال ہی میں سابق وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کی برسی منائی گئی تو اس حوالے سے خبریں اور مضامین پڑھتے ہوئے مجھے ان کی ساتھ ہونے والی ایک ملاقات یاد آ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی بھٹو فیملی اور پیپلز پارٹی کے ارکان ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مناتے ہیں اور گڑھی خدا بخش‘ جہاں پارٹی کے بانی چیئرمین اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم مدفون ہیں‘ میں ان کی یاد میں ایک بہت بڑا جلسہ بھی ہوتا ہے۔ اس جلسے میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے علاوہ ملک کے کونے کو نے سے ہزاروں کارکن بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس دفعہ کورونا وائرس کی وجہ سے گڑھی خدا بخش میں جلسہ نہ ہو سکا؛ چنانچہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنا پیغام نشر کروا دیا۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی زیادہ تر کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی رپورٹس سے بھرے ہوئے تھے‘ اس لئے پاکستان کی تاریخ کے اس اہم واقعہ کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پہلے جیسی کوریج نہیں مل سکی؛ تاہم کچھ خبریں اور کالم اردو اور انگریزی زبان کے اخبارات کی زنیت بنے۔ ایک کالم ایک مقامی اردو روزنامے میں جناب قیوم نظامی کا تحریر کردہ بھی تھا۔ نظامی صاحب پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات رہ چکے ہیں‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ پارٹی کے ان کارکنوں میں سے تھے جنہوں نے ہر قسم کے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر پارٹی کیلئے کام کیا‘ صعوبتیں سہیں اور قربانیاں دیں۔ ان کے ایثار اور خلوص کا جذبہ اس کالم میں پوری طرح جھلک رہا تھا۔ میں یہ کالم نظامی صاحب کے اس کالم سے متاثر ہو کر لکھ رہا ہوں اور اس میں بھٹو صاحب کی شخصیت اور ان سے متعلقہ چند واقعات کا ذکر کیا گیا ہے‘ جن کے بارے میں شاید بہت کم لوگ واقف ہوں گے‘ کیونکہ ان واقعات کا براہ راست سیاست سے تعلق نہیں ہے۔ بھٹو صاحب کی جن صفات کا کالم میں ذکر کیا گیا ہے‘ انہوں نے ان کی سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ مثلاً بھٹو صاحب بہت حاضر جواب تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان جب عوامی تحریک کے دبائو کے تحت متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوئے تو انہوں نے ایک گول میز کانفرنس بلائی۔ یہ کانفرنس کراچی میں منعقد ہونا تھی اور اپوزیشن کے اصرار پر شیخ مجیب الرحمن کو بھی اس میں شرکت کے لیے بلایا گیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن اس وقت اگرتلہ سازش کیس میں قید تھے مگر اپوزیشن کے دبائو پر انہیں جیل سے رہا کرکے کراچی لایا گیا۔ گول میز کانفرنس کے انعقاد سے پہلے یہ تاثر عام تھاکہ ایوب خان اور اپوزیشن کے درمیان کوئی مک مکا ہونے والا ہے کیونکہ مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب اور سندھ میں بھٹو صاحب کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت سے متحدہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دان خائف تھے اور بھٹو صاحب سے بالاتر ایوب خان سے کوئی سمجھوتہ کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں متحدہ اپوزیشن کے رہنما‘ جن میں شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے‘ کی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ''بھٹو صاحب آپ نے ایوب خان کا جو ساتھ دیا ہے اس کا آپ کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘‘ اس پر بھٹو صاحب نے جواب دیا ''میں نے ایوب خان کا اس وقت ساتھ دیا جب لوگوں نے ان کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں‘ آپ لوگ ایوب خان کا اس وقت ساتھ دے رہے ہیں‘ جب عوام نے انہیں مسترد کر دیا ہے‘‘۔
بھٹو صاحب کو میں نے پہلی دفعہ 1959 کے اوائل میں اس وقت دیکھا‘ جب وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے حبیبہ ہال میں طلبا سے خطاب کرنے آئے تھے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے میں بھی اس اجتماع کا حصہ تھا۔ بھٹو صاحب نے گہرے نیلے رنگ کا انتہائی چست سوٹ پہن رکھا تھا۔ انہوں نے انگریزی میں تقریر کی۔ ایک تو وہ تیزی سے انگریزی بول رہے تھے‘ دوسرے سچی بات یہ ہے کہ دیہاتی علاقوں کے اردو میڈیم سے فارغ التحصیل ہونے کی وجہ سے ہم جیسے طلبا کے پلے مجال ہے کہ کچھ پڑا ہو؛ البتہ ان کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات 1966 میں لاہور میں ریگل سینما کے سامنے ہال روڈ پر ملک معراج خالد کے دفتر لکشمی مینشن میں ہوئی تھی۔ ہال روڈ اور مال روڈ کے درمیان واقع ملک معراج خالد کا یہ دفتر اس زمانے میں ''انقلابی سوچ‘‘ کے حامی عناصر اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ جن تنظیموں کے باقاعدہ اجلاس اس دفتر میں ہوتے تھے‘ ان میں ایفروایشین سالیڈیریٹی آرگنائزیشن پاکستان (جس کے سیکرٹری جنرل ملک معراج خالد تھے) پاک چائنہ فرینڈشپ ایسوسی ایشن‘ ویت نام فرینڈشپ ایسوسی ایشن اور پاک کیوبا فرینڈشپ ایسوسی ایشن شامل تھیں۔ ان تنظیموں کے اجلاسوں میں شرکت کرنے والے لوگوں میں زیادہ تعداد یونیورسٹی اور کالجوں کے طلبہ کی ہوتی تھی۔ ان کے علاوہ صحافیوں‘ وکیلوں اور بائیں بازو کے نظریات کی حامل سیاسی پارٹیوں کے رہنما اور کارکن حاضرین میں شامل ہوتے تھے۔ 
ملک معراج خالد کا تعلق صدر ایوب خان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (کنونشن) سے تھا‘ مگر ان کا اٹھنا بیٹھنا بائیں بازو کے نظریات کے حامل لوگوں کے ساتھ زیادہ تھا۔ میاں افتخارالدین کے بڑے بیٹے میاں عارف افتخار‘ سی آر اسلم‘ حیات احمد خان 4 لکشمی مینشن میں واقع ملک معراج خالد کے دفتر میں منعقدہ تقریبات میں اکثر شرکت فرمایا کرتے تھے۔ وزارت خارجہ سے مستعفی ہو کر جب بھٹو صاحب پہلی مرتبہ لاہور تشریف لائے تو ملک معراج خالد نے انہیں اپنے دفتر میں چند افراد پر مشتمل ایک محفل میں غیر رسمی گفتگو کیلئے مدعو کیا تھا۔ جو حضرات اس محفل میں موجود تھے‘ ان میں طارق علی (مظہر علی خان کے بیٹے) حسین نقی‘ مسعوداللہ خان‘ ممتاز احمد خان (پاک چائنہ فرینڈشپ ایسوسی ایشن)حیات احمد خان اور چند ایک اور نمایاں شخصیتوں کے ساتھ راقم بھی شامل تھا۔ بھٹو صاحب فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ جن لوگوں نے ان کا استقبال کیا‘ ان میں میں بھی تھا۔ مجھے یاد ہے کہ بھٹو صاحب سیڑھیاں چڑھ کر معراج خالد کے دفتر میں داخل ہوئے‘ مگر اس بھٹو کو میں نے اس بھٹو سے بہت مختلف پایا‘ جو سات سال قبل اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں برق رفتاری کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کر حبیبیہ ہال میں طلبہ سے خطاب کے لیے داخل ہوا تھا۔ صرف ایک چیز مشترک تھی۔ بھٹو صاحب نے اس وقت بھی تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا حالانکہ وہ 1966 کا موسم گرما تھا۔ بھٹو صاحب ہوٹل کی گاڑی سے اتر کر آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ اس وقت ان کی عمر چالیس سال سے بھی کم تھی‘ مگر وہ اپنی عمر سے زیادہ نظر آ رہے تھے۔ سر کے بیشتر بال نہ صرف سفید ہو چکے تھے بلکہ پیشانی سے کافی پیچھے بھی ہٹ چکے تھے۔ ملک معراج خالد جب ان سے ہاتھ ملانے کیلئے آگے بڑھے تو انہوں نے ''ہیلو معراج‘‘ کہہ کر ملک صاحب سے ہاتھ ملایا اور اس کے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہو گئے‘ جہاں باقی لوگ انتظار کر رہے تھے۔ بھٹو صاحب بہت سنجیدہ اور کمپوزڈ نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے فوراً ہی اپنی گفتگو کا آغاز کر دیا۔ اس گفتگو میں انہوں نے زیادہ تر پاکستان کی خارجہ پالیسی اور عالمی حالات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا؛ البتہ اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں انہوں نے اشارہ دیا کہ وہ پاکستان مسلم لیگ کنونشن میں ایک فارورڈ بلاک بنانا چاہتے ہیں۔ ملک معراج خالد کے ساتھ ملاقات کی وجہ بھی غالباً یہی تھی کیونکہ ان دنوں ملک معراج خالد کنونشن لیگ سے الگ ہونے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ بہرحال ایک علیحدہ پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل کا ابھی ان کے ذہن میں کوئی خیال نہیں تھا۔ ان دنوں ویت نام کی جنگ زوروں پر تھی اور دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی امریکہ کے خلاف اور ویت نام کے عوام کے حق میں احتجاجی مظاہرے کئے جا رہے تھے۔ ملک معراج خالد کی نگرانی میں ویت نام کے عوام کی حمایت میں اردو زبان میں ایک پمفلٹ لکھا گیا تھا۔ اس کی کاپیوں پر دستخط کرکے بھٹو صاحب نے وہ کاپیاں حاضرین میں تقسیم کیں۔ اس محفل میں بھٹو صاحب کے علاوہ کسی نے کوئی تقریر نہیں کی تھی؛ البتہ سوال جواب کا ایک مختصر سیشن ضرور ہوا تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں