"DRA" (space) message & send to 7575

کورونا وائرس اور پاکستانی وفاق

کورونا وائرس کی وبا سے جہاں ملک میں ہزاروں انسانی جانیں دائو پر لگی ہوئی ہیں‘ معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ پڑا ہوا ہے‘ وہاں اس نے پاکستانی وفاقیت (Federalism) کو بھی ایک کڑے امتحان سے دوچار کر دیا ہے۔ اگر قومی قیادت آئین پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے اور ماضی کے تلخ واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے دانش مندی اور دور اندیشی پر مبنی پالیسیاں اختیار کرے گی تو پاکستان کے وفاقی نظام کے لئے کورونا وائرس کا چیلنج ایک تاریخی موقعہ میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے کیونکہ ملک کے کونے کونے سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ اس آفت کا مقابلہ قوم کی اجتماعی کوششوں سے ہی کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ مرکزی حکومت کو وفاق کی تمام اکائیوں کو ساتھ لے کر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ اگر مرکزی حکومت خصوصاً وزیر اعظم عمران خان یہ قائدانہ کردار ادا کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں تو اس سے ناصرف کورونا کی وبا کو شکست دینے میں آسانی ہو گی بلکہ پاکستانی وفاقیت کی عمارت کی بنیادیں بھی مضبوط ہوں گی۔ اس لئے اس وقت ‘جبکہ مرکز اور وفاقی اکائیوں (صوبوں) کو مشترکہ دشمن کے خلاف ایک پیج پر ہونے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے‘ مرکز اور ملک کے دوسرے سب سے بڑے صوبے‘ سندھ میں برسرِ اقتدار بالترتیب پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیتنے کی بجائے آپس میں الزام تراشی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہیں۔ اگرچہ 13 اور 14 اپریل کو این سی سی کے اجلاس میں آئندہ لائحہ عمل کا فیصلہ مرکز اور صوبوں نے متفقہ طور پر کیا ہے‘ اس کے باوجود کشیدگی ختم نہیں ہوئی۔ بنیادی اختلاف لاک ڈائون کی نوعیت اور مدت پر ہے۔ 
دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ حالات میں کورونا وائرس کے خلاف دفاع صرف لاک ڈائون میں ہے۔ چین‘ جہاں سے یہ وبا پھوٹی تھی‘ نے بھی اسی کے ذریعے وبا پہ قابو پایا اور دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ترین ممالک مثلاً امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی اور سپین بھی اسی طریقے پر عمل کر رہے ہیں‘ لیکن وزیر اعظم عمران خان نے آج سے کچھ عرصہ قبل‘ جب اس وبا نے پاکستان میں ابھی شدت اختیار نہیں کی تھی‘ کہا تھا کہ پاکستان کے زمینی حقائق (جن میں وہ اور ان کی پارٹی کے رہنما خاص طور پر پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کے تناسب کا زیادہ اور عمر رسیدہ افراد کا تناسب کم ہونے کا ذکر کرتے ہیں) مختلف ہیں۔ دوسرے پاکستان کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ‘ جو زیادہ تر روزانہ اجرتی بنیادوں پر کام کرتے ہیں‘ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں‘ ایک سخت اور طویل لاک ڈ ائون کی صورت میں ان کا کیا بنے گا؟ بقول جناب وزیر اعظم ایک سخت اور طویل لاک ڈائون نافذ کرنے کا مطلب ان چار پانچ کروڑ پاکستانیوں کی جانوں کو کورونا وبا کی نذر ہونے سے بچاتے بچاتے بھوک کی بھینٹ چڑھانے کے مترادف ہے۔ اس لئے‘ بقول وزیر اعظم‘ گھبراہٹ اور جلد بازی میں فیصلہ کرنے کے بجائے‘ حالات کا جائزہ لے کر پاکستان کے اپنے مخصوص حالات کی روشنی میں حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے‘ مگر جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جنگ اور سیاست میں ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہوتی ہے‘ بعض اوقات فوری فیصلہ وقت کا تقاضا ہوتا ہے‘ ایسے فیصلوں میں تاخیر مہنگی پڑتی ہے اور پاکستان میں کورونا وبا جس تیزی سے پھیل رہی ہے‘ اس سے اس قول کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ اگر پاکستان‘ شمالی کوریا‘ ویت نام اور نیوزی لینڈ کی طرح‘ جنہوں نے چین سے کورونا وبا پھوٹنے کی پہلی اطلاع آنے پر فوراً ہی اپنی سرحدیں سیل کرکے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روک دیا تھا‘ ایران سے ہزاروں کی تعداد میں آنے والے زائرین کو ملک میں داخل ہونے سے قبل سرحدوں پر قرنطینہ میں رکھنے کا موثر انتظام کرنے پر توجہ دیتا تو ملک میں کورونا وائرس کی وبا کافی حد تک قابو میں ہوتی‘ مگر حکمتِ عملی پر اختلاف سندھ اور مرکز کے درمیان سیاسی جنگ میں تبدیل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ دونوں طرف سے میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کی پالیسی اور اقدامات کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو شکایت ہے کہ لاک ڈائون پر غیر واضح موقف اختیار کرکے مرکزی حکومت سندھ میں لاک ڈائون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بیان میں الزام عائد کیا کہ مرکز حکومت نے کورونا وائرس کے خطرے سے نمٹنے میں دیر کر دی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے صوبوں کی استعداد کار میں اضافہ کرنے کیلئے مرکزی حکومت جو کردار ادا کر سکتی ہے‘ وہ نہیں کر رہی‘ تاہم وفاقی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ تمام اہم اقدامات صوبوں کی مشاورت سے کئے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے خود پنجاب‘ بلوچستان اور کے پی کا دورہ کر کے صورتحال کا جائزہ لیا اور یقین دلایا کہ کورونا وائرس کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے تمام صوبوں کو بلا امتیاز ضروری امداد فراہم کی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاق اور تمام وفاقی اکائیوں اور علاقوں میں رابطہ بڑھانے کیلئے قومی رابطہ کمیٹی‘ جس میں دیگر حکام کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ‘ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور گلگت بلتستان کے چیف ایگزیکٹو بھی شامل ہیں‘ اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اسی طرح نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر اور این ڈی ایم اے کی طرف سے بھی صوبوں کو وفاقی حکومت کے بقول بلا امتیاز ضروری سامان فراہم کیا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کے چیلنج کا مقابلہ پاکستان کی کوئی بھی صوبائی حکومت اکیلے نہیں کر سکتی۔ یہ چیلنج دہشت گردی کے چیلنج سے بھی بڑا ہے۔ وفاقی حکومت بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔ اسی لئے وفاقی اداروں کی جانب سے صوبوں کو امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومتیں‘ جن میں سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت بھی شامل ہے‘ اس کا اعتراف کرتی ہیں‘ لیکن سندھ اور مرکزی حکومت کے درمیان کشیدگی نہ ختم ہوئی ہے‘ نہ ہو سکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سندھ میں اپوزیشن کی ایک بڑی پارٹی‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ اس پارٹی کی قیادت کے خلاف نیب نے کرپشن کے الزامات کی بنا پر مقدمات بنا رکھے ہیں۔ اس پارٹی کے ایک سینئر رہنما اور گزشتہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ ابھی تک نیب کے زیر حراست ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا موقف یہ ہے کہ یہ مقدمات مرکزی حکومت کے ایما پر بنائے گئے ہیں۔ دوسرے‘ وفاق اور سندھ کے درمیان کشیدگی کی فضا کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی قائم تھی۔ اس کی بنیاد پہلے صوبے میں رینجرز کے قیام میں توسیع کا مسئلہ تھا اور اس کے بعد دو آئی جی پولیس کے تبادلوں پر اختلاف تھا۔ اس کے علاوہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو شدید مخالف سیاسی قوتیں‘ ایم کیو ایم (پاکستان) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) مرکز میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔ چونکہ پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں قطعی اکثریت حاصل نہیں ہے اور وہ اپنی حکومت کی بقا کیلئے اتحادی پارٹیوں کی حمایت کی محتاج ہے‘ اس لئے اسے ان دونوں پارٹیوں کی خوشنودی کی خاطر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے معاندانہ رویہ روا رکھنا پڑتا ہے یا کم از کم اس کا تاثر پیش کرنا پڑتا ہے‘ مگر کورونا وبا کی صورت میں پاکستان کو اتنا بڑا چیلنج درپیش ہے کہ ملک اب اس قسم کی کشیدگی یا مائنڈسیٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم صاحب کو تاریخ پر بھی نظر کرنی چاہیے کہ مشرقی پاکستان میں 1970ء کے تباہ کن سائیکلون کو شیخ مجیب الرحمن نے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں