پاکستان کی داخلی سلامتی کو لاحق خطرات میں سے اس وقت یقیناً کورونا وائرس سب سے زیادہ سنگین اور سدِ باب کے لئے فوری کارروائی کا متقاضی ہے۔ قومی قیادت کو بھی اس بات کا احساس ہے‘ اسی لئے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ مگر کورونا وائرس واحد چیلنج نہیں‘ مذہبی جنونیت‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات نہ صرف اپنی سابقہ حالت میں بدستور موجود ہیں بلکہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں۔ حکومت کو ان عناصر کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنی پڑے گی‘ بلکہ پہلے کی نسبت زیادہ سختی کے ساتھ ان کی سرکوبی کرنا ہو گی۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ان کا مرکز ایک دفعہ پھر ملک کے شمال مغرب میں واقع قبائلی علاقے‘ خصوصاً شمالی وزیرستان اور دیر کے اضلاع اور بلوچستان ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسی قسم کے ایک واقعہ میں شمالی وزیرستان کے ایک علاقے میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پاک فوج کا ایک جوان شہید اور تین شدید زخمی ہو گئے تھے۔ یہ درست ہے کہ پاک فوج کے ان جوانوں نے دہشت گردوں کے اس حملے کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ پانچ حملہ آور ہلاک بھی کر دئیے گئے‘ لیکن اپنی نوعیت کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل اسی ضلع کی ایک تحصیل میں ایک قبائلی رہنما کی گاڑی کو بم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ قبائلی رہنما ملک ریاض‘ جو حکومت کا حامی سمجھا جاتا ہے‘ اگرچہ اس حملے میں محفوظ رہا‘ مگر اس کی گاڑی تباہ ہو گئی تھی۔ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع قبائلی اضلاع کے علاوہ اس سال دہشت گردی کے حملوں میں بلوچستان میں بھی سکیورٹی فورسز اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس سلسلے میں دس جنوری کو کوئٹہ میں ایک مسجد میں نمازیوں کو خود کُش حملے کا نشانہ بنانے کا واقعہ خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہے۔ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی اور اس میں پولیس کا ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ (ڈی ایس پی) شہید ہوا تھا۔ گزشتہ دہائی میں پاکستان کے کئی حصوں میں داعش کی طرف سے دہشت گردی کے واقعات اور خود کُش حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ‘ مگر کوئٹہ کی مسجد میں خود کُش حملہ اور اس کی داعش کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنا اس لحاظ سے خصوصی طور پر باعث تشویش ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والی مسجد کا تعلق افغان طالبان سے بتایا جاتا ہے۔ اس مسجد کو داعش کی طرف سے نشانہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس تنظیم اور طالبان کے درمیان جنگ کا دائرہ پاکستان تک پھیل چکا ہے۔ گزشتہ ماہ افغانستان میں بھی داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے کئی مقامات کو خود کُش اور بم حملوں اور فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا۔ ان میں 25 مارچ کو کابل میں ایک سکھ گوردوارے پر حملہ بھی شامل ہے۔ اس حملے میں 25 سکھ یاتری‘ جن میں مرد‘ خواتین اور بچے بھی شامل تھے‘ ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے قبل کابل میں ہی 6 مارچ کو ایک سیاسی جلسے پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں 32 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ہلاک ہونے والوں میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی‘ اور اس حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔ اگرچہ افغانستان میں مبینہ طور پر داعش کے سربراہ کو افغان سکیورٹی فورسز نے گرفتار کر لیا ہے؛ تاہم طالبان اور داعش کے درمیان خونریز تصادم تھمنے کے بجائے تیز ہونے کا خدشہ ہے‘ اور اس کی وجہ امریکہ کی طرف سے طالبان سے حاصل کیا جانے والا وعدہ ہے کہ وہ افغان امن معاہدے کے تحت امریکی فورسز کی افغانستان سے روانگی کے بدلے میں ملک سے داعش کا قلع قمع کریں گے۔
مختلف اطلاعات کے مطابق افغانستان میں متعددمقامات پر طالبان اور داعش کے درمیان مسلح تصادم بھی ہوئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ پاکستان بھی طالبان اور داعش کے درمیان جاری اس جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے‘ کیونکہ داعش کے خیال میں یہاں طالبان کے بہت سے اہم ''اثاثے‘‘ موجود ہیں۔ ان پر داعش کی طرف سے حملوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شمالی وزیرستان کے قبائلی ضلع میں دہشت گردی کے واقعات اور ان میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کا جانی نقصان دو وجوہ کی بناپر خصوصی طور پر باعث تشویش ہے۔ ایک یہ کہ ان واقعات میں سے تازہ ترین واقعہ میں تحریکِ طالبان کے ایک دھڑے کے کمانڈر حاجی گل بہادر کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔ پاکستانی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ حاجی گل بہادر اور اس کے دھڑے سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد وں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے‘ لیکن حاجی گل بہادر کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماضی میں وہ بیت اللہ محسود کی قیادت میں قائم ہونے والی تحریکِ طالبان پاکستان کی طرف سے پاک فوج پر حملوں کا مخالف تھا؛ تاہم جب پاکستان نے اپنی سرزمین پر القاعدہ اور ازبک دہشت گردوں کے اڈے ختم کرنے اور افغانستان میں طالبان کی حمایت کرنے سے منع کیا تو اختلافات پیدا ہو گئے اور انہوں نے اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ جب امریکی ڈرون کے ایک حملے میں ان کا ایک اہم کمانڈر ہلاک ہو گیا ‘ تو اختلافات کھل کر سامنے آ گئے اور اس کے دھڑے میں شامل دہشت گردوں نے یہاں بھی حملے کرنا شروع کر دیئے۔ دوسرے قبائلی اضلاع‘ جن کا پُرانا نام ''فاٹا‘‘ تھا‘ میں دہشت گردی‘ اور دہشت گردوں کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے تصادم کے پے د رپے واقعات اس لئے بھی باعثِ تشویش ہیں کہ 2014 کے بعد ''ضربِ عضب‘‘اور ''ردالفساد‘‘ کے عنوان سے ہونے والے فوجی آپریشنز کے ذریعے ان علاقوں کو دہشت گردوں سے تقریباً پاک کر دیا گیا تھا۔
ان فوجی آپریشنز کی وجہ سے گزشتہ برس یعنی 2019 میں دہشت گردی کے واقعات میں دس برس قبل کی تعداد کے مقابلے میں 85 فیصد کمی واقع ہو گئی تھی‘ یعنی سال 2009 میں پاکستان میں دہشت گردی کے 2000کے قریب واقعات رونما ہوئے تھے‘ لیکن 2019 میں ان کی تعداد کم ہو کر صرف 250رہ گئی۔ اگرچہ امید ہے کہ رواں سال میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں کمی کا رجحان برقرار رہے گا‘ مگر بین الاقوامی حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا اور کسی وقت بھی سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے جس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے‘ اس کی بنیاد پر ملک میں دہشت گرد عناصر کے دوبارہ سر اٹھانے کے اندیشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ غالباً اسی وجہ سے قبائلی علاقوں میں افغان سرحد کے ساتھ ساتھ اب بھی ہماری فورسز بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پھر بھی سکیورٹی کی صورت حال اس قدر مخدوش ہے کہ حال ہی میں حکومت کو اس مد میں وہ اضافی رقم مختص کرنا پڑی‘ جو آپریشنز کی وجہ سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کی بحالی اور ترقی کے لئے مختص کی گئی تھی۔ بے گھر افراد کی بحالی کا مسئلہ گزشتہ ایک دہائی سے چلا آرہا ہے۔ اس مسئلے کے حل میں کوئی تسلی بخش پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ خاندانوں نے متعدد بار حکامِ بالا سے اس بارے میں بات چیت کی‘ مگر دوسری جانب سے عملی طور پر کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس صورتحال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکام اگر واقعی قبائلی علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا چاہتے ہیں اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے کر ایک جامع حکمت عملی تیار کرنا پڑے گی۔