اگرچہ حکومتی حلقوں کی جانب سے واضح کیا جا رہا ہے کہ اس وقت اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تبدیلی پر بحث کرنا مناسب نہیں‘ حکومت کی تمام تر توجہ کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے پر مرکوز ہے‘ اس لئے حکومت کا اس سلسلے میں اپوزیشن سے رابطہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں؛ تاہم میڈیا میں اس معاملے پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ ان وضاحتوں کے باوجود جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چند دن پیشتر وفاقی وزیر اسد عمر نے اس مسئلے پر جو بیان دیا تھا‘ وہ بڑا معنی خیز تھا اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اپنے اس بیان میں اسد عمر نے کہا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کا از سرِ نو جائزہ لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے‘ کیونکہ اس میں بہت سی خامیوں کا پتہ چلا ہے اور ان خامیوں کو دور کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔
جناب اسد عمر کے بیان کی تائید کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ موجودہ حکومت اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی؛ تاہم جن مقاصد کیلئے یہ ترمیم منظور کی گئی تھی‘ صوبے ان کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے صوبوں سے ضلعی حکومتوں تک مالی اختیارات اور وسائل کی منتقلی میں ناکامی کا خاص طور پر ذکر کیا۔ اس ساری صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو اس ترمیم پر بحث کی کچھ نہ کچھ گنجائش موجود ہے اور اس بحث میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ دو وفاقی وزرا یعنی اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترمیم میں تبدیلی لانے کا غالباًاصولی فیصلہ ہو چکا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں سے نہ صرف رابطہ پیدا کرنے کی کوششوں کا عنقریب آغاز ہو سکتا ہے بلکہ اسد عمر نے پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما شیری رحمان کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے جو بیان دیا تھا‘ اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں بعض سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا آغاز بھی ہو چکا ہے؛ تاہم وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا اصرار ہے کہ اٹھارہویں آئنی ترمیم میں تبدیلی لانے کے فیصلے کا علم نہ وزیر اعظم عمران خان کو ہے اور نہ ہی وفاقی کابینہ میں یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا ہے۔ اسی قسم کا بیان ایک اور وفاقی وزیر جناب علی محمدخاں نے ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک ٹاک شو میں بحث کے دوران دیا تھا‘ جس میں انہوں نے اسد عمر کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جہاں تک انہیں معلوم ہے‘ وفاقی کابینہ میں اس معاملے پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وزیر اطلاعات کے بیان کے مطابق وفاقی حکومت نے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کے معاملے پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تو وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور اور منصوبہ بندی جناب اسد عمر نے کس بنیاد پر اپنا یہ بیان دیا تھا؟ اور اگر وزیر اطلاعات اس مسئلے کو موجودہ نازک موقعہ پر نہیں اٹھانا چاہتے‘ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے حلقے ہیں‘ جن کے نزدیک اس وقت درپیش کورونا وائرس کے چیلنج سے زیادہ اہم اور فوری اقدام کا متقاضی اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تبدیلی لانے کا معاملہ ہے؟ وفاقی وزرا کے بظاہر متضاد بیانات سے پیدا ہونے والے کنفیوژن کے دوسرے پہلو کا تعلق آئینی ترمیم میں تبدیلی کا جواز اور اس سے ممکنہ طور پر حاصل کئے جانے والے مقاصد سے ہے۔ جناب اسد عمر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس ترمیم میں تبدیلی اس لئے ضروری ہو گئی ہے کہ اس میں کئی خامیوں کا پتہ چلا ہے؛ تاہم انہوں نے خامیوں کی کوئی نشان دہی نہیں کی کہ وہ کون سی خامیاں ہیں‘ جن کی وجہ سے ترمیم میں تبدیلی کرنا ضروری ہو چکا ہے۔
البتہ وزیر اعظم جناب عمران خان اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے اب تک جو بیانات دیتے چلے آ رہے ہیں‘ ان کے مطابق وفاق کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت مالی سال کے آخر میں ٹیکسوں اور محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو جس تناسب سے (42.5 اور 57.5 فیصد) سے مرکز اور صوبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے‘ اس کے نتیجے میں قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات مختص کرنے کے بعد وفاق کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم نے وفاقی حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ اصل میں جناب وزیر اعظم کی تنقید کا نشانہ ساتواں مالیاتی کمیشن ایوارڈ ہے‘ لیکن قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا اٹھارہویں آئینی ترمیم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس ایوارڈ کی بات چیت کی جاتی ہے‘ یعنی ساتواں ایوارڈ‘ اس پر تو دسمبر 2009ء میں دستخط ہوئے تھے اور اس پر اتفاق حاصل کرنے کیلئے 13 برس تک مذاکرات کرنا پڑے تھے۔ اس کے برعکس اٹھارہویں آئینی ترمیم پر 2010ء میں دستخط ہوئے تھے اور اس کی ڈرافٹنگ کا آغاز صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سرکردگی میں قائم ہونے والی حکومت (2008 تا 2013ء) کے دوران کیا گیا تھا۔ یہ درست ہے کہ اصل (صوبائی) خود مختاری مالی خود مختاری ہوتی ہے اور مالیاتی اختیارات کے بغیر‘ صوبائی خود مختاری کی کوئی حیثیت نہیں اور اس لحاظ سے ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ‘ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی تقویت کا باعث ہے‘ لیکن اٹھارہویں آئینی ترمیم قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
اس کے ذریعے پارلیمنٹ کے وہ اختیارات‘ جو مشرف دور کی سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے سربراہِ ریاست یعنی صدرِ مملکت کے حوالے کر دئیے گئے تھے‘ واپس پارلیمنٹ کو بحال کئے گئے۔ اس طرح پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے متفقہ اور دیرینہ مطالبے کے تحت 1973ء کے پارلیمانی دستور کو اس کی اصل حالت میں بحال کر دیا گیا تھا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت مرکز اور صوبوں میں قانون سازی کے اختیارات تقسیم کرنے والی کنکرنٹ لسٹ کو ختم کر کے اس میں شامل محکموں کو صوبوں کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ لیکن اٹھارہویں آئینی ترمیم کی اصل وجہ تنازعہ غالباً زیر زمین معدنی ذخائر مثلاً تیل اور گیس کی صوبوں اور مرکز کے درمیان برابر کی ملکیت کی شق ہے (آرٹیکل172(3))۔ پاکستان میں صنعتی ترقی اور گھریلو ضروریات کے لئے مختلف ذرائع سے توانائی حاصل کی جاتی ہے‘ جن میں گیس‘ تیل‘ کوئلہ‘ پن بجلی‘ نیوکلیئر اور ہوائی چکی شامل ہیں۔ مگر سب سے اہم حصہ (34 فیصد)گیس کا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل بلوچستان سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس سے توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں‘ لیکن اب سندھ گیس کی پیداوار میں سب سے آگے ہے (تقریباً 70 فیصد)‘ گیس کے علاوہ سندھ میں اور بھی معدنیات مثلاً تیل اور کوئلے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ اس کی بنیاد پر اس وقت سندھ معدنی لحاظ سے سب سے امیر صوبہ ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کی اس لئے مخالفت کی جاتی ہے کہ دونوں صوبے سمجھتے ہیں کہ طویل جدوجہد کے بعد اپنے معدنی وسائل پر ان کا جو حق تسلیم کیا گیا ہے‘ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کے ذریعے اسے واپس لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ صوبائی خود مختاری کا معاملہ نہ صرف قیام پاکستان کے بعد بلکہ متحدہ ہندوستان کے دور سے چلا آ رہا ہے؛ چنانچہ یہ ایک حساس معاملہ ہے‘ جس پر احتیاط کی ضرورت ہے۔ جو لوگ اسے وفاقی حکومت کی مالی مشکلات کا سبب قرار دے کر اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں انہیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔