وزیر اعظم عمران خان کے اس اقدام کا یقیناً ملک بھر میں خیر مقدم کیا جائے گا‘ جس کے تحت انہوں نے اسلام آباد میں ہندوئوں کے لئے ایک مندر کی تعمیر کے سلسلے میں فنڈز کی منظوری دی ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ہندو ملک کی ایک اہم اقلیت شمار کئے جاتے ہیں۔ ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس اقلیت کے ساتھ سیاسی‘ قانونی اور سماجی شعبوں میں اس طرح غیر امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا سکا‘ جس کی ہدایت ہمارے مذہب اسلام میں ہے یا جس کی بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست 1947 کی تاریخی تقریر میں تلقین کی تھی۔ اس تقریر میں بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں تمام مذاہب کے پیروکار لوگ برابر کے سیاسی‘ سماجی اور آئینی حقوق کے حق دار ہیں اور برابر کے شہری ہیں‘ لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی اس واضح اور اہم ہدایت کو نظر انداز کر کے پاکستانی قوم کو دو حصوں یعنی اکثریت اور اقلیت میں تقسیم کر دیا گیا۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب میں ''فرام جناح ٹو ضیا‘‘ میں اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور میں پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرارردادِ مقاصد منظور کرکے قائدِ اعظم کے اصولوں سے روگردانی کی تھی۔ اگرچہ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن واضح یہی ہوتا ہے کہ قائدِ اعظم پاکستان سے ہندوئوں کے انخلا کے حق میں نہیں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پڑھے لکھے اور پروفیشنلز ہونے کی وجہ سے ہندو برادری کا نہ صرف سیاست بلکہ معیشت میں بھی بڑا اہم کردار تھا۔ قائدِ اعظم جانتے تھے کہ پاکستان کی نوزائدہ مملکت کو ایسے تجربہ کار اور ماہر افراد کی ضرورت ہے۔ اس لئے انہوں نے نہ صرف اپنی تقریر میں تمام اقلیتوں کو نئے ملک میں مکمل تحفظ اور آزادی کا یقین دلایا بلکہ خیر سگالی کے ایک اہم اقدام کے طور پر ایک مشہور ہندو کو ملک کا پہلا وزیر قانون بھی بنایا۔ تقسیم بر صغیر کے نتیجے میں اگرچہ دونوں طرف سے آبادی کا بہت بڑے پیمانے پر تبادلہ عمل میں آیا‘ اس کے باوجود ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد بھارت جانے کے بجائے پاکستان میں ہی رہنے پر رضا مند تھی۔ ہندو آبادی کے اس حصے کا تعلق سابق مشرقی پاکستان‘ سندھ‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے تھا‘ مگر پھر ہندوئوں کا پاکستان میں رہنا مشکل ہو گیا‘ کیونکہ بعض حلقوں نے اس اقلیت کے لئے فضا غیر یقینی بنا دی تھی۔ نتیجتاً بہت سے ہندو بھارت منتقل ہو گئے۔ اس کے باوجود مشرقی پاکستان‘ سندھ اور کراچی میں ہندوئوں کی کافی بڑی تعداد موجود رہی‘ مگر ان کی موجودگی بعض عناصر کے لئے ناقابلِ قبول تھی ؛ چنانچہ مختلف طریقوں سے انہیں وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں‘ خصوصاً مشرقی پاکستان (جو کہ اس وقت مشرقی بنگال کہلاتا تھا) میں فرقہ وارانہ فسادات نے اس قدر بھیانک شکل اختیار کر لی تھی کہ دونوں ملکوں کے مابین جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ حالات کو تصادم کی طرف جانے سے روکنے کیلئے پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادت کے مابین مذاکرات ہوئے اور دونوں اطراف نے سیاسی فراست اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مشہور لیاقت نہرو پیکٹ پر دستخط کئے جسے ابھی تک دونوں ملکوں کے مابین امن اور تعاون کی ایک مضبوط بنیاد سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں نے اپنے ہاں نہ صرف اقلیتوں کے تحفظ کا عہد کیا بلکہ بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان میں ہندوئوں کی عبادت گاہوں اور تاریخی یادگاروں کی حفاظت اور دیکھ بھال کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اس معاہدے کے عمل میں آنے کے بعد پاکستان اور بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی شدت میں خاصی کمی واقع ہوئی‘ بلکہ تنازعہ کشمیر کے باوجود دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات بھی خوشگوار ہو گئے‘ لیکن 1965 کی جنگ نے صورتحال کو یکسر بدل دیا۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیاتاریخ اس کی گواہ ہے‘ لیکن یہاں بھی ہندوئوں کے لئے مسائل بڑھ گئے تھے۔ بھارت میں مسلمانوں کو پاکستان کا ایجنٹ اور پاکستان میں ہندوئوں کو ملک کا غدار تصور کیا جانے لگا۔ جنگ کے دوران بد امنی اور افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے کئی حصوں خصوصاً بھارت کے ساتھ ملنے والی سرحد کے ساتھ ساتھ علاقوں میں کئی مقامی با اثر افراد نے متعدد ہندو خاندانوں کو زبردستی سرحد پار دھکیل کر ان کی رہائشی اور ملکیتی زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ بھارت میں مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی تہذیبی نشانیوں اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور تباہی کا سلسلہ تو شروع سے ہی جاری تھا‘ پاکستان میں بھی ایسے واقعات ہونے لگے۔ اگرچہ مملکت پاکستان بین الاقوامی معاہدوں کے تحت ان مقامات کو تحفظ فراہم کرنے کی پابند تھی‘ مگر طاقتور اور بااثر افراد پر مشتمل بعض قبضہ گروپوں نے کچھ ریاستی حکام کے ساتھ ملی بھگت کرکے نہ صرف ان مندروں سے ملحقہ زمینوں اور جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کیا‘ بلکہ صدیوں پُرانے اور پاکستان کے قدیم ثقافتی ورثے کی مظہر ان عمارتوں اور مندروں کو مسمار کرنے سے بھی احتراز نہ کیا۔
وزیر اعظم کے اس مستحسن اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے میڈیا نے اسے نہ صرف ہماری ہندو برادری کیلئے ایک خوش آئند خبر قرار دیا ہے بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کے سافٹ امیج کو اجاگرکرنے میں ایک مددگار قدم کے طور پر سراہا بھی ہے۔ اس کے علاوہ اس اقدام سے پاکستان میں مذہبی رواداری‘ ملٹی کلچرازم اور پاکستانی ریاست کے بارے میں بابائے قوم کے خیالات کی ترویج میں اضافہ ہو گا۔ مگر اس بات کو یقینی بنانے کے لئے وزیر اعظم صاحب کو محض اس ایک اقدام پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ اس شعبے میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
میرے نزدیک ہندو برادری کے ساتھ نا انصافی کی ابھی تک پوری طرح تلافی نہیں ہوئی ۔ یہ صحیح ہے کہ ایک نئے مندر کی تعمیر سے پاکستان میں ہندو برادری کے لئے ریاست کی مثبت سوچ کا پیغام جاتا ہے‘ مگر سینکڑوں پُرانے مندر خستہ حال ہیں۔ ان کی بحالی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ان میں کٹاس راج مندر سرِ فہرست ہے‘ جو پاکستان کا ایک نایاب تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہندوئوں کی اس دوسری سب سے مقدس مذہبی یادگار کے چشمے کو خشک ہونے سے بچانے کیلئے چند ہدایات جاری کی تھیں‘ مگر ان کے رخصت ہونے کے بعد ان پر عمل درآمد کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان پاکستان میں ٹورازم کے فروغ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس میں مذہبی ٹورازم کو نمایاں اہمیت حاصل ہے‘ کیونکہ پاکستان میں بدھ ازم اور ہندوازم کی مقدس اور قدیم یادگاریں موجود ہیں۔ ان کی زیارت کے لئے ریاست پاکستان کی طرف سے سکھوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے سفری اور ویزے کی سہولتوں کی فراہمی میں نمایاں فیاضی کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ مگر بظاہر ہندوئوں کے بارے میں اتنا لبرل رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو دو طرفہ بنیادوں پر اپنے ہاں مذہبی ٹورازم کے فروغ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور اس کے لئے ایک لبرل ویزا سسٹم پر اتفاق کرنا چاہئے۔ 2012 میں اس مقصد کے لئے دونوں ملکوں میں اہم مذاکرات ہوئے تھے اور متعدد تجاویز پر غور کیا گیا تھا‘ بلکہ بعض امور پر اتفاق بھی ہو گیا تھا۔ اگرچہ دونوں ممالک اس وقت اپنے دو طرفہ تعلقات کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں‘ لیکن دونوں ملکوں کے عوام کی بھلائی اور خطے کے امن کی خاطر آگے کی طرف دیکھنا چاہئے اور باہمی تعلقات کے ایک ایسے ڈھانچے کی بنیاد رکھنے سے احتراز نہیں کرنا چاہئے‘ جو آگے چل کر نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان نارمل تعلقات‘ بلکہ خطے کے استحکام اور ترقی کے فروغ کیلئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔