پاک افغان تقریباً اڑھائی ہزار کلومیٹر طویل بین الاقوامی سرحد 1947 میں قیامِ پاکستان سے ہی دونوں ملکوں کے مابین تنازع کا باعث چلی آ رہی ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات میں شدید کشیدگی بھی رہی۔ گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران بعض مواقع پر دونوں ملکوں کی سرحدی افواج کے مابین مسلح جھڑپیں بھی ہوئیں‘ جن کے باعث فریقین کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ پاک افغان بین الاقوامی سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن‘ جسے 1893 میں ہندوستان کی انگریز حکومت کے دور میں طے کیا گیا تھا‘ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگرچہ افغانستان کی کسی حکومت نے سرکاری طور پر اسے تسلیم نہیں کیا‘ مگر عملی طور پر دونوں ملک اسے ایک باقاعدہ قانونی سرحد تسلیم کرتے ہیں‘ جس کے آر پار جانے کیلئے جو بھی دستاویزات درکار ہوں‘ دکھانا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کو اقوام متحدہ پاکستان اور افغانستان کے مابین جائز اور قانونی حد تسلیم کرتی ہے۔ بین الاقوامی قانون کی نظر میں یہ دونوں کے مابین ایک بین الاقوامی سرحد ہے۔ پوری دنیا اسے پاکستان کی مغربی سرحد کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہے۔ جدید قومی ریاست (Nation State) جو موجودہ شکل میں بین الاقوامی نظام کی سب سے اہم اکائی کے طور پر گزشتہ تقریباً چار سو برسوں سے چلی آ رہی ہے‘ کیلئے علاقائی سلامتی یعنی سرحدوں کی حفاظت ایک بنیادی فریضہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے اسی فریضے کے تحت پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ خار دار تار لگانے کے منصوبے پر کام شروع کر رکھا ہے تاکہ سرحد پار سے آنے والے دہشت گرد اور تخریب کار امن کی صورتحال کو خراب نہ کر سکیں‘ لیکن پاکستان نے ان اقدامات میں بہت دیر کر دی‘ حالانکہ گزشتہ سات دہائیوں پر محیط عرصے کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جب پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ مستقل طور پر حل کیا جا سکتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سابق شاہِ ایران کی مصالحانہ کوششوں سے سردار دائود اس مسئلے پر بات کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے اور اگر جولائی 1977 میں جنرل ضیاالحق ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ نہ الٹتے تو اس مسئلے کے حل کی جانب پیش قدمی ہو سکتی تھی۔
ضیاالحق کے گیارہ سالہ دور میں پاک افغان سرحدی تنازع حل کرنے کے بجائے افغانستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے کو ترجیح دی گئی‘ اور اس کردار کی ادائیگی میں پاک افغان سرحد نام کی کسی رکاوٹ کا کوئی نام نہ رہا۔ افغانستان سے جتنی مرضی تعداد میں مہاجرین اور مجاہدین کے روپ میں افغان باشندے جہاں سے چاہیں جب چاہیں پاکستان میں داخل ہو سکتے تھے۔ سرحد پر انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا بلکہ سرحد پر ان کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا جاتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ ایران اور پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندوں کی نقل مکانی کی سب سے بڑی وجہ افغانستان میں جاری خانہ جنگی تھی‘ لیکن ایران کے مقابلے میں پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کے رجوع کرنے کی ایک بڑی وجہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور پاکستان کے ذریعے افغان مہاجرین کے لئے بڑے پیمانے پر راشن اور امداد کی فراہمی بھی تھی۔
دسمبر 1979 میں سابق سوویت یونین کی مداخلت اور اس کے بعد افغان مہاجرین کے مختلف دھڑوں کے درمیان خانہ جنگی کی وجہ سے صورتحال یہ ہو گئی تھی کہ پہلے صرف افغانستان کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا‘ پھر کچھ پاکستانی حلقے‘ جن کا افغان مجاہدین کے ساتھ قریبی رابطہ تھا‘ بھی اس مطالبے میں شامل ہو گئے‘ کیونکہ انہیں ڈیورنڈ لائن کے اس طرف سے لڑنے کے لئے نوجوان بھیجنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی‘ حالانکہ ایک بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے ڈیورنڈ لائن کا تحفظ پاکستان کی علاقائی سالمیت اور قومی آزادی کیلئے انتہائی ضروری ہے‘ مگر ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف جہادی سپرٹ سے سرشار حلقوں کا ایک ہی نعرہ تھا ''چونکہ پاکستان اور افغانستان‘ دونوں برادر مسلم ممالک ہیں‘ اس لئے دونوں کے مابین سرحد کا کوئی جواز نہیں‘‘۔ 1996 میں جب طالبان افغانستان پر قابض ہوئے تو انہوں نے اس نعرے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان میں بدستور بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے آنے جانے پر اصرار کیا۔ ایک عرصے تک تو انہیں اپنی مرضی سے ''جہاں سے چاہیں‘ جب چاہیں‘‘ پاکستان کی سرحد عبور کرنے کی کھلی چھٹی تھی مگر مشرف حکومت کے دور میں جب اس پریکٹس کے خطرناک مضمرات کا احساس دلایا گیا تو پاکستان نے سرحد پار سفر کرنے والوں کیلئے سفری دستاویزات کی پابندی کو لازم قرار دینے کی کوشش کی۔ مشرف دور کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) معین الدین حیدر کے مطابق جب طالبان حکام کو بتایا گیا کہ آئندہ پاکستان آنے کیلئے ویزا اور پاسپورٹ درکار ہوں گے اور اس مقصد کے لئے مقررہ مقامات سے ہی سرحد عبور کرنے کی اجازت ہو گی‘ تو طالبان نے ان پابندیوں کو ماننے سے انکار کر دیا اور عرصہ دراز سے چلی آئی پریکٹس کے مطابق بغیر سفری دستاویزات کے پاکستان کی سرحد عبور کرنے پر اصرار کیا۔ جنرل معین الدین حیدر کے مطابق‘ بڑی کوشش کے بعد طالبان ویزے اور پاسپورٹ کی پابندیوں کے ساتھ مقررہ مقامات سے پاکستان داخل ہونے پر آمادہ ہوئے‘ لیکن مسئلہ پھر بھی مکمل طور پر حل نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاک افغان سرحد دنیا کی ان چند بڑی سرحدوں میں سے ایک ہے‘ جنہیں انتہائی پورس (porous) یعنی نفوذ پذیر کہا جاتا ہے۔ ہزاروں کلومیٹر طویل پاک افغان بین الاقوامی سرحد وادیوں‘ گھنے جنگلات‘ اونچی نیچی برف پوش پہاڑیوں اور ریگستانی علاقوں سے گزرتی ہے۔ اس لئے اس کے آر پار آمد و رفت کو مکمل طور پر ریگولیٹ کرنا ناممکن ہے۔ پھر سرحد کے دونوں طرف ایک ہی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق طورخم‘ چمن اور تین دیگر مقامات سے ہر روز پچاس ہزار سے زیادہ افراد‘ جن میں طالب علم‘ مریض‘ تاجر‘ مزدور اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں‘ پاک افغان سرحد کے آر پار آتے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے چلا آ رہا ہے مگر دہشت گردی کے خطرے کے پیشِ نظر پاکستان کی طرف سے سرحد پر آہنی خار دار تار لگانے کے فیصلے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ افغانستان سرحد پر خاردار تار لگانے کے خلاف ہے۔ جولائی کے آخری دنوں میں افغانستان اور بلوچستان کی سرحد پر واقع چمن کے مقام پر جو افسوسناک واقعہ پیش آیا‘ وہ انہی حالات کی پیداوار ہے۔ دہشت گردی اور کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کی غرض سے پاک افغان سرحد کی بندش یقینی طور پر روزانہ آنے جانے والوں کیلئے دقت کا باعث ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ چمن کا یہ واقعہ پاک افغان دو طرفہ خصوصاً تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے پاکستان کی طرف سے سابق سفیر محمد صادق کو نمائندہ خصوصی مقرر کرنے کے بعد رونما ہوا ہے۔ تقرری کے بعد ایمبیسیڈر محمد صادق کی کوششوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی اہم تجارتی راستوں کو بحال کیا گیا ہے۔ ان میں واہگہ کے راستے افغان تجارتی اشیا کی ترسیل بھی شامل ہے‘ لیکن چمن کے واقعہ نے ان کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو چاہئے کہ اس مسئلے کا کوئی طویل المیعاد حل ڈھونڈیں کیونکہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے‘ جو چاروں جانب سے خشکی سے گھرا ہوا ہے اور بیرونی تجارت کیلئے جن ممالک پر اس کا انحصار ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔