5 اگست کو پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ یومِ یکجہتی منانے کے لئے جن تقریبات کا اہتمام کیا‘ ان سب میں مرکزی اور سب سے اہم مطالبہ ایک ہی تھا‘ اور وہ یہ کہ بین الاقوامی برادری مقبوضہ وادیٔ کشمیر کی مسلم آبادی کے ساتھ گزشتہ ایک برس سے جاری بھارتی حکومت کے جابرانہ اور انسایت سوز سلوک کا نوٹس لے اور نریندر مودی کی حکومت پر اس ظلم و ستم کو ختم کرنے کے لئے زور دے اور دبائو ڈالے۔ وزیر اعظم جناب عمران خان نے اس موقع پر مظفر آباد میں آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس مطالبے کو دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری ایسے حالات سے گزر رہے ہیں جن کا نتیجہ آزادی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ برس 5 اگست کو نریندر مودی بہت بڑی غلطی کر بیٹھا ہے ۔اسی طرح آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ اس ادارے کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کا نا جائز اور غاصبانہ قبضہ ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسی طرح حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی پارٹیوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بین الاقوامی برادری کی خاموشی اور بے حسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تمام بڑے اور با رسوخ ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے فوری طور پر مداخلت کریں‘ ورنہ خطے کا امن سخت خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کی ہے اور شنید یہ ہے کہ پاکستان کی یہ درخواست منظور کر لی گئی ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار‘ اور اقوام متحدہ کی رکن ریاست ہونے کے ناتے پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر کی مخدوش صورت حال کی طرف اقوام متحدہ کی توجہ مبذول کروانے اور سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا پورا پورا حق رکھتا ہے اور پاکستان کے اس حق کا استعمال اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے‘ کیونکہ اقوام متحدہ کا بنیادی مقصد دنیا میں امن و استحکام کا قیام ہے اور جب کبھی اور جہاں کہیں کسی ملک کے کسی اقدام سے امنِ عالم کو خطرہ ہو‘ اقوام متحدہ کا چارٹر‘ سلامتی کونسل کو فوری اقدامات کا اختیار دیتا ہے۔
پاکستان کی بین الاقوامی برادری سے کشمیر کی موجودہ صورت حال میں مداخلت کی اپیل کو ایک اور تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے‘ اور وہ یہ کہ آج تک جموں و کشمیر سمیت پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات کو حل کرنے کے لئے جتنے بھی مذاکرات کے سلسلے ہوئے ‘ وہ اقوام متحدہ یا بین الاقوامی برادری کی مداخلت سے ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی جانب سے جب بھی بھارت سے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر باہمی مسائل حل کرنے کی پیشکش کی گئی‘ بھارتی قیادت نے اسے نظر انداز کر دیا۔ 2004 میں پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے اور متنازع مسائل کا دیرپا اور مستقل حل تلاش کرنے کے لئے دو طرفہ مذاکرات کا جو سلسلہ ''کمپوزٹ ڈائیلاگ‘‘ کے عنوان سے شروع کیا گیا تھا‘ اس کو شروع کروانے میں امریکہ‘ روس‘ یورپی یونین اور چین کا بھی ہاتھ تھا۔ یہ ممالک یا بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ اب بھی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل‘ انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے ادارے اور اوآئی سی کی جانب سے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی موجودہ صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار ان کی نیت اور خواہش کو ظاہر کرتا ہے‘ مگر ان خواہشات اور بیانات کے پس منظر میں بین الاقوامی برادری کا اپنا ایک موقف ہے‘ جسے دنیا کے اہم ممالک کے رہنما اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اپنے الگ الگ بیانات میں ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ کشمیر کے مسئلے کو پاکستان اور بھارت دو طرفہ مذاکرات اور پُر امن طریقے سے حل کریں۔ ساتھ ہی دونوں ملکوں پر زور دیا جاتا ہے کہ ان مذاکرات کو فوری طور پر شروع کرنے میں مدد دینے کے لئے سازگار ماحول پیدا کریں۔ اس کے لئے جہاں بھارت پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے پر زور دیا جاتا ہے‘ وہاں دونوں ملکوں کو باہمی کشیدگی کم کرنے کیلئے معاندانہ پروپیگنڈے اور اشتعال انگیز اقدامات سے احتراز کرنے کی بھی تلقین کی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کشمیر کی موجودہ خطرناک صورتحال سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہوئے سخت تشویش کا شکار ہے اور اس کشیدگی کو کم کرنے اور مسئلے کے حتمی حل میں مدد دینے کے لئے پوری طرح تیار ہے‘ مگر وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک پر دبائو ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ 5 اگست 2019 کے اقدام نے مسئلہ کشمیر کو اور بھی مشکل اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی رائے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی موجودہ حالات پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوں گے‘ اور اگر ان کی حکومت کو مذاکرات پر آمادہ کر بھی لیا جائے تو (میرے اپنے اندازے کے مطابق بھارت مشروط طور پر مذاکرات کے لئے آمادہ ہے) ایجنڈے میں کشمیر شامل نہیں ہو گاکیونکہ جیسا کہ سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمود خان نے کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے میں اپنے ایک فاضلانہ آرٹیکل میں کہا تھا کہ 5 اگست کے اقدام کے ذریعے بھارت نے کشمیر کے مسئلے کو پاکستان کے ساتھ کسی بھی مذاکرات میں شامل نہ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ بھارت کی پارلیمنٹ اس سے قبل دو قراردادوں کی شکل میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے چکی ہے‘ لیکن اس ٹھوس اور تاریخی حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت ہی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کشمیر کو متنازع قرار دے کر اسے 1999 میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر تیار ہو گئے تھے‘ اور سابق سیکرٹری خارجہ نیاز اے نائیک کے مطابق اگر جنرل مشرف کارگل کا مس ایڈونچر نہ کرتے تو اس مسئلے کا ایک ایسا حل نکلنے کی قوی امید تھی‘ جو نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ کشمیر ی عوام کے لئے بھی قابلِ قبول ہوتا۔ اب مگر نریندر مودی نے 5 اگست کا اقدام کر کے ایک بالکل مختلف اور نئی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ اس اقدام سے قبل اگرچہ بھارت کشمیر کو ایسا اٹوٹ انگ ظاہر کرتا تھا‘ لیکن ریاست کی جداگانہ حیثیت ختم نہیں کی گئی تھی۔ مودی نے نہ صرف آرٹیکل 370 اور 35A کو حذف کر کے ریاست کی جداگانہ حیثیت ختم کر دی ہے ‘ بلکہ اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے بھارت میں پوری طرح ضم کرنے کی راہ بھی ہموار کر دی ہے۔
ظاہر ہے یہ صورت حال نہ صرف کشمیری عوام بلکہ پاکستان کے لئے بھی ناقابلِ قبول ہے‘ اور اسی تناظر میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں اعلان کیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کسی بیک ڈور چینل کے ذریعے بھی مذاکرات نہیں کرے گا۔ لیکن میرے خیال میں مذاکرات کا دروازہ بند نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے بند کرنا چاہئے‘ کیونکہ سیاست‘ خواہ وہ بین الاقومی ہو یا اندرونی‘ ممکنات کا کھیل ہے‘ جس میں مشکل سے مشکل حالات میں بھی آگے بڑھنے کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری جموں و کشمیر کے علاقے کو متنازع سمجھتی ہے۔ حالیہ اقدامات کے ذریعے پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن نے برملا پیغام دے دیا ہے کہ پاکستانی قوم مکمل طور پر کشمیریوں کے ساتھ ہے اور یہ کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کو کوئی جبر ختم نہیں کر سکتا۔ ان حالات میں نریندر مودی کے اقدام کو دوام حاصل نہیں ہو سکتا اور بھارت جلد یا بدیر پاکسان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام متنازع امور حل کرنے پر آمادہ ہو جائے گا۔