جن لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال تھا کہ امریکہ میں کورونا وبا سے روزانہ ہلاک ہونے والوں کی شرح کم کیوں نہیں ہو رہی‘ انہیں واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے قومی کنونشن کے چوتھے روز کی تقریب میں شامل حاضرین کو دیکھ کر اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔ اس نشست میں حاضرین کی تعداد پہلے تین دنوں کے مقابلے میں خاصی زیادہ تھی‘ کیونکہ آئندہ چار سال کے لئے صدارتی نامزدگی قبول کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے کنونشن کے آخری اجلاس سے خطاب کرنا تھا۔ اسی لئے مہمانوں کی ایک بڑی تعداد کو مدعو کیا گیا تھا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ان سب میں بہت کم ایسے تھے‘ جنہوں نے ماسک لگا رکھا تھا۔ علاوہ ازیں وہ چھ فٹ کے لازمی ''سماجی فاصلے‘‘ پر بھی نہیں تھے‘ اور دیگر حفاظتی تدابیر کا بھی خیال نہیں رکھا گیا تھا‘ حالانکہ امریکی میڈیا کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق جتنے دن ری پبلکن پارٹی کا کنونشن جاری رہا‘ اس دوران 3688 امریکی شہری کورونا وائرس کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھے۔ یہ تعداد نائن الیون میں ہلاک شدگان امریکیوں کی تعداد سے زیادہ ہے (نائن الیون کے حملوں میں 2977 امریکی شہری ہلاک ہوئے تھے) اور جب سے کورونا وائرس کی وبا پھوٹی ہے‘ اس وقت سے لے کر اب تک امریکہ میں ایک لاکھ اسی ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود امریکی صدر نے اپنی 70 منٹ کی تقریر میں کورونا وائرس پر اپنی فتح کا اعلان کر دیا اور دعویٰ کیا کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں کورونا وائرس کی وبا کے خلاف ان کی حکمت عملی زیادہ کامیاب رہی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے فخریہ اعلان کیا کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ٹیسٹنگ بھی امریکہ میں کی گئی اور اس کے لئے انہوں نے 750 ملین ڈالر کی خطیر رقم دے رکھی ہے۔ اپنی تقریر میں امریکی صدر کورونا وائرس کو 'چائنا وائرس‘ کہتے رہے۔ چین‘ خاص طور پر اس کے تجارت کے مسئلے پر اختلافات صدر ٹرمپ کی تقریر کا اہم موضوع تھے‘ اور اس حوالے سے امریکی صدر نے صرف چین کی عالمی پالیسی کو ہی ہدف تنقید نہیں بنایا بلکہ اپنے حریف ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کو ایک کمزور شخص قرار دے کر امریکیوں کو ڈرایا کہ اگر جو بائیڈن صدارتی انتخابات جیت جاتے ہیں تو ہر امریکی کے گھر میں چین گھس جائے گا۔
امریکی صدر کی یہ تقریر کئی لحاظ سے دلچسپ اور اہم تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے مستقبل اور باقی دنیا‘ جن میں امریکہ کے پُرانے اور روایتی یورپی حلیف ممالک بھی شامل ہیں‘ کے بارے میں ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ اس حوالے سے اپنے پُرانے موقف پر قائم ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلنے سے امریکہ کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا ہے‘ خاص طور پر وہاں پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں (صدر ٹرمپ) نے دعویٰ کیا کہ وہ امریکی معیشت کو دوبارہ ترقی کے راستے پر ڈال کر اسے تاریخ کی سب سے مضبوط معیشت بنا دیں گے۔ اس منزل پر پہنچنے کے لئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی گزشتہ چار برس کی انتظامیہ نے ایسے اقدامات کئے ہیں‘ جن کو کرنے کی آج تک کسی امریکی صدر نے جرأت نہیں کی‘ اور ٹرمپ کے مطابق جو بائیڈن میں تو ایسے فیصلے کرنے کی ذرہ برابر بھی ہمت نہیں ہے۔ جن اقدامات کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لئے قابلِ فخر قرار دیا ہے‘ ان میں کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ تجارتی معاہدے ''نیفٹا‘‘ کا خاتمہ‘ یورپی ممالک سے نیٹو کے تحت سفارتی اخراجات میں 130 بلین ڈالر کی وصولی اور امریکہ میں تارکینِ وطن کی آمد پر پابندی شامل ہیں۔ اپنی تقریر میں ان اقدامات کا ذکر کر کے صدر ٹرمپ دراصل امریکیوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک ''عظیم امریکہ‘‘ کی خاطر سب سے بڑا اقدام کر سکتے ہیں‘ حتیٰ کہ وہ امریکی مفاد کی خاطر امریکہ کے اتحادیوں کو بھی بخشنے کے لئے تیار نہیں۔ شمالی امریکہ‘ یورپ‘ مشرقِ وسطیٰ حتیٰ کہ انڈوپیسیفک خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی ان کی پہلی ترجیح تجارتی شعبے میں امریکہ کے لئے رعایات حاصل کرنا ہے تاکہ امریکہ میں ترقی اور خوش حالی کو فروغ دیا جا سکے۔ صدر ٹرمپ کے ان الفاظ سے‘ جن کا انہوں نے اپنی تقریر میں کثرت سے استعمال کیا‘ امریکہ کا متوسط طبقہ بہت خوش ہوتا ہے۔ اس طرح ٹرمپ کے ووٹوں میں اضافہ متوقع ہے۔ امریکی صدر کی تقریر کے بعد رائے عامہ کے جو سروے کئے گئے‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے جو بائیڈن کے مقابلے میں اپنے آپ کو جس طرح ایک مضبوط قوت ارادی والا امیدوار پیش کیا ہے‘ اس سے ان کے حریف جو بائیڈن کی ہردلعزیزی میں چھ پوائنٹ کی کمی آئی ہے‘ حالانکہ دو ماہ قبل کے ایک سروے میں جو بائیڈن ٹرمپ کے مقابلے میں 9 پوائنٹ سے آگے تھے۔ ٹرمپ نے جو بائیڈن کو سوشل ازم کا حامی قرار دے کر امریکی سرمایہ داروں اور خصوصاً اس طبقے کے لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کی ہے‘ جن کی جیبوں میں ٹرمپ کی گزشتہ ساڑھے تین برسوں کی معاشی اصلاحات کی وجہ سے زیادہ ڈالر آئے ہیں۔ انہیں مخاطب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا‘ اگر جو بائیڈن ملک کا صدر بن گیا تو جو کچھ تم لوگوں نے گزشتہ تین برسوں میں حاصل کیا ہے‘ وہ سب چِھن جائے گا۔ اسی طرح سوشل ازم کا ہوّا کھڑا کر کے ٹرمپ نے امریکہ کی سفید فام مڈل کلاس کے ووٹ پکے کرنے کی کوشش کی۔ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں سیاہ فام ووٹرز کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ سیاہ فام امریکیوں کے لئے جتنا انہوں نے گزشتہ چار سال کی مدت میں کیا ہے‘ جو بائیڈن اتنا 47 سالوں میں بھی نہیں کر سکا۔ 2016 کے صدارتی انتخابات میں سیاہ فام لوگوں کے ووٹ کل ڈالے گئے ووٹوں کا 10 فیصد حصہ تھے۔ ان میں سے 90 فیصد ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن نے حاصل کئے تھے۔ 2020 کے صدارتی انتخابات کی مہم میں ٹرمپ کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ان دس فیصد ووٹوں کے کچھ حصے کو اپنی طرف کھینچ لیں۔ اس طرح ان کی جیت یقینی ہو جائے گی کیونکہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات کا پرچار کر کے اور بیرونی تارکینِ وطن کی امریکہ میں آمد پر پابندی عائد کر کے انہوں نے سفید فام اور مڈل کلاس کے ووٹ پکے کر لئے ہیں۔ چین اور جو بائیڈن پر تابڑ توڑ حملوں کے علاوہ ٹرمپ کا ایک اور نمایاں پہلو اسرائیل کی حمایت میں کئے گئے اقدامات کا فخریہ ذکر ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی‘ سطح مرتفع گولان کا اسرائیل میں انضمام اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیل کے حق کو تسلیم کرنے کے امریکی فیصلوں کا ذکر کیا۔ اسی طرح وہ 2015 میں ایران کے ساتھ کئے گئے جوہری معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کو بھی اپنے کارناموں میں شامل کرتے ہیں۔ ان اقدامات کا اعلانیہ اور فخریہ اعتراف کر کے صدر ٹرمپ امریکی رائے عامہ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ 2016 کی انتخابی مہم میں انہوں نے امریکی قوم سے جو وعدے کئے تھے‘ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد پورے کر دیئے ہیں اور اب بھی جو وعدے کر رہے ہیں‘ وہ پورے کریں گے۔ ان وعدوں میں سر فہرست امریکی معیشت کو تاریخ کی سب سے مضبوط معیشت بنانا اور امریکہ میں انارکی کا خاتمہ ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام میں ٹرمپ کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے جو نکتہ چینی ہو رہی تھی‘ اس کا ازالہ کرنے کے لئے ٹرمپ نے امریکیوں کو یہ خوش خبری سنائی ہے کہ ملک میں بہت جلد‘ ہو سکتا ہے سالِ رواں کے اختتام سے پہلے‘ ویکسین دستیاب ہو جائے گی۔