2018ء کے انتخابی نتائج کی روشنی میں جب پاکستان مسلم لیگ ن کی جگہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاق اور ملک کے دیگر (پنجاب اور خیبر پختونخوا) صوبوں میں حکومت قائم ہوئی تو موخرالذکر کو اول الذکر کے شروع کئے گئے ایسے ترقیاتی منصوبے بھی ورثے میں ملے‘ جو اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں تھے۔ ان میں بیشتر انفراسٹرکچر کے منصوبے تھے اور لاہور‘ سیالکوٹ موٹر وے (M-11) کا منصوبہ بھی ان میں شامل تھا۔ 91 کلومیٹر لمبی اور فور لین اس موٹر وے کا مقصد سیالکوٹ براستہ ڈسکہ‘ گوجرانوالہ اور لاہور جی ٹی روڈ کے متبادل ایک ایسی شاہراہ کی تعمیر تھا‘ جو ایک طرف کم وقت میں پنجاب کے مشرقی حصے سے مسافروں کو لاہور پہنچنے میں مدد دے اور دوسری طرف جی ٹی روڈ پر ٹریفک کے بھاری رش کو کم کر سکے۔ جن لوگوں کو کبھی لاہور گوجرانوالہ براستہ جی ٹی روڈ سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ اس سڑک پر ٹریفک کا کیا حال ہے۔ خصوصاً شاہدرہ کے مقام پر راوی کا پل کراس کرنے میں بہت زیادہ وقت صرف ہوجاتا ہے۔ اس تکلیف سے بچنے کے لئے وہ لوگ‘جن کے پاس اپنی پرائیویٹ سواری ہے‘ نئی تعمیر شدہ لاہور سیالکوٹ موٹروے کو ترجیح دیتے ہیں‘کیونکہ جہاں جی ٹی روڈ کے راستے انہیں لاہور سے سیالکوٹ پہنچنے میں ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں‘ وہاں وہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے کو استعمال کر کے 50 منٹ میں سیالکوٹ پہنچ جاتے ہیں۔ اس سہولت کی وجہ سے موٹر وے پر ٹریفک کا حجم کافی ہے اور اس میں رات کو چلنے والی ٹریفک بھی شامل ہے۔ اس لئے سی سی پی او لاہور کا یہ بیان درست نہیں کہ لاہور سیالکوٹ موٹروے ایک اجاڑ اور سنسان راستہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مارچ میں اس کے افتتاح کے بعد چھ ماہ گزر جانے کے باوجود اس موٹر وے پر پولیسنگ کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ معاہدے کے مطابق موٹر وے کا انتظام و انصرام دیکھ بھال اور مرمت ایک خاص مدت کے لئے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے پاس ہے؛ چنانچہ اس کے عوض ٹول ٹیکس بھی یہی ادارہ وصول کرتا ہے‘ لیکن سکیورٹی کا انتظام نہیں کیا گیا۔ اس بنا پر موجودہ واقعہ سے پہلے بھی ڈاکہ زنی کی کئی وارداتیں اس موٹر وے پر ہو چکی ہیں۔ مسافروں نے متعدد بار انتظامیہ کی توجہ اس طرف دلائی‘ احتجاج بھی کیا گیا‘ دیگر کئی اداروں نے بھی سکیورٹی کی عدم فراہمی سے پیدا ہونے والے خطرات سے حکام بالا کو آگاہ کیا‘ مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے یہ کہہ کر کہ موٹرو ے پر سکیورٹی فراہم کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے‘ صوبائی حکومت کو اس حادثے سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی ہے‘ مگر جس علاقے میں یہ سانحہ وقوع پذیر ہوا‘ وہ لاہور کا حصہ ہے اور سوال یہ ہے کہ اگر اب پنجاب پولیس نے اس موٹروے کی سکیورٹی سنبھال لی ہے ‘ تو اس سے پہلے یہ اقدام کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ اندوہناک واقعہ سکیورٹی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیش آیا‘ جسے فراہم کرنا پنجاب کے وزیر اطلاعات کے بقول وفاقی وزارتِ مواصلات کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس وزارت کا چارج وزیر اعظم کے معتمدِ خاص جناب مراد سعید کے پاس ہے‘ جنہیں وزیر اعظم نے غالباً اپوزیشن خصوصاً بلاول بھٹو کے بیانات کا ترکی بہ ترکی جواب دینے پر مامور کر رکھا ہے اور سب نے دیکھا ہو گا کہ وہ اپنے اس فرض کی ادائیگی میں ذرہ بھر کوتاہی نہیں کرتے‘ لیکن اس واقعہ پر وہ ایسے خاموش ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔اور اب اگر بولے ہیں تو یہ کہا ہے کہ مجھ سے استعفے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ میرے استعفے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ حالانکہ وزیر موصوف کو اپنے استعفے کے مطالبے پر اعتراض جڑنے کے لئے قومی اسمبلی میں اس پر طویل تقریر کرنے کے بجائے ایوان میں اس رپورٹ کے ساتھ پیش ہونا چاہیے تھا کہ اس افسوسناک واقعہ کے بعد اُن کی وزارت نے کیا کیا اقدامات کئے ہیں‘ اور اب تک اگر فلاں فلاں کام نہیں ہو سکا تو اس کی وجہ کیا تھی۔ وفاقی وزیر مواصلات کا منصب اُن سے اس ذمہ داری کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس دلخراش وقوعے کی شدت کو محسوس کریں اور ان کوتاہیوں کا ازالہ کریں جو موٹر وے پر ایسے جرائم کا سبب بنتی ہیں۔ زبانی صفائیاں پیش کرنے کے بجائے انہیں عملی طور پر ثابت کرنا چاہیے کہ وہ ایک اہم وزارت کو ذمہ داری کے ساتھ چلا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کا اولین کام اپوزیشن کو کچلنا اور نیچا دکھانا ہے‘ نہ کہ عوام کو سکیورٹی فراہم کرنا۔ معاملات کس قدر خراب ہیں ‘اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ لاہور اسلام آباد موٹر وے پر بھی سکیورٹی کی صورتحال مخدوش ہے۔ اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے لاہور سیالکوٹ موٹروے واقعہ کے اگلے ہی روز شیخوپورہ کے قریب ڈاکوئوں نے قریب سے درخت اور جھاڑیاں کاٹ کر موٹروے کو بلاک کر دیا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق بیس کے قریب گاڑیوں کے مسافروں سے نقدی اور دیگر قیمتی سامان چھین کر فرار ہو گئے۔ لاہور اسلام آباد موٹروے ایم ٹو کی پولیس ڈاکہ زنی کی اس واردات پر پہلے تو خاموش رہی‘ لیکن جب میڈیا میں اس واقعہ کا تواتر کے ساتھ ذکر ہونے لگا تو موٹر وے پولیس کی طرف سے ایک مختصر ہینڈ آئوٹ جاری کیا گیا جس میں اس واقعہ کا اعتراف تو کیا گیا لیکن اس دعوے کے ساتھ کہ ڈاکوئوں نے صرف ایک گاڑی کو روک کر سواریوں کو لوٹنے کی کوشش کی تھی۔ ہینڈ آئوٹ کا آخری فقرہ یہ تھا کہ واقعہ کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف موٹر وے بلکہ بڑی بڑی شاہراہوں پر سکیورٹی کا نظام ناپید ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق متعلقہ حلقوں نے متعدد بار باقاعدہ وزارتِ مواصلات کے اعلیٰ حکام کی توجہ مبذول کروائی‘ لیکن اس صورتحال کی طرف وزارت عملی اقدام کے بجائے فائلوں پر سو رہی ہے۔ میرے ایک جاننے والے ملک کے شمالی علاقوں میں اہم تعمیراتی منصوبوں کے تحت ٹھیکیداری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگست 2018ء میں جب یہ حکومت قائم ہوئی تو وزارتِ مواصلات کے انچارج وزیر نے تمام ٹھیکیداروں اور منصوبوں پر کام کرنے والے عملے سے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ نون لیگ کی حکومت نے ان منصوبوں میں اربوں کی کرپشن کی ہے اور کمیشن کھایا ہے۔ تم لوگوں کا فرض ہے کہ کرپشن کے ان سکینڈلوں کی تمام تفصیلات ہمیں مہیا کرو ‘ لیکن آٹھ ماہ کام معطل رہنے کے بعدبھی جب وزارت مواصلات کو کرپشن اور کمیشن کا کوئی کیس نہ ملا تو تمام ٹھیکیداروں اور کام کرنے والے انجینئرز پر نون لیگ کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کر دیا گیا۔ لاہور موٹر وے پر وقوع پذیر ہونے والے دلخراش واقعہ نے صرف سکیورٹی کی ناکامی کے مسئلے کو ہی اجاگر نہیں کیا‘ اس سانحے نے مزید کئی سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ موجودہ ریاستی نظام‘ پاکستان جس کا ایک تسلیم شدہ حصہ ہے‘ کی اہم خصوصیات سترہویں صدی عیسوی کے سیاسی افکار کی روشنی میں متعین کی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک مفکر تھامس ہابس بھی تھا‘ جس نے ریاست کی سب سے اہم صفت یعنی اقتدارِ اعلیٰ کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو ریاست اپنے عوام کو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہے‘ وہ اپنی بقا کا جواز کھو دیتی ہے۔ پروفیسر لاسکی کے مطابق موجودہ دور میں چونکہ حکومت اور ریاست میں اختیارات کا مالک ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں‘ اس لئے یہ اصول موجود ہ دور کی ہر حکومت پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر کوئی حکومت معاشرے میں سکیورٹی قائم کرنے میں ناکام رہے تو تھامس ہابس کے مطابق معاشرے کا حالتِ فطرت کی طرف لوٹ جانا ناگزیر ہو جاتا ہیـ‘ جس میں نہ کوئی امن ہوتا ہے ‘ نہ ترقی اور یوں انسان تہذیب اور ثقافت سے دور ہو جاتا ہے اور معاشرے میں ایک مستقل حالتِ جنگ بپا ہو جاتی ہے جس میں باہمی تعاون ‘ محبت اور برداشت کے بجائے ہر فرد ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ کیا ہم ایسی حالتِ فطرت کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں؟