17 ستمبر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل مشترکہ اجلاس میں حکومت کے پیش کردہ انسداد دہشت گردی سے متعلقہ تین بل منظور کر لئے گئے۔ ان بلوں کی بعض دفعات کو آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر حزبِ اختلاف نے چند ترامیم پیش کی تھیں‘ لیکن حکومت نے ایوان میں ان اعتراضات کے جواب میں وضاحت پیش کرنے کے بجائے سپیکر کے ذریعے، ووٹنگ کروائی جس میں 190 کے مقابلے 200 ووٹوں سے یہ بل منظور کر لئے گئے۔ حکومت کے وزرا اسے حکومت کی فتح اور اپوزیشن کی شکست قرار دے رہے ہیں۔ ووٹنگ کا نتیجہ آنے کے بعد ایوان میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں اپوزیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مفاد پرستوں کا ٹولہ قرار دیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کسی مرحلے پر بھی اس قانون سازی کے خلاف نہیں تھی اور دہشت گردوں کے مالی وسائل پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی طرف سے مطلوب قانونی اقدامات پر چند مذہبی، سیاسی جماعتوں کے سوا باقی سب سیاسی پارٹیوں کا اتفاق تھا۔ گزشتہ برس اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف کے عام اجلاس منعقدہ پیرس میں شرکت کے موقع پر مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھاکہ پاکستان میں تمام ادارے اس مسئلے پر ایک پیج پر ہیں اور اسلام آباد نے انسداد دہشتگردی کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف سے جو کمٹمنٹ کی ہے‘ وہ اس کی دی ہوئی ڈیڈ لائن یعنی فروری 2020ء میں پوری کردی جائے گی۔
یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے مطابق دہشتگردی کے خلاف قانونی اور انتظامی اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کو گرے لسٹ (grey list) میں سب سے پہلے 2019ء میں ڈالا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھاکہ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف عالمی ادارے سے تعاون میں ناکام رہا ہے بلکہ اس کے ہاں دہشت گرد تنظیموں کو اندرون اور بیرون ملک ذرائع سے فنڈز اکٹھے کرنے کی پوری آزادی ہے۔ دہشت گرد ان فنڈز سے نہ صرف اسلحہ خریدتے ہیں بلکہ دہشت گردوں کی بھرتی، ان کی نقل و حرکت اور تربیت پر جو اخراجات اٹھتے ہیں، وہ بھی ان فنڈز سے پورے کئے جاتے ہیں۔ 2015ء میں جب دنیا خصوصاً مشرق وسطیٰ میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ ہوا اور داعش اور القاعدہ نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں تو عالمی برادری نے ایف اے ٹی ایف کے ذریعے دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے والے ان فنڈز کی روک تھام کے لیے تمام ممالک کے سخت اقدامات کرنے پر زور دیا تھا۔ ان میں پاکستان بھی شامل تھا جہاں عسکری محاذ پر اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری تھیں مگر غیرقانونی طور پر منتقل کئے جانے والے فنڈز کی روک تھام کیلئے کوئی قانونی ڈھانچہ نہیں تھا۔ اسے قائم کرنے کیلئے ایف اے ٹی ایف نے 2015ء میں پاکستان کو جو ہدایات جاری کی تھیں، ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کو جون 2018ء میں دو ماہ کیلئے گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا‘ اس سے 27 نکات پر مشتمل ایک ایکشن پلان پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے 15 ماہ کی مدت مقرر کی گئی۔ اس وقت پاکستان میں پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا اور امور مملکت ایک عبوری حکومت کے ہاتھوں میں تھے۔ اس لیے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیئے گئے 27 شرائط پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہو سکا؛ چنانچہ اکتوبر 2019ء میں جب ایف اے ٹی ایف کے ایک عام اجلاس میں‘ جس میں 206 ممالک اور متعلقہ اداروں کے نمائندے شریک تھے، پاکستان کی پرفارمنس کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہواکہ جن شرائط پر پوری طرح عملدرآمد کیا، ان کی تعداد صرف پانچ تھی۔ اس وقت پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا مگر اس جانب کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا تھا۔ اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو تمام نکات پر عملدرآمد کیلئے چار ماہ کی آخری ایکسٹنشن دے دی اور ساتھ ہی خبردار کیاکہ اگر فروری 2020 تک پاکستان نے ان شرائط کے تحت دہشتگردوں کی مالی اعانت کرنے والے افراد یا ذرائع کے خلاف سخت اقدام کرنے کیلئے قانون سازی نہ سازی نہ کی اور دہشتگردی کے خلاف دیگر اقدامات نہ کئے تو اسے مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس میں اس کے بلیک لسٹ ہونے کا اندیشہ بھی شامل ہے۔ اسی اجلاس کے بعد مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی دی ہوئی ڈیڈ لائن پوری کرے گا کیونکہ ملک میں اس مسئلے پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ حفیظ شیخ کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں کے برعکس اس مسئلے کی نزاکت اور اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس سے صرف قوم کی اجتماعی کوششوں سے ہی نمٹا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں انتہا پسند گروپوں اور دہشت گرد تنظیموں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ وہ نہ صرف عسکری طور پر انتہائی منظم اور تربیت یافتہ ہیں بلکہ مذہب کی آڑ میں وہ عوام کے جذبات کو بھڑکانے میں بھی انتہا درجے کی مہارت رکھتی ہیں۔ اس لیے ہر حکومت کو ان کے ساتھ بڑی احتیاط سے ڈیل کرنا پڑتا ہے۔ ووٹ کی سیاست میں اُن کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ تقریباً ہر بڑی سیاسی پارٹی ان انتہا پسند گروپوں سے یا تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا انتخابی اتحاد کی کوشش کرتی ہے‘ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت، جو آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے، ملک میں انتہا پسندی یا دہشت گردی کا فروغ چاہتی ہے بلکہ 2014ء کے دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں، دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے ناگزیر تمام اقدامات کو قومی سلامتی کا لازمی حصہ سمجھتی ہیں؛ چنانچہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن پر یہ الزام کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کیلئے قانون سازی کی مخالفت دہشت گردوں کی حمایت میں کر رہی ہیں، بلا جواز ہی نہیں بلکہ افسوسناک ہے۔ لگتا ہے اس طرح قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے ایک انتہائی اہم اور نازک مسئلے کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے متنازع بنایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے چند روز پہلے کہا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے مسئلے پر پاکستان کی اپوزیشن اور بھارت ایک ہی پیج پر ہیں جبکہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اپوزیشن پر الزام عائد کیا تھاکہ وہ ایف اے ٹی ایف کے مسئلے پر عوام سے جھوٹ بول رہی ہے۔
جناب وفاقی وزیر قانون کی خدمت میں گزارش ہے کہ ایف اے ٹی ایف پر سچ کہنے کے لیے اپوزیشن کے پاس بہت مواد موجود ہے لیکن انہیں ڈر ہے کہ کہیں ایک اور ''ڈان لیک‘‘ سامنے نہ آ جائے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ 2012ء سے 2018ء تک جو بھی حکومتیں ملک میں برسر اقتدار رہیں، انہوں نے پورے خلوص اور محنت کے ساتھ اس مسئلے پر پاکستان کے قومی سلامتی کے مفادات کا دفاع کیا اور اگر چند ''لغزشوں‘‘ یا ''مجبوریوں‘‘ کی وجہ سے پاکستان کو ''گرے لسٹ‘‘ میں ڈال دیا گیا تھا تو انہوں نے ملک کو کلیئر کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کا اصرار تھاکہ مذکورہ قانون سازی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے ضروری ہے۔ اپوزیشن اس سے اختلاف نہیں کیا بلکہ حکومت کو تعاون کی پیشکش کی؛ البتہ انہیں خدشہ تھا کہ ملک میں اس وقت شدید سیاسی محاذ آرائی کی حالت میں حکومت ان قوانین کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرے گی۔ یہ خدشات صحیح ہیں یا غلط، اپوزیشن کو ان کے اظہار کا پورا حق ہے، اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ مصالحانہ ماحول میں بات چیت کے ذریعے ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں پولیٹیکل ڈیوائڈ اتنی گہری ہو چکی ہے کہ فریقین ایک دوسرے کی بات سننے یا سمجھنے کی بجائے باہمی الزام تراشی پر اتر آتے ہیں۔