مئی 2014ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد امیدوار نریندر مودی نے اپنی تقریب حلف برداری میں سارک کے رکن ممالک کے سربراہانِ ریاست و حکومت کو خصوصی طور پر مدعو کیا تو بیشتر تجزیہ کاروں اور مبصرین نے اسے نئی بھارتی حکومت کی جانب سے جنوبی ایشیا کے بارے میں ایک نئی پالیسی کا پیش خیمہ قرار دیا‘ کیونکہ یہ اقدام بھارت کی سابقہ روایات سے ہٹ کر تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ نئی حکومت اب جنوبی ایشیا پر فوکس کرے گی‘ اور اس کی وجہ واضح تھی کہ کئی برسوں پر محیط عرصے کے دوران چین نے جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر معاشی‘ تجارتی اور سفارتی تعلقات میں اضافہ کر کے خطے میں ایک اہم پوزیشن حاصل کر لی تھی۔
جنوبی ایشیا کے جن ممالک کے ساتھ چین کے دو طرفہ معاشی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوا‘ ان میں بھارت بھی شامل ہے‘ مگر بھارت کو اور خصوصاً نریندر مودی کو خطے کے دیگر چھوٹے ممالک کے ساتھ چین کے ان بڑھتے ہوئے تعلقات پر تشویش تھی۔ پاکستان کے ساتھ تو چین کے دوستانہ تعلقات 1960 کی دہائی سے چلے آ رہے تھے‘ مگر نیپال اور سری لنکا کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو بھارت کی قومی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھا جا رہا تھا۔ بی جے پی سے پہلے ایک لمبے عرصے تک برسر اقتدار رہنے والی نیشنل کانگریس بھی اسی سوچ کی حامل تھی‘ مگر بی جے پی اسے بھارت کے لئے ایک سنگین خطرہ قرار دے رہی تھی‘ اور اس کی ذمہ داری براہ راست کانگریس پر ڈال رہی تھی‘ جس نے بی جے پی کے دعوے کے مطابق چین کے بارے میں نرم پالیسی اپنا کر اسے جنوبی ایشیا اور بحرِ ہند میں پائوں پھیلانے کا موقع فراہم کیا۔
بھارت کی ہر حکومت نے جنوبی ایشیا اور بحرِ ہند کو اپنا حلقہ اثر سمجھا ہے‘ اور اسی سوچ کی بنیاد پر اس نے خطے سے باہر‘ ہر بڑی طاقت‘ خواہ وہ امریکہ ہو یا چین‘ کی طرف سے جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک کے ساتھ براہ راست تعلقات کو اپنے قومی سلامتی کے مفادات کے منافی سمجھا ہے۔ ویسے تو بھارت پورے جنوبی ایشیا اور بحرِ ہند کے علاقوں کو اپنا حلقہ اثر سمجھتا ہے مگر نیپال اور سری لنکا اپنے مخصوص جغرافیائی محلِ وقوع کی بنا پر بھارت کیلئے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں ملک بھارت کی جنوبی ایشیا کے بارے میں حکمت عملی کے لئے اتنے اہم ہیں کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے آزادی سے ایک آدھ برس قبل دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آزادی کے بعد بھارت اور مذکورہ دونوں ملکوں پر مشتمل ایک وفاقی ریاست قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس تجویز پر سری لنکا اور نیپال‘ دونوں میں سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا‘ بلکہ سری لنکا میں تو اس تجویز کے خلاف ملک کی سیاسی پارٹیوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ احتجاج کرنے والی ان پارٹیوں میں ''سیلون کانگریس‘‘ پارٹی سب سے آگے تھی‘ حالانکہ یہ سیاسی پارٹی سری لنکا میں تامل نسل کی ہندو اقلیت کی نمائندہ سمجھی جاتی تھی۔ اسی طرح نیپال‘ جو اپنی 85 فیصد سے زیادہ ہندو آبادی کے ساتھ دنیا میں بھارت کے بعد واحد ہندو ملک ہے‘ میں بھی پنڈت نہرو کی اس تجویز کی شدید مخالفت کی گئی تھی۔ جنوبی ایشیا کے دیگر چھوٹے ممالک مثلاً پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھوٹان کی سرحدیں بے شک بھارت سے ملتی ہیں‘ لیکن سری لنکا اور نیپال اس لحاظ سے منفرد خصوصیت کے حامل ممالک ہیں کہ ان کا بھارت کے ساتھ جغرافیائی ہی نہیں بلکہ انتہائی قریبی مذہبی‘ ثقافتی‘ لسانی اور معاشی تعلق بھی ہے۔ نیپال کی اکثریتی ہندو آبادی ان اعلیٰ طبقے کے ہندوئوں کی ہے‘ جو بارہویں اور تیرہویں صدی میں شمالی ہندوستان پر مسلم حملہ آوروں سے جان بچانے کیلئے مزید شمال کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے تھے اور انہوں نے نیپال میں پناہ لے لی تھی۔ اس وقت سے آج تک بیشک نیپال ایک علیحدہ اور آزاد ملک کی حیثیت سے قائم چلا آرہا ہے مگر ثقافتی‘ سماجی‘ اقتصادی اور تجارتی لحاظ سے نیپال اور بھارت کے مابین جو قربت کے رشتے پائے جاتے ہیں‘ وہ دنیا کے کسی حصے میں واقع دو ممالک کے مابین شاید ہی ایسے ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ سری لنکا میں بدھ مت کا پرچار کرنے والوں میں مہاراجہ اشوک کا ایک بیٹا بھی تھا‘ جو بدھ بھکشو کے روپ میں سری لنکا میں مقیم رہا۔ اسی طرح سری لنکا واحد ملک ہے‘ جس کا ہندوئوں کی مذہبی کتاب ''رامائن‘‘ میں باقاعدہ ذکر ہے۔ تامل نسل کے ہندو‘ جو سری لنکا کی سب سے بڑی اقلیت ہے‘ اور ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں آباد ہے‘ ان ہندوئوں کی اولاد ہیں‘ جنہیں انگریز اپنے نوآبادیاتی قبضے کے دوران جنوبی ہندوستان سے سیلون کے چائے اور ربڑ کے باغات میں بطور مزدور کام کیلئے اپنے ساتھ لائے تھے۔ انگریز نوآبادیاتی دور میں نیپال اور سری لنکا کے برٹش انڈیا سے تعلقات بہت گہرے اور مربوط تھے‘ کیونکہ ایک ہی نوآبادیاتی طاقت یعنی برطانیہ اس خطے میں غالب طاقت تھی۔ اگرچہ نیپال براہ راست برطانوی نوآبادی نہیں تھا‘ مگر اس کی دفاعی اور خارجہ پالیسی برطانیہ کے کنٹرول میں تھی۔ سری لنکا کی صورتحال مختلف تھی۔ چائے اور ربڑ کی پیداوار کی وجہ سے سری لنکا اس وسیع اقتصادی ڈھانچے کا ایک حصہ تھا‘ جسے برطانیہ نے نہر سویز کے مشرق میں واقع نوآبادیات کے وسائل کو لوٹنے کیلئے قائم کر رکھا تھا۔ اس لئے نہ صرف سیاسی اور انتظامی بلکہ معاشی امور میں بھی سری لنکا اور برٹش انڈیا کے مابین گہرے روابط تھے؛ تاہم حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود سری لنکا میں ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے ابھرنے اور بین الاقوامی نظام کا ایک علیحدہ اور باوقار حصہ بننے کی خواہش پروان چڑھتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد جنوبی ایشیا میں مغربی نوآبادیاتی نظام کا سورج ڈوبنے لگا اور اس کی جگہ آزادی کے چڑھتے ہوئے سورج کی کرنیں بکھرنے لگیں تو سری لنکا میں ایک علیحدہ قومی تشخص کے تحت آزاد ریاست کے قیام کے حق میں مطالبہ کیا جانے لگا۔ سری لنکا (جو آزادی سے قبل سیلون کہلاتا تھا) کی تمام سیاسی پارٹیاں اس مطالبے کے حق میں تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سیلون اور نیپال قوم پرست آزادی کی تحریک ہندوستان کی قوم پرست آزادی کی تحریک سے متاثر تھے اور دونوں ملکوں میں آزاد بھارت کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات کے قیام کی بھی خواہش موجود تھی‘ مگر ان ملکوں میں کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی قسم کی فیڈریشن یا کنفیڈریشن میں بھارت کا حصہ بننے کے حق میں نہیں تھی۔ اس کا مظاہرہ نہرو کی تجویز کے خلاف نیپال اور سیلون کے رد عمل کے طور پر کیا جا چکا تھا‘ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آزادی کے بعد بھارت کی ہر حکومت خصوصاً کانگریس نے مذکورہ دونوں ممالک کے قومی مفادات اور احساسات کو نظر انداز کیا اور ایسا رویہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں ان ملکوں اور بھارت کے مابین بدگمانی کبھی ختم نہیں ہوئی‘ بلکہ گاہے بحران کی صورت میں سر اٹھاتی رہتی ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ حال ہی میں بھارت اور سری لنکا کے مابین تامل مسئلے پر شدید اختلافات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ سری لنکا ایک عرصے تک تامل سنہالی خانہ جنگی کا شکار رہا ہے‘ لیکن مئی 2009 میں سری لنکا کے موجودہ وزیر اعظم (مہندا راجا پاکسا) جو اس وقت ملک کے صدر کے عہدے پر فائز تھے‘ کی قیادت میں تامل بغاوت کو کچل دیا گیا۔ (جاری)