حکمت یار کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں سرگرم القاعدہ کو نہ صرف امداد فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی بلکہ اسامہ بن لادن کے ساتھ مل کر افغانستان میں امریکیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا‘ لیکن حکمت یار اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ کبھی القاعدہ کا حصہ رہے۔ حکمت یار پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کو ہلاک کرنے کی سازش کی تھی‘ مگر حملے میں کرزئی محفوظ رہے۔ اس حملے میں ان کے کئی ساتھی اور افغان شہری جاں بحق ہو گئے تھے۔ اگرچہ افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے علاوہ داعش کی جنگجویانہ سرگرمیاں زیادہ نمایاں اور امریکہ کے لئے زیادہ بڑا خطرہ تھیں مگر وہ حکمت یار کی جماعت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا تھا کیونکہ حکمت یار ایک لمبے عرصے سے افغانستان کی سیاست سے وابستہ چلے آ رہے تھے اور انہیں گوریلا جنگ کا وسیع تجربہ تھا۔ اس کے علاوہ وہ افغانستان کے چپے چپے سے واقف تھے‘ مگر امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے وہ افغانستان میں اپنا کردار پوری طرح ادا نہیں کر سکتے تھے۔
یہ موقعہ انہیں کچھ عرصہ بعد میسر آیا جب امریکہ کے سابق صدر بارک اوبامہ نے افغانستان میں امریکی حکمت عملی میں تبدیلی لا کر طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے بتدریج انخلا کا بھی اعلان کر دیا۔ امریکہ کی نئی پالیسی کے تحت افغان حکومت کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑا‘ اور صدر اشرف غنی نے طالبان اور دوسرے گروپوں کو جنگ بند کر کے مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کی پیشکش کی۔ گلبدین حکمت یار نے اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے افغان حکومت کے ساتھ 2016 میں ایک ڈیل کی تھی‘ جس کے تحت حکمت یار نے افغان حکومت اور ملک کے آئین کو تسلیم کر لیا اور اعلان کیا کہ وہ صدر اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں مدد بھی کریں گے۔ اس کے بدلے میں افغان حکومت نے حکمت یار کے نہ صرف جنگی جرائم معاف کر دیئے بلکہ اقوام متحدہ اور امریکہ کی جانب سے ان پر جو پابندیاں عائد تھیں‘ انہیں ختم کرانے میں بھی مدد دی۔ 3 فروری2017 کو یہ پابندیاں باقاعدہ طور پر اٹھا لی گئیں‘ یوں اس سے اگلے روز20 سال بعد حکمت یار اپنے ساتھیوں سمیت کابل میں داخل ہوئے‘ مگر کابل میں ان کی آمد پر سول سوسائٹی کے اراکین‘ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں‘ خصوصی طور پر عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے تحریک چلانے والے عناصر نے سخت احتجاج کیا اور افغان حکومت کی ڈیل کی مخالفت کی‘ مگر صدر اشرف غنی نے نہ صرف ڈیل کا دفاع کیا بلکہ حکمت یار کو کابل میں ایک وسیع و عریض احاطے میں رہائش بھی فراہم کر دی۔ اگرچہ حکمت یار نے افغان حکومت سے مصالحت کر لی‘ لیکن انتظامیہ میں انہیں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا؛ تاہم 2017 کے صدارتی انتخابات میں انہوں نے امیدوار ہونے کا اعلان کر دیا۔ یہ انتخابات دو برس کی تاخیر سے ستمبر 2019 میں منعقد ہوئے‘ جن میں صدر اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا‘ جبکہ دوسرے نمبر پر عبداللہ عبداللہ رہے۔ حکمت یار کو بہت کم ووٹ ملے۔ اس طرح ایک دفعہ پھر اس امر کی تصدیق ہو گئی کہ عوامی سطح پر ان کی سیاسی حمایت محدود ہے۔
ستمبر 2020 میں دوحہ میں انٹرا افغان ڈائیلاگ میں تعطل کی روشنی میں انہوں نے ایک طرف اشرف غنی کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور دوسری طرف طالبان سے براہ راست مذاکرات کا اعلان کیا۔ پاکستان میں اپنے دورے کے دوران بھی انہوں نے صدر اشرف غنی کی حکومت کو افغانستان میں امن کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ طالبان کے ساتھ براہ راست رابطے کا مطلب یہ ہے کہ حکمت یار 2016 کی ڈیل کے تحت صدر اشرف غنی کا ساتھی ہونے کے بجائے طالبان کی طرف سے افغان حکومت کے خلاف افغانستان کے دیگر گروہوں پر مشتمل محاذ کی صفوں میں کھڑے ہوں گے۔ اگر ایسی کوئی صورتحال سامنے آئی تو یہ صدر اشرف غنی کی حکومت کے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لئے بھی مشکلات کا باعث ہو سکتی ہے کیونکہ سرکاری طور پر پاکستان نہ صرف اشرف غنی کی حکومت کو افغانستان کی واحد جائز حکومت تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ قریبی‘ دوستانہ اور باہمی تعاون پر مبنی دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کا متعدد بار اعلان بھی کر چکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمت یار افغانستان کے ایک اہم اور تجربہ کار سیاست دان ہیں اور انہیں افغانستان کے مسائل پر کوئی بھی موقف اختیار کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ افغانستان کے مسئلے سے متعلق بیشتر سٹیک ہولڈرز کی طرح گلبدین حکمت یار بھی اپنے ملک میں جنگ اور قتل و غارت گری کا فوری خاتمہ اور وہاں مستقل امن کے قیام کے لئے سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں افغانستان میں ہولناک جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ ان کے مطابق طالبان بھی تھک چکے ہیں اور وہ بھی امن کے خواہاں ہیں‘ لیکن ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ افغان حکومت‘ امریکہ‘ اقوام متحدہ حتیٰ کہ تمام بین الاقوامی برادری نے بھی طالبان سے جنگ بندی کی اپیل کی تو وہ نہ مانے‘ بلکہ فروری کے معاہدے کے بعد سرکاری فوجوں پر ان کے حملوں میں اور بھی تیزی آ چکی ہے‘ تو انہوں نے جنگ جاری رہنے کی ذمہ داری طالبان کے بجائے صدر اشرف غنی کی حکومت پر ڈال دی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ صدر اشرف غنی ہر حال میں اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ جنگ کو بطور جواز پیش کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس حکومت کو عوام کی صحیح نمائندہ حکومت تسلیم نہیں کرتے کیونکہ ان کے بقول یہ انتخابی دھاندلی کی پیداوار ہے۔ ایسا مطالبہ کرتے ہوئے حکمت یار صاحب یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک اس حکومت کو افغانستان کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرتے ہیں۔ اس حکومت کا ایک باقاعدہ سیاسی اور آئینی سٹرکچر ہے‘ جس کے تحت چار دفعہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہو چکے ہیں۔ اس حکومت کے گزشتہ تقریباً دو دہائیوں پر مشتمل دور کے دوران افغانستان میں دو نسلیں جوان ہو چکی ہیں جنہوں نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی ہے‘ جو جبر و استبداد اور خوف سے آزاد تھا۔ ان میں سکول‘ کالج اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوان مرد اور خواتین شامل ہیں‘ جن میں سے ایک کثیر تعداد قومی ترقی کے مختلف شعبوں میں جدید علوم اور مہارتوں سے آراستہ ہو کر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ایک نئے اور جدید افغانستان کے لئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس حکومت کی اپنی پولیس اور فوج بھی ہے‘ جس نے بے شک طالبان کے ہاتھوں بے پناہ نقصان اٹھایا مگر متعدد مواقع پر طالبان کی یلغار کی مزاحمت کرتے ہوئے انہیں پسپا ہونے پر مجبور بھی کیا ہے؛ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ موجودہ حالات میں صدر اشرف غنی کی حکومت کو ختم کرنے کی کوئی کوشش افغانستان کو ایک بار پھر 1990 کی دہائی جیسے حالات کا شکار کر دے گی۔ اس کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں‘ اس کا اندازہ لگانے کے لئے ذہن پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ (ختم)