حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومتی ٹیم یعنی وفاقی کابینہ میں کچھ تبدیلیاں کیں۔ کچھ نئے چہرے آئے‘ بعض اراکین کے عہدوں میں تبدیلی کی گئی‘ مگر جس تبدیلی نے میڈیا کی توجہ سب سے زیادہ اپنی طرف مبذول کروائی وہ سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی بطور وزیر داخلہ تقرری ہے۔ یہ قلمدان شیخ رشید کے سپرد کرنے کے فیصلے پر مختلف آرا پیش کی جا رہی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ وزارت داخلہ کا حصول شیخ صاحب کی دیرینہ خواہش تھی‘ اس کا اظہار انہوں نے اگست 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے موقعہ پر بھی کیا تھا‘ مگر وزیر اعظم عمران خان نے یہ اہم وزارت اپنے پاس رکھی‘ بعد ازاں اعجاز شاہ کو وزیرِ داخلہ بنایا گیا۔ اب شیخ رشید احمد کو وزارتِ داخلہ دے کر وزیر اعظم نے ان کی دیرینہ خواہش پوری کر دی ہے‘ لیکن اس اہم اقدام کی ٹائمنگ قابلِ غور ہے۔ شیخ رشید احمد کو وزارتِ داخلہ دینے کا اعلان لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے کے انعقاد سے صرف دو روز قبل کیا گیا۔ گزشتہ تقریباً تین ماہ کے دوران پی ڈی ایم نے کئی جلسے کئے۔ لاہور کا اجتماع چھٹا عام جلسہ تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق نواز شریف کے بیانیے کے خلاف حکومت کے درجن بھر ترجمانوں کے لگاتار بیانات کے باوجود ان جلسوں میں عوام کی جوق در جوق شمولیت اور پی ڈی ایم کی طرف سے جارحانہ تقاریر سے حکومت خاصی پریشان ہے۔ اگرچہ شیخ رشید احمد کا دعویٰ ہے کہ ان جلسوں اور جلوسوں سے حکومت کہیں نہیں جا رہی اور وزیر اطلاعات شبلی فراز بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ لیکن آثار بتاتے ہیں کہ حکومت کی صفوں میں شدید انتشار ہے اور حکومت کنفیوژن کا شکار ہے۔ دیگر الفاظ میں اندرونی محاذ پر سخت دبائو ہے۔ پُرانے وزیر داخلہ اس دبائو کو کم کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس کام کے لئے ایک سٹرانگ مین کی ضرورت تھی۔ عمران خان نے ایک اچھے جرنیل کی طرح شیخ رشید کو ایک ریزرو کے طور پر رکھا ہوا تھا۔ اب جبکہ فرنٹ لائن ڈیفنس پی ڈی ایم کے دبائو کے تحت خطرے میں نظر آ رہا ہے تو وزیر اعظم نے اپنی ریزرو فورس بھی اس سیاسی جنگ میں جھونک دی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم کے بعد وزیر داخلہ کا عہدہ کابینہ میں سب سے زیادہ اہم رہا ہے‘ کیونکہ اس کی ذمہ داریوں میں داخلی سلامتی اور امن و امان کا قیام شامل ہے۔ داخلی محاذ پر درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ہر حکومت کو وزارت داخلہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے‘ اس لئے ہر وزیر اعظم اس وزارت کا قلم دان ایسے شخص کے حوالے کرتا ہے‘ جو اس کے خیال میں ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے موزوں خصوصیات کا مالک ہو۔ 1972 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت سنبھالی تو انہوں نے خان عبدالقیوم کو وزیر داخلہ مقرر کیا‘ حالانکہ ان کا پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق نہیں تھا۔ وہ شیخ رشید کی طرح مسلم لیگ کے ایک دھڑے کے سربراہ تھے‘ مگر بھٹو صاحب سمجھتے تھے کہ نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے پی پی پی کو درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے وہ موزوں ترین آدمی ہیں۔ اسی طرح شیخ رشید احمد کا بطور وزیر داخلہ انتخاب کرتے وقت وزیر اعظم عمران خان کے ذہن میں یقیناً ان کی شریف خاندان اور مسلم لیگ ن سے لمبی وابستگی موجود ہو گی۔ 1972 میں نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ‘ ولی خان اپوزیشن کے سرکردہ رہنما تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مل کر انہوں نے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں حکومتیں تشکیل دی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سرکردگی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کیلئے یہ دونوں حکومتیں خصوصاً بلوچستان میں قوم پرست رہنمائوں کی حکومت بڑا چیلنج تھی۔ انہوں نے خان عبدالقیوم خان کو وزیر اعظم کے بعد کابینہ میں سب سے طاقتور عہدے کے لئے اس لئے چنا تھا کہ انہیں (خان عبدالقیوم خان کو) خان عبدالغفار خان (ریڈ شرٹ یا خدائی خدمت گار تحریک کے رہنما) کے جانشینوں سے نمٹنے کا طویل تجربہ تھا۔ 1946 کے ریفرنڈم کے بعد صوبہ سرحد میں تشکیل پانے والی ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت اعلیٰ کو جب برطرف کیا گیا تو ان کی جگہ خان عبدالقیوم خان ہی صوبے کے وزیر اعلیٰ بنے‘ کیونکہ سرحد اسمبلی میں وہ کانگریس کے بعد سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔ ان کے دور کے دو اہم واقعات آج بھی کسی نہ کسی طرح قومی اور علاقائی سطح پر سیاست کے لئے متعلقہ (Relevant) ہیں۔ ایک کشمیر میں داخل ہونے والا قبائلی لشکر اور دوسرا بھابڑہ کا قتلِ عام۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں واقعات میں خان عبدالقیوم خان کا ہاتھ تھا۔ خان عبدالقیوم خان آخر وقت تک مسلم لیگی رہے اور ان کے مخصوص سیاسی پس منظر کے تحت ذوالفقار علی بھٹو نے یہ سوچ کر انہیں وزیر داخلہ چُنا تھاکہ وہ ولی خان اور دیگر قوم پرست رہنمائوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔
شیخ رشید احمد ملک کے منجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ خان عبدالقیوم کی طرح وہ بھی پکے مسلم لیگی ہیں‘ مگر سیاست میں ان کی سوچ اور انداز خان عبدالقیوم خان سے مختلف ہے۔ وہ اس اصول پر یقین رکھتے ہیں کہ ''جسے گُڑ دے کر مارا جا سکے‘ اسے زہر دینے کی کیا ضرورت ہے‘‘ اس لئے بطور وزیر داخلہ انہیں ''ن‘‘ سے ''م‘‘ اور ''میم‘‘ سے ''شین‘‘ نکالنے کا جو مشن سونپا گیا ہے‘ اندازہ ہے کہ اسے پورا کرنے کے لئے وہ خان عبدالقیوم خان سے ہٹ کر طریقے استعمال کریں گے۔
اہم سیاسی مشن پورا کرنے کے لئے مضبوط شخصیت کے انتخاب کی پریکٹس جنوبی ایشیا میں محض پاکستان تک محدود نہیں۔ ہمارا ہمسایہ بھارت بھی آزادی کے بعد پہلے دن سے اسی اصول پر کاربند رہا ہے‘ مثلاً آزادی کے بعد پنڈت جواہر لعل نہرو کی کابینہ میں کانگریس کے سرکردہ لیڈر سردار پٹیل وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز تھے۔ وزیر اعظم نہرو کے بعد انہیں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تو انہیں اپنا ہیرو سمجھتے ہیں بلکہ مودی کا دعویٰ ہے کہ آزاد بھارت کی وزارت عظمیٰ کے اصل حق دار سردار پٹیل تھے‘ اور نہرو کو ایک سازش کے ذریعے وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ سردار پٹیل کی بھارت کیلئے سب سے نمایاں خدمت 600 کے قریب چھوٹی بڑی ریاستوں کی جداگانہ حیثیت ختم کرکے انہیں بھارتی یونین میں ضم کرنا تھا۔ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنے پہلے پانچ سالہ دور حکومت (2014-2019) میں راج ناتھ سنگھ کو وزیر داخلہ مقرر کیا تھا۔ وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے راج ناتھ سنگھ بی جے پی کے صدر تھے اور انہوں نے 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں مودی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہی خدمات کے صلے میں انہیں وزیر داخلہ بنایا گیا تھا۔ وزیر اعظم مودی کی موجودہ کابینہ میں وزیر داخلہ کے عہدے پر متمکن امیت شاہ ہیں۔ اس سے قبل امیت شاہ بی جے پی کے صدر تھے اور پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے 2019 کے الیکشن میں پارٹی کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا؛ تاہم وزارت داخلہ کے حصول کیلئے ضروری نہیں کہ ہر دفعہ قائدِ ایوان یا وزیر اعظم کی عنایت ہی کارفرما رہی ہو۔ پاکستان اور بھارت میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب بعض شخصیات وزیر اعظم کی مہربانی سے نہیں بلکہ پنجابی میں جسے کہتے ہیں ''اپنی ہِک دے زور نال‘‘ (اپنی طاقت کے بَل پر) وزیر داخلہ بنی ہوں۔ بھارت میں اس کی مثال سردار پٹیل اور پاکستان میں اسکندر مرزا اور چودھری نثار علی خان ہیں۔ اسکندر مرزا وزیرِ داخلہ بنے‘ غلام محمد کی وفات کے بعد پہلے گورنر جنرل‘ پھر 1956 کے آئین کے تحت صدر بنے اور پھر ایوب خان کے ساتھ مل کر 1958 کا مارشل لا نافذ کیا۔ چودھری نثار علی خان نے اپنے دور میں مرکز اور صوبہ سندھ کے مابین کشیدگی کی بنیاد رکھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ شیخ رشید وزیرِ داخلہ بن کر کیا کارنامہ سرانجام دیتے ہیں۔