آئینی لحاظ سے پاکستان میں رائج نظامِ حکومت پارلیمانی ہے مگر مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ عملی لحاظ سے ملک یا تو صدارتی نظام کی طرح چلایا جا رہا ہے یا اس کے مکمل نفاذ کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دو ڈھائی برسوں میں کئے گئے حکومتی اقدامات اور رویوں کے ذریعے پارلیمنٹ کو جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے‘ وہ اس واضح رجحان کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ ان اقدامات اور پالیسی فیصلوں میں قانون سازی کے لئے صدارتی آرڈیننسز پر غیر ضروری اور غیر معمولی انحصار‘ عوام کی نمائندگی کرنے والے اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ منتخب اراکینِ کابینہ کے بجائے من پسند‘ غیر منتخب اور کسی ادارہ جاتی ذمہ داری کے بغیر وزیر اعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی کو منتخب اراکینِ کابینہ سے بھی زیادہ بااختیار بنانا شامل ہے۔ جناب وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں کبھی کبھار آمد‘ موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے پارلیمانی نظام کے بارے میں بے اعتنائی پر مبنی رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ پارلیمانی نظامِ حکومت کے نظریے اور مفہوم کے مطابق پارلیمنٹ سب سے مقدم اور قانون سازی کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ وزیر اعظم کو قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان کی حیثیت حاصل ہے‘ لیکن پارلیمنٹ کے سب سے اہم اختیار یعنی قانون سازی کو بھی آہستہ آہستہ چھین کر حکومت کے دیگر اداروں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ پہلے یہ کام صدارتی آرڈیننسز اور صدارتی نظامِ حکومت کی طرز پر کابینہ کے اختیارات و فرائض کو غیر منتخب مشیران اور معاونین خصوصی کے حوالے کیا جا رہا تھا‘ اب پارلیمنٹ کے بنیادی اور سب سے اہم اختیار یعنی قانون سازی کو کسی اور کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ سینیٹ میں آئندہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے طریقے پر سپریم کورٹ کی رائے حاصل کرنے کیلئے موجودہ حکومت کا فیصلہ اس سوچے سمجھے اور واضح رجحان کی تازہ ترین مثال ہے۔
صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی نہ تو غیر آئینی ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت واحد اور پہلی حکومت ہے‘ جس نے یہ طریقہ اختیاراور استعمال کیا‘ بلکہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (PILDAT) کی ایک تحقیق کے مطابق اگست 1973 سے اب تک پاکستان کی مختلف حکومتیں 1774 صدارتی آرڈیننس جاری کر چکی ہیں۔ ان میں سے تقریباً دو تہائی یعنی 63 فیصد آرڈیننس ملک کے دو آمروں جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں جاری کئے گئے۔ یہ قابلِ فہم ہے کیونکہ ان دونوں ادوار میں یہاں آمرانہ حکمرانی تھی‘ لیکن جمہوری دور میں بھی اگر قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ کے بجائے صدارتی آرڈیننس پر زیادہ اور متواتر انحصار کیا جائے تو یہ ایک طرف آئین کی روح کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور دوسری طرف ایک خاص حاکمانہ (Authoritarian) مائنڈ سیٹ کی نشان دہی کرتا ہے۔ بد قسمتی سے ماضی کی کوئی بھی جمہوری حکومت اس انحراف سے بری الذمہ قرار نہیں دی جا سکتی‘ مگر موجودہ یعنی وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت اس معاملے میں سابقہ جمہوری حکومتوں سے دو ہاتھ آگے ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال گزشتہ سال نومبر میں قومی اسمبلی میں بغیر کسی بحث کے صرف آدھے گھنٹے میں اکٹھے گیارہ صدارتی آرڈیننسز کی منظوری تھی۔ اپوزیشن احتجاج کرتی رہ گئی‘ لیکن ڈپٹی سپیکر نے ایوان کی کارروائی معطل کر کے پچھلے تمام صدارتی آرڈیننس پیش کرنے کی اجازت دی۔ اس کارروائی کے خلاف حزبِ اختلاف نے سخت احتجاج کیا۔ ایوان میں پیش کئے جانے والے بلوں کی کاپیاں پھاڑ کر پرزے ڈپٹی سپیکر کی طرف پھینکے گئے اور ڈائس کا گھیرائو کیا گیا۔ 2010 میں منظور کی جانے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم سے پہلے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈیننس جاری کرنے کے صدر کے اختیارات پر کوئی پابندی نہیں تھی‘ مگر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد ایک آرڈیننس میں ایک سے زیادہ مرتبہ توسیع نہیں کی جا سکتی۔ اس کے باوجود پارلیمنٹ کو اس کے اختیارات سے محروم کرنے کا عمل جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کے لئے دیگر مختلف طریقے ایجاد کر لئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک مشیران اور معاونینِ خصوصی کی فوج کے ذریعے کابینہ کے اختیارات‘ جو پارلیمانی نظامِ حکومت کے تحت دراصل پارلیمنٹ کے اختیارات ہوتے ہیں‘ استعمال کرنے کا طریقہ ہے‘ لیکن بھلا ہو اسلام آباد ہائی کورٹ کا جس نے ایک حالیہ فیصلے میں یہ واضح کر دیا کہ ''وزرا کے برعکس مشیران اور معاونینِ خصوصی وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ہوتے (کیونکہ) وہ حلف نہیں اٹھاتے‘ اور وہ آئین کے آرٹیکل 91(6) کی روح کے مطابق پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں‘‘ اس لئے انہیں اہم عہدوں پر متمکن نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ستمبر میں ایک اور کیس میں کہا گیا ''مشیران‘ وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہوتے اور نہ انہیں اس (وفاقی کابینہ) کے اجلاس میں شرکت کا اختیار ہے‘ سوائے اس کے کہ وزیر اعظم ایک خصوصی دعوت کے ذریعے انہیں کابینہ میں شرکت کرنے کی ہدایت جاری کریں‘‘۔ ان تاریخی جملوں کے ذریعے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے ملک کو پارلیمانی نظام سے دور کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ وزیر اعظم کو اپنی کابینہ میں تبدیلیاں کرنا پڑیں اور مشیران اور معاونینِ خصوصی کو وزرا کے برابر جو اختیارات دئیے گئے تھے‘ وہ واپس لینے پڑے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس کے نتیجے میں پاکستان میں 1973 کے آئین کے تحت رائج پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام متعارف کرانے کی کوششیں ہمیشہ کے لئے دم توڑ دیں گی؟ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اور مجھے محسوس یہ ہوتا ہے کہ ملک میں پارلیمانی نظام بدستور خطرے میں ہے اور اسے مختلف طریقوں سے بدنام کیا جا رہا ہے۔ سیاست دانوں‘ سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹ کے خلاف ایک عرصہ سے جاری مہم اسی کوشش کا حصہ ہے۔ دراصل کچھ قوتیں تاریخی طور پر پارلیمانی نظام کے خلاف مرکزیت کے حق میں رہی ہیں۔ ایوب خان کا دعویٰ تھا کہ اگر پاکستان میں پارلیمانی نظام بحال کیا گیا تو ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا‘ مگر تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ 1971 میں ملک کو دو لخت کرنے میں جو عوامل کارفرما تھے‘ ان میں ایوب خان کا صدارتی نظام حکومت پر مبنی 1962 کا آئین بھی شامل تھا‘ کیونکہ پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس ایم منیر کا کہنا تھا کہ 1962 کے آئین نے نہ صرف پاکستان میں پارلیمانی نظام کو ختم کیا بلکہ ملک کو وفاقی سے ایک وحدانی ریاست میں بھی تبدیل کر دیا اور اس کی وجہ سے بنگالیوں میں احساسِ محرومی نے اور بھی تقویت حاصل کر لی۔ ایوب خان کے بعد پاکستان کے مزید دو آمروں یعنی ضیا الحق اور پرویز مشرف نے کچھ عرصہ تک براہ راست مارشل لا اور غیر سول انتظامیہ کے ذریعے حکومت کرنے کے بعد بالترتیب آٹھویں اور سترہویں آئینی ترمیم کے تحت 1973 کے آئین کا پارلیمانی کریکٹر بدلنے کی کوشش کی‘ مگر ان اقدامات کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ ان دونوں آمروں کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد جب عوام کے منتخب نمائندے برسر اقتدار آئے تو انہوں نے ان دونوں غیر جمہوری ترامیم کو حذف کر دیا۔ اس وقت بھی جو مائنڈ سیٹ اور جو طاقتیں قوم کی متفقہ رائے سے منظور ہونے والے آئین کے تحت رائج پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتی ہیں‘ ان کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔