"DRA" (space) message & send to 7575

حکومت‘ پی ڈی ایم اور قومی سیاست

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نئے سال کے آغاز سے ملک کی سیاست ایک غیر یقینی دور میں داخل ہو چکی ہے‘ کیونکہ اس کھیل کے دو بڑے کھلاڑیوں‘ حکومت اور (پی ڈی ایم کی شکل میں) اپوزیشن نے گزشتہ سال جو دعوے کئے تھے‘ وہ مکمل طور پر پورے نہیں ہوئے۔ ویسے تو جنگ کی طرح سیاست میں بھی پیش گوئیاں اکثر صحیح ثابت نہیں ہوتیں مگر پاکستان کی سیاست بوجوہ غیر یقینی اور غیر متوقع نتائج سے لبریز نظر آتی ہے۔ جب 1968 کے آخر میں ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز ہو ا تو بہت کم لوگوں کو یقین تھا کہ فیلڈ مارشل‘ جن کی حکومت ''ترقی کا عشرہ‘‘ منا رہی تھی‘ کی ایک سال کے عرصہ میں چھٹی ہو جائے گی۔ 1977 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر نو سیاسی پارٹیوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو انہوں نے ایک تقریر میں کرسی کی اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کمزور ہو سکتا ہوں‘ لیکن یہ کرسی بہت مضبوط ہے‘ اسے کوئی نہیں ہلا سکتا؛ تاہم سب کی آنکھوں کے سامنے وہ کرسی گر گئی اور بھٹو صاحب اقتدار سے محروم ہو گئے۔ 
اب موجودہ دور میں آ جائیں۔ موجودہ حکومت بظاہر پی ڈی ایم کی تحریک پر فکرمند نظر نہیں آتی اور اس کے وزرا‘ مشیران‘ معاونینِ خصوصی اور خود وزیر اعظم بار بار یہ فقرہ دہراتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی تحریک ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ لیکن اگر گزشتہ ڈھائی برسوں کے سیاسی واقعات و حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے اپوزیشن کے بارے میں جو اندازے لگائے تھے‘ وہ ایک ایک کر کے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ ان کا اندازہ تھا کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے کبھی متحد نہیں ہو گی‘ کیونکہ اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں وہی رشتہ ہے‘ جو آگ اور پانی کا ہے۔ ماضی میں ملک کی سیاست پر ان دو پارٹیوں کی باہمی مناقشت مختلف شکلوں میں نمودار ہوتی رہی ہے۔ اس کی واضح مثال 1988 تا 1996 کے آٹھ برسوں میں تین بار یعنی‘ 1990‘ 1993 اور 1996 میں وفاقی حکومتوں کی معزولی اور اسمبلیوں کی تحلیل ہے۔ اس لئے پی ڈی ایم میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا ایک مشترکہ چارٹر آف ڈیمانڈ پر اتفاق اور وفاقی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ‘ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے دعووں کی پہلی بڑی ناکامی ہے۔
گزشتہ برس 20 ستمبر کو 11 پارٹیوں کی تنظیم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے موجودہ حکومت کے خلاف جب مرحلہ وار تحریک چلانے کا اعلان کیا تو حکومت کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ مختلف بلکہ متضاد نظریات کی حامل یہ سیاسی جماعتیں جلد ہی ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گی‘ کیونکہ یہ صرف اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئی ہیں اور جب پی ڈی ایم کے اجلاس سے خطاب کے دوران مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد شریف نے براہ راست اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا تو حکومت ہی نہیں بلکہ بہت سے دوسرے حلقوں کی بھی رائے تھی کہ نواز شریف نے ایک دفعہ پھر اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے ۔ بی بی سی کو ایک انٹرویو میں جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ کہا کہ نواز شریف کی طرف سے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے دو اعلیٰ ترین عہدے داروں کا نام لینے پر انہیں دھچکا لگا تو حکومتی اراکین نے خوشی کے شادیانے بجائے اور دعویٰ کیا کہ اب پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرنے والا ہے‘ کیونکہ پیپلز پارٹی نے نواز شریف کے بیانیے کو مسترد کر دیا ہے‘ لیکن پی ڈی ایم میں شامل کسی سیاسی جماعت نے اتحاد سے دوری اختیار نہیں کی۔
یکم جنوری کو لاہور میں پی ڈی ایم کے سربراہان کے اجلاس‘ جس سے نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو اور اختر مینگل نے آن لائن خطاب کیا‘ کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کی صحافیوں کو بریفنگ اور اس کے دو دن بعد بہاول پور میں پی ڈی ایم کے زیرِ اہتمام جلسے میں کی گئی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کی بنیاد کی حیثیت سے نواز شریف کا بیانیہ تقویت پکڑتا جا رہا ہے۔ مثلاً لاہور کے اجلاس کے بعد مولانا نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اس پر متفق ہیں کہ پاکستان میں سیاسی‘ معاشی‘ سماجی اور دیگر تمام بحرانوں کی اصل وجہ اداروں کی طرف سے اپنی آئینی حدودسے تجاوز کرنا ہے اور ہماری جدوجہد کا اصل ہدف یہی ہے کہ اس تجاوز کو ختم کرکے اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے پر مجبور کیا جائے‘‘۔
جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے‘ بہاولپور کے جلسے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد لیڈروں کو سننے پر آمادہ ہے مگر اس میں شامل سیاسی جماعتیں اسے ابھی تک ایک ملک گیر تحریک میں تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ حکومت کے بعض دعووں کی طرح پی ڈی ایم کے بھی دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں‘ مثلاً اس کے کچھ لیڈر عوام کو یہ یقین دہانی کرواتے سنے گئے ہیں کہ ایک دو جلسوں کے بعد ہی حکومت متزلزل ہو جائے گی۔ انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر زور دیتے رہے تھے‘ تو ان دونوں پارٹیوں کا موقف یہ تھا کہ عوام حکومت مخالف تحریک چلانے پر تیار نہیں‘ بلکہ ان دونوں پارٹیوں نے حکمران پی ٹی آئی کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے اور بعض مسائل مثلاً معاشیات کی بحالی اور کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے سلسلے میں تعاون کی بھی پیشکش کی مگر حکومت نے اس پیشکش کو اپوزیشن کی کمزوری سمجھ کر مسترد کر دیا اور دلیل یہ پیش کی کہ اپوزیشن تعاون کی پیشکش کے بدلے ''این آر او‘‘ چاہتی ہے‘ جس کا مطلب ہے‘ نیب میں ان دونوں پارٹیوں کے خلاف کرپشن کے کیسز کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ حکومت نے دونوں پارٹیوں کی لیڈرشپ کو احتساب کے نام پر قید کرنا شروع کیا تو پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے سامنے حکومت مخالف تحریک چلانے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ یہ حقیقت سب پر آشکار ہے کہ پی ڈی ایم کی تشکیل مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے درمیان روابط اور پیپلز پارٹی کی خواہش پر کی گئی۔ بلاول بھٹو زرداری اس میں پیش پیش تھے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے نہ صرف مولانا بلکہ نون لیگ کے صدر شہباز شریف سے بھی متعدد بار ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ اگر حکومت اپوزیشن کے بارے میں غیرلچکدار رویہ نہ اپناتی تو ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم معرضِ وجود میں ہی نہ آتی۔ حکومت کا پی ڈی ایم کے بارے میں موقف اس یقین پر مبنی ہے کہ سیاستدانوں کی اتنی کردار کشی کی جا چکی ہے کہ کوئی ان کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہ ہو گا۔ حکومت کو یقین تھاکہ اپوزیشن کی سرگرمیاں جلسے جلوسوں تک محدود رہیں گی‘ جو حکومت کیلئے کوئی بڑا خطرہ نہیں‘ لیکن پی ڈی ایم کے پہلے مرحلے کے اختتام پر اس میں شامل سیاسی جماعتوں نے جس متفقہ لائحہ عمل کا اعلان کیا‘ اس سے حکومتی عہدے داروں کے دعووں کی نفی ہوتی ہے۔ مولانا کے آئندہ کے لائحہ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم نہ صرف متحد ہے بلکہ دوسرے مرحلے میں حکومت کیلئے زیادہ موثر چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ اسمبلیوں سے استعفے کب پیش کئے جائیں گے‘ لانگ مارچ کب کیا جائے گا‘ یہ Tactical ایشوز ہیں۔ ان میں لچک کو کسی تحریک کی کمزوری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اصل قوت کسی تحریک کا سٹریٹیجک ویژن ہوتا ہے۔ میرے خیال میں پی ڈی ایم نے نواز شریف کے بیانیے کو اپنے سٹریٹیجک وژن کی بنیاد بنا لیا ہے اور حکومت کے پاس فی الحال اس کا کوئی توڑ نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں