جنوری کے پہلے ہفتے میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کانگرس کی عمارت اور اس کے گردونواح ایک ایسا منظر پیش کر رہے تھے جس کے بارے میں خود امریکی عوام تو کجا، دنیا بھر میں بھی شاید کسی نے سوچا تک نہ ہوگا۔ عمارت کے اندر اراکین کانگرس نومنتخب صدر جو بائیڈن کی جیت کی حتمی تصدیق کے لیے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گنتی میں مصروف تھے۔ باہر سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی، جن میں سے کچھ آتشیں اسلحہ سے لیس تھے اور عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کا ہدف کانگرس کی جانب سے جو بائیڈن کی جیت کے حتمی اعلان کو روکنا تھا‘ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ ہارے نہیں بلکہ ہرائے گئے ہیں۔ شکست خوردہ امیدواروں کی طرف سے اس قسم کے دعوے دنیا کے دیگر حصوں، خصوصاً پاکستان جیسے ملکوں میں تو اکثر کیے جاتے ہیں مگر امریکہ میں بھی ایسا ہو سکتا ہے، یہ کبھی کسی نے سوچا تک نہ ہوگا۔ اب تک کی تحقیقات کے بعد جو حقائق سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق یہ حملہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا اور اس میں شریک تمام افراد کو علیحدہ علیحدہ ٹاسک تفویض کیے گئے تھے۔ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک سِٹنگ صدر کی ایما پر ہو رہا تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ پولیس اور نیشنل گارڈز کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں مظاہرین عمارت میں موجود ارکان کانگرس تک نہ پہنچ سکے۔ انہیں ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ حملہ آوروں میں شامل ایک خاتون نے کانگرس کے چیمبر میں گھسنے کی کوشش کی، جسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
امریکہ نہ صرف معاشی اور عسکری لحاظ سے دنیا کا سب سے طاقتور ملک سمجھا جاتا ہے، بلکہ اسے دنیا کی سب سے مستحکم اور ترقی یافتہ جمہوریت ہونے کا بھی دعویٰ ہے۔ اس لیے امریکہ سمیت دنیا کے سنجیدہ حلقوں میں بحث جاری ہے کہ جو ملک دنیا بھر کو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا درس دیتا چلا آ رہا ہے، اس میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا سب سے اہم ادارہ یعنی کانگرس بھی محفوظ نہیں۔ اس ڈرامے میں مرکزی کردار صدر ٹرمپ کا ہے‘ جو آئینی لحاظ سے 20 جنوری تک ملک کے صدر رہیں گے اور اپنی مدت کے دوران ان تمام اختیارات کے مالک ہوں گے جو انہیں آئین استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ان اختیارات میں جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا اختیار بھی شامل ہے۔ اس لیے امریکہ کے سیاسی اور عسکری حلقوں میں تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ نئے صدر کی تقریب حلف برداری (یعنی 20 جنوری) سے پہلے معلوم نہیں کہ ٹرمپ کیا گل کھلائے گا، کیونکہ موصوف نہ صرف تقریب کے بائیکاٹ بلکہ اس دن پورے امریکہ میں احتجاجی مظاہروں کے پروگرام کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسا فاشسٹ ذہن کا مالک شخص امریکہ جیسے جمہوری ملک میں صدر کیسے بن گیا؟ بالکل اسی طرح جیسے پہلی جنگ عظیم کے بعد اٹلی میں مسولینی اور جرمنی میں ہٹلر نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ اقتدار کی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے ان سیاسی رہنمائوں نے کئی ہتھکنڈے استعمال کئے‘ جیسے نظریاتی سیڑھی کا استعمال‘ بدترین قسم کی سیاسی موقع پرستی، اپنے سیاسی حریفوں کی اس قدر تضحیک اور تذلیل کرنا کہ وہ عوام کی نظروں میں اپنا قدوقامت کھو بیٹھیں‘ اس کے مقابلے میں اپنے آپ اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا کہ عوام کے لیے وہ واحد چوائس رہ جائیں۔ ہٹلر اور مسولینی کی طرح ٹرمپ نے بھی امریکہ کی مڈل کلاس سے وابستہ بے روزگار لیکن پڑھے لکھے طبقے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کی خواہشات اور خوابوں کو پورا کرنے کیلئے سبز باغوں کے ایسے نقشے کھینچے گئے کہ امریکی معاشرے کا درمیانی طبقہ اپنے لیڈر کے ہر وعدے پر اعتبار کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اپنے مخالفین کو ہر برائی کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ٹرمپ ازم کے سپورٹرز کو اپنے لیڈر کی ناکامیوں کو چھپانے کا راستہ مل گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہٹلر نے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کی ذمہ داری یہودیوں اور کمیونسٹوں پر ڈال دی تھی۔ جرمن نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا کر اور بڑے بڑے سرمایہ داروں اور فوج کی حمایت حاصل کر کے سب سے پہلے جمہوریت پسند سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو ختم کیا اور اس کے لیے صدیوں سے آزمودہ حربہ استعمال کیا۔ یہ کہGive the dog a bad name and kill him‘ یعنی مخالف سیاستدانوں کی کنٹرولڈ میڈیا اور سیکرٹ سروس کے ذریعے کردار کشی کرکے عوام کی نظروں میں اتنا گرانا کہ ان کو ملکی سیاسی منظرنامے سے الگ کرنے کیلئے لیڈر کی ایک تقریر ہی کافی ہو۔ پہلے اس سیاسی حلقے کا نام فاشزم تھا اور آج کل اسے پالولزم (Populism) کہا جاتا ہے۔ لیکن پاپولزم فاشزم سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ جمہوریت کے بارے میں پاپولزم کا فسطائی نظریہ اب امریکہ یا چند مغربی ممالک تک محدود نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک میں بھی اسے تیزی سے پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ سول سوسائٹی کے کمزور ہونے، سیاسی اپوزیشن میں اتفاق و اتحاد کا فقدان ہونے اور غیر سیاسی اداروں کی غیر جانبداری پر شکوک و شبہات کے اظہار نے پاپولزم کے آگے بند باندھنا ناممکن بنا دیا ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات میں شکست کھانے کے باوجود ٹرمپ ازم پسپائی اختیار کرتا ہوا نظر نہیں آتا کیونکہ ٹرمپ نے بحیثیت صدارتی امیدوار جتنے پاپولر ووٹ حاصل کیے ہیں، وہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے ٹرمپ کویہ سمجھنے میں مدد حاصل ہوئی ہے کہ وہ اب بھی امریکہ کے سب سے زیادہ پاپولر لیڈر ہیں اور آئندہ انتخابات (2024) میں پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ انہی سیاسی عوامل کو ایک مؤثر انتخابی قوت میں تبدیل کرنے کیلئے صدر ٹرمپ نے ایک علیحدہ میڈیا گروپ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس گروپ کی طرف سے ٹرمپ اپنے لاکھوں حامیوں کو ایک پیڈ نیوز لیٹر سے موبلائز کریں گے کیونکہ کیپٹل ہل پر چڑھائی کرنے کے بعد ٹویٹر اور فیس بک نے ٹرمپ کو مستقل طور پر بلاک کر دیا ہے‘ لیکن امریکی آئین‘ اقدار اور روایات کو پامال کرنے کے الزام میں ٹرمپ کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی کانگرس میں ان کا مواخذے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ کاروبار کی دنیا میں ٹرمپ کے روایتی حلیف‘ جنہوں نے صدارتی انتخابات میں امیدوار ٹرمپ کو دل کھول کر چندے دیئے تھے، ٹرمپ سے ایک ایک کرکے علیحدہ ہو رہے ہیں۔ ان میں ایک مشروب تیار کرنے والی کمپنی بھی شامل ہے۔ ٹرمپ کے خلاف نفرت میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ امریکہ میں کوئی کمپنی، ٹرمپ کے کاروبار سے کوئی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے نتیجے میں ٹرمپ کی وسیع بزنس ایمپائر تیزی سے سکڑ رہی ہے۔ کئی بینکوں نے ٹرمپ کو قرضہ دینے سے انکار کر دیا ہے، لیکن ٹرمپ کو بے دست و پا کرنے کیلئے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی طرف سے جو بائیڈن کو آئینی، جمہوری اور قانونی طور پر منتخب صدر کی حیثیت سے تسلیم کرنا کافی ہے۔ امریکہ کے سینئر ترین جرنیلوں نے اعلان کیا ہے کہ 20 جنوری کو جو بائیڈن امریکہ کے صدر اور مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف ہوں گے اور آئین کے مطابق مسلح افواج ان کے حکم کے تابع ہوں گی۔ امریکی میڈیا کے مطابق یہ ایک غیر معمولی بات ہے جس کو جاری کرنے کا مقصد ٹرمپ کی طرف سے فوج کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کو ناکام بنانا ہے۔ چار سال قبل انہی عوام نے ٹرمپ کو اس امید پر ووٹ دیئے تھے کہ بزنس میں کامیابی کی طرح وہ سیاست میں بھی کرشمہ کر دکھائیں گے، لیکن وہ بھول گئے کہ بزنس کی دنیا الگ ہے اور سیاست کی دنیا الگ ہے۔ کاروبار اور سیاست کے اپنے اپنے حلقے ہیں اور ان کے قوانین اور ضوابط بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔