"DRA" (space) message & send to 7575

کورونا وائرس کی وبا سے مقابلہ

پنجابی میں ہمارے ہاں ایک کہاوت مشہور ہے ''راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے‘‘ کچھ اسی نوع کا تجربہ مجھے ذاتی طور پر حال ہی میں اس وقت ہوا جب میں کورونا وائرس کے ایک شدید حملے کا نشانہ بنا۔ کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر زوروں پر ہے اور بعض ممالک‘ جن میں مغربی یورپ‘ امریکہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے علاوہ ہمارے مغربی ہمسایہ ممالک بھی شامل ہیں‘ خصوصی طور پر اس کی زد میں ہیں۔ پاکستان میں بھی اس لہر کی موجودگی محسوس کی جا رہی ہے‘ لیکن گلیوں‘ سڑکوں‘ بازاروں اور مارکیٹوں میں جائیں تو تاثر یہ ملتا ہے جیسے ملک نے اس وبا سے نجات حاصل کر لی ہے‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے جن تیس ممالک میں کورونا کی وبا زوروں پر ہے‘ ان میں پاکستان بھی شامل ہے‘ مگر نظر نہیں آتا کہ حکومت کو کوئی تشویش لاحق ہے یا عوام کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اس کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ متعلقہ محکموں اور میڈیا کی طرف سے عوام کو درکار ضروری آگہی فراہم کرنے کا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے بعض ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے پروگرام زیادہ تر ایک ٹورنامنٹ کی تشہیر پر مشتمل ہیں‘ یا پھر سیاسی پارٹیوں کے درمیان اقتدار کے لئے رسہ کشی کا منظر پیش کر تے ہیں۔ سرکاری ادارے کی جانب سے اس وبا کے بارے میں صرف تین فقروں پر مشتمل ایک ہینڈ آئوٹ جاری ہوتا ہے‘ جس میں روزانہ کی بنیاد پر وبا سے رحلت پانے والے افراد کی تعداد بتائی جاتی ہے‘ وبا سے متاثر ہونے والے نئے مریضوں کی تعداد بتائی جاتی ہے‘ اور اس کے علاوہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا میں مبتلا افراد کی تعداد کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کورونا وائرس سے متاثرہ یا جاں بحق ہونے والوں کے بارے میں جاری کردہ اعدادوشمار کا آن گرائونڈ حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت میں کورونا وائرس سے جاں بحق اور متاثر ہونے والے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔
مجھ پر کورونا وائرس کا حملہ جنوری کے ابتدا میں ہوا تھا۔ اس دوران میرے مشاہدے کے مطابق ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد جتنی بتائی جاتی ہے‘ اس سے خاصی زیادہ ہو سکتی ہے۔ میں جس ہسپتال کے آئی سی یو میں 20 دن زیر علاج رہا‘ وہ اگرچہ ایک پرائیویٹ ہسپتال ہے‘ لیکن وہاں مریضوں کی تعداد دیکھ کر لاہور ریلوے سٹیشن کے منظر کا گمان ہوتا تھا۔ ان میں سے اکثر کورونا وائرس سے متاثرہ تھے‘ اور پبلک سیکٹر ہسپتالوں کی نا گفتہ بہ حالت سے مایوس ہو کر پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کر رہے تھے۔ اس کے پیشِ نظر پوچھا جا سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کے لئے جو سہولیات فراہم کر رکھی ہیں‘ وہ کہاں ہیں اور متاثرہ لوگ ان کا رخ کیوں نہیں کرتے؟ اصل وجہ یہ ہے کہ ان سہولیات کے بارے میں عوام کو مناسب حد تک آگاہی فراہم نہیں کی گئی۔ اس لئے جو شخص کورونا وائرس کی زد میں آتا ہے‘ اسے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ فوری طور پر کہاں رپورٹ کرے اور کہاں مرض کی روک تھام یا علاج کے لئے اشد ضروری اور فوری اقدامات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ میں خود اپنا تجربہ شیئر کر سکتا ہوں۔ جب یہ تصدیق ہو گئی کہ میں کووڈ 19 سے متاثر ہو چکا ہوں تو میری فیملی کے سامنے سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ کس ہسپتال میں مریض کو لے جایا جائے۔ لاہور میں سرکاری ہسپتالوں میں سب سے بڑا سروسز ہسپتال ہے۔ قدرتی طور پر یہ سب سے پہلا آپشن تھا۔ یہاں کووڈ پازیٹو وارڈ مریضوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تمام بیڈز پر مریض لیٹے ہوئے تھے۔ کوئی بیڈ خالی دستیاب نہیں تھا۔ اس لئے ایک ایکسٹرا بیڈ کا انتظام کرنے میں ذرا دیر لگی۔ بیڈ ملنے کے بعد ایک نوجوان ڈاکٹر تشریف لائے جن کی ہدایت پر سٹاف نے مجھے آکسیجن ماسک پہنا دیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ان کے پاس مریضوں کا علاج کرنے کے لئے آکسیجن اور اللہ کے نام کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر کورونا کے مریضوں کو سینے‘ جگر‘ گردے یا کسی اور عضو کا انفیکشن ہو تو اس کا علاج کرنے کے لئے کوئی اہتمام نہیں تھا۔ میں نے سروسز ہسپتال کے کورونا پازیٹو مریضوں کے وارڈ میں دو دن گزارے۔ ان دو دنوں میں مجھے جس صورت حال سے گزرنا پڑا‘ اس کے پیشِ نظر میری فیملی اس نتیجے پر پہنچی کہ میرا وہاں مزید ٹھہرنا خطرے سے خالی نہ ہو گا کیونکہ اس دوران کسی سینئر ڈاکٹر نے وارڈ کا وزٹ نہیں کیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر میری فیملی نے مجھے ایک پرائیویٹ ہسپتال کے آئی سی یو میں منتقل کر دیا‘ جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے‘ دوستوں عزیزوں کی دعائوں اور ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوشش سے تقریباً دو ہفتے کے علاج کے بعد کورونا وائرس کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا۔
کورونا وائرس کے حملے کا مقابلہ کرتے ہوئے میں تقریباً ایک ماہ کا جو عرصہ گزارا ہے‘ اس میں جن باتوں کو میں نے شدت سے محسوس کیا‘ ان میں سرِ فہرست یہ ہے کہ پاکستان کے شہریوں میں اس موذی مرض کے بارے میں آگاہی کی شدید کمی ہے۔ اگرچہ میڈیا میں اس سے خبردار ہونے اور ضروری حفاظتی اقدامات (ایس او پیز) اختیار کرنے کے بارے میں حکومت اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پیغامات نشر ہوتے رہتے ہیں‘ مگر میرے خیال میں یہ ناکافی ہیں۔ میرے جیسے پڑھے لکھے شخص کو بھی اگر یہ معلوم نہیں کہ اس بیماری کے اچانک حملہ آور ہونے کی صورت میں کیا ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں اور بچائو کے لئے کون سے ٹھکانوں کا رخ کرنا چاہئے تو عام لوگوں کا حال کیا ہو گا؟ حکومت کی طرف سے مختلف مواقع پر مثلاً مارکیٹوں‘ سکولوں و کالجوں یا ایسے اجتماعات جہاں لوگوں کے زیادہ تعداد میں اکٹھا ہونے کا امکان ہو‘ ایس او پیز پر عمل درآمد کا کہا جاتا ہے‘ لیکن حکومت کی جانب سے اس اصرار کے باوجود لوگوں نے احتیاط کا دامن مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے۔ جو منظر ہمیں سڑکوں‘ بازاروں اور مارکیٹوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں‘ ان کے پیشِ نظر عوام سے یہ توقع رکھنا کہ وہ از خود ایس اور پیز پر عمل کریں گے‘ بے کار ہے۔ اس لئے میرے خیال میں حکومت کو پرو ایکٹو کردار ادا کرنا پڑے گا۔ بد قسمتی سے حکومت کا اب کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام پر کوئی فوکس نہیں رہا۔ کوئی جامع پالیسی نہیں اور اس وبا سے بچنے کیلئے کوئی طویل المیعاد منصوبہ بندی نہیں۔ توجہ دیگر مسائل کی طرف مبذول ہے‘ حالانکہ کورونا وائرس صرف انفرادی صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے قومی معیشت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی جانب سے مختلف شہروں میں کورونا سینٹرز قائم کئے گئے ہیں‘ مگر لاہور جیسے شہر میں بھی کثیر تعداد میں لوگوں کو ان کی لوکیشن اور ان پر موجود سہولتوں سے آگاہی نہیں۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت کی جانب سے ان مراکز کی لوکیشن اور ان پر مریضوں کیلئے دستیاب سہولتوں کے بارے میں عوام کو مکمل آگاہ کیا جائے تاکہ متاثرہ افراد پورے اعتماد اور امید کے ساتھ ان مراکز کا رخ کر یں۔ صورتحال یہ ہے کہ اول تو ان مراکز کی موجودگی کے بارے میں لوگوں کو علم نہیں اور اگر انہیں پتا ہے تو ان کی طرف رخ نہیں کرتے کیونکہ وہاں دستیاب سہولتوں اور علاج کے لئے ضروری انتظامات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ آخر میں عرض ہے کہ میڈیا‘ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اس وبا‘ جو کہ ابھی تک اس صدی کا بنی نوع انسان کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے‘ پر پوری طرح فوکس کرے۔ اس ضمن میں بھی حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ میڈیا کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے بجائے کورونا وائرس کی وبا سے اپنے شہریوں کو بچانے کے لئے استعمال کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں