آج کل بھارت کے بارے میں اہم خبریں خطرناک حد تک تیزی سے بڑھتے ہوئے کورونا وائرس کی وبا کے کیسز ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس مہلک بیماری میں مبتلا ہونے والے نئے مریضوں کی تعداد روزانہ تین لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے‘ جبکہ جانبر نہ ہونے والے افراد کی روزانہ تعداد دو ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ بھارت کی بعض وسطی اور مشرقی ریاستوں میں صورت حال انتہائی مخدوش ہو چکی ہے اور مریضوں کیلئے ہسپتالوں میں جگہ میسر نہیں جبکہ مطلوبہ مقدار میں آکسیجن کی سپلائی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلائو پر قدرتی طور پر پاکستان میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے‘ کیو نکہ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ اگرچہ پاکستان نے احتیا طی طور پر بھارت سے آنے جانے والے لوگوں پر پابندی عائد کر دی ہے‘ اس کے باوجود بھارت سے کورونا وائرس کی مہلک قسم کے آنے کے خدشات موجود ہیں‘ مگر کورونا وائرس کے علاوہ ان دنوں بھارت کے عوام‘ سیاسی حلقوں اور میڈیا میں جس بات کا نمایاں چرچا ہے‘ وہ ملک کے جنوبی حصے میں واقع پانچ ریاستوں یعنی بنگال‘ تامل ناڈو‘ آسام‘ پانڈی چری اور کیرالا میں ہونے والے ریاستی (صوبائی) انتخابات ہیں۔
مغربی بنگال کو چھوڑ کر باقی ریاستوں میں چھ اپریل کو ووٹ ڈالے گئے تھے؛ تاہم مغربی بنگال‘ جہاں پولنگ کا آغاز 27 مارچ کو ہوا تھا‘ میں انتخابی مہم ابھی جاری ہے‘ اور 29 اپریل کو اختتام پذیر ہو گی۔ ان تمام ریاستوں میں انتخابات کے نتائج کا اعلان 2 مئی کو کیا جائے گا۔ ان ریاستوں کے انتخابات حکمران جماعت بی جے پی کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔ اپنے اقتدار کو تمام ریاستوں تک پھیلانے کی خواہش۔ اب تک بی جے پی کو شمالی اور مغربی بھارت ‘ جسے ہندی بیلٹ کا نام دیا جاتا ہے‘ کی پارٹی سمجھا جاتا رہا ہے‘ لیکن 2014ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی نے شمالی بھارت میں اپنی پوزیشن مستحکم بنانے کی طرف توجہ دینا شروع کی۔ پہلے اس نے ہندی بیلٹ میں دلت کوئین مایا وتی (اُتر پردیش) اور بہار میں نتیش کمار جیسے طاقتور علاقائی رہنمائوں کو زیر کر کے اپنی پوزیشن مضبوط کی اور اس کے بعد مشرقی اور جنوبی بھارت میں واقع ریاستوں میں بی جے پی کے حق میں مہم شروع کی۔ اس مہم کی قیادت وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے دستِ راست اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے ہاتھ میں ہے۔ نظریاتی طور پر اس کی بنیاد ''ہندتوا‘‘ اور سیاسی طور پر اس کا سارا انحصار ترقیاتی کام مثلاً سڑکوں‘ پلوں‘ کالجز‘ یونیورسٹیز اور ہسپتالوں کی تعمیر پر رہا ہے۔ بی جے پی کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال آسام کی ہے‘ جہاں 2001ء سے کانگریس کی حکومت چلی آ رہی تھی‘ مگر 2016 ء کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو شکست دے کر بی جے پی نے پہلی دفعہ حکومت قائم کی۔ آسام میں ہندوتوا پر مبنی بیانیے کے ساتھ بی جے پی کا قدم جمانا دو لحاظ سے اہم ہے۔ اس سے زبان‘ نسل اور مقامی ثقافت کی بنیاد پر قومی تشخص کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا ہے اور دوسرے آسام کو اڈا بنا کر بی جے پی بھارت کی دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں اپنے اثر و رسوخ کو پھیلا سکتی ہے۔ آسام کی طرح ہندو مذہب اور ترقیاتی کام کو بنیاد بنا کر بی جے پی ایک اور اہم ریاست کرناٹک (سابقہ میسور) میں بھی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ موجودہ انتخابات میں اس کی نظریں اب جنوبی بھارت کی دو بڑی ریاستوں تامل ناڈو اور (خصوصی طور پر) مغربی بنگال پر ہیں۔ مغربی بنگال کی ریاست بی جے پی کے انتخابی ایجنڈے پر 1980ء کی دہائی سے چلی آ رہی ہے۔ پہلے اس کے پروپیگنڈے کا ٹارگٹ کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کی قیادت میں لیفٹ فرنٹ کی حکومت تھی‘ جسے بی جے پی بنگلہ دیش سے تارکین وطن کو ریاست میں داخل ہونے اور ان میں سے بہت سے افراد کو بھارت کے دیگر حصوں میں آباد ہونے کا موقع فراہم کرنے کا الزام عائد کرتی تھی۔ اس زمانے میں بی جے پی بنگلہ دیش کو بھارت کی سلامتی کیلئے پاکستان اور چین سے بھی بڑا خطرہ قرار دیتی تھی۔ ایک عرصے تک بی جے پی نے ''بنگلہ دیش سے خطرہ‘‘ کا نعرہ لگا کر مغربی بنگال میں قدم جمانے کی کوشش کی‘ مگر کامیابی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ بھارت کے ایک سابق صدر اور بنگال سے کانگریس کے ایک سرکردہ رہنما پرناب مکھرجی کے مطابق لیفٹ فرنٹ نے بنگال میں ایک نئے سیاسی کلچر کو قائم کر دیا تھا‘ جس کی بنیاد فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘ ترقی کے مساوی مواقع اور سیکولرازم پر تھی۔ 2011ء کے اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس نے ممتا بینر جی کی قیادت میں جیت کر کمیونسٹوں کے تیس سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ کر دیا تھا‘ لیکن ممتا جی کے گزشتہ دس برس کے دورِ حکومت میں مغربی بنگال کے سیاسی کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بی جے پی ممتا بینر جی کو جنوبی بنگال میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ پھیلانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے۔ اسی لئے بی جے پی نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی ہے‘ مگر اسے ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی مہم براہ راست وزیر اعظم مودی اور امیت شاہ کے ہاتھ میں ہے اور انہوں نے ووٹر کو اپنی طرف کرنے کے لئے سینکڑوں جلسے کئے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے خطرناک پھیلائو کے باوجود مودی اور ان کی ٹیم بھرپور مہم چلا رہی ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس دفعہ اسمبلی کی کم از کم 200 نشستیں حاصل کر کے وہ مغربی بنگال میں ایک دہائی پر محیط ممتا بینر جی کے اقتدار کا خاتمہ کر کے اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی‘ لیکن غیر جانبدار اور آزاد رائے رکھنے والے مبصرین کے مطابق بی جے پی ریاست میں واحد اکثریتی پارٹی کے طور پر تو ابھر سکتی ہے‘ لیکن حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ریاست کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی ہی رہیں گی کیونکہ انہوں نے اپنے دس سالہ دورِ حکومت میں عوام خصوصاً عورتوں کیلئے بہت سے فلاحی کام کئے ہیں‘ جس کی وجہ سے وہ عوام میں ابھی تک پاپولر ہیں۔ ان کے مقابلے میں بی جے پی نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کیلئے جو امیدوار کھڑا کیا ہے‘ وہ ایک جانی پہچانی شخصیت نہیں۔ تقریباً اسی قسم کی صورتحال بی جے پی کو تامل ناڈو میں درپیش ہے۔ جنوبی بھارت کی اس اہم ریاست میں جہاں آنجہانی جے للیتا مودی کی ہندوتوا لہر کو روکنے کیلئے ایک مضبوط دیوار تھیں‘ بی جے پی اس کے ایک دھڑے سے اتحاد کر کے ڈی ایم کے‘ کے خلاف انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ لیکن مبصرین کی رائے میں ڈی ایم کے کی کامیابی زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ اے آئی ڈی ایم کے ایک تو جے للیتا جیسی لیڈر کی قیادت سے محروم ہے‘ اور دوسرے یہ پارٹی اب دھڑے بندی کا شکار ہو کر اپنی اپیل کھو چکی ہے۔ کیرالا میں کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کی قیادت میں لیفٹ فرنٹ کی حکومت بہت مضبوط ہے کیونکہ اس نے ریاست میں وسیع پیمانے پر ترقیاتی کام کئے ہیں۔ بھارت کی ان پانچ جنوبی ریاستوں میں قومی سطح کی تین سیاسی پارٹیوں کے درمیان مقابلہ ہے‘ بی جے پی‘ کانگریس اور لیفٹ فرنٹ۔ ان میں سے کوئی بھی مکمل طور پر اپنے ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی‘ لیکن بی جے پی کی پوزیشن باقی دونوں پارٹیوں سے بہتر ہے۔ مغربی بنگال میں اگر بی جے پی حکومت نہ بھی بنا سکی تو موجودہ اسمبلی انتخابات کے نتائج اسے یقینی طور پر جنوبی بھارت میں ایک اہم سیاسی قوت بنانے میں مدد دیں گے کیونکہ آسام‘ کرناٹک پہلے ہی اس کے پاس ہیں۔ پانڈی چری میں وہ حکومت بنانے جا رہی ہے اور مغربی بنگال اور تامل ناڈو میں وہ اپنے ووٹ بینک میں نمایاں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔