بھارت کی ریاست مغربی بنگال کے حالیہ ریاستی انتخابات میں چیف منسٹر ممتا بینرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کو شکست فاش دے دی ہے۔ 294 نشستوں کی ریاستی قانون ساز اسمبلی میں الیکشن سے پہلے 200 سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی صرف 80 نشستیں حاصل کر سکی۔ اس بار ممتا بینرجی نے گزشتہ ریاستی انتخابات (2016 ) کے مقابلے میں چار زیادہ نشستیں اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں حاصل کردہ کل ووٹوں سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں‘ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست کے مشرق میں واقع نندی گرام کے حلقے میں وہ ہار گئیں۔ ان کے مقابلے میں بی جے پی کے امیدوار سویندھو ادھیکاری تھے‘ جو کچھ عرصہ پہلے ترنمول کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے تھے‘ تاہم بھارت کے آئین کی دفعہ 164(4) کے تحت ممتا بینرجی اس کے باوجود چیف منسٹر کے عہدے پر فائز ہو سکتی ہیں‘ البتہ انہیں چھ ماہ کے اندر اسمبلی کا رکن منتخب ہونا پڑے گا۔
بنگال میں ترنمول کانگریس کے ہاتھوں بی جے پی کی شکست نے ممتا بینرجی کے سیاسی قد کاٹھ میں زبردست اضافہ کر دیا ہے‘ اور انہیں مودی کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کی طاقت ور علاقائی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد کی لیڈر کے طور پر پروجیکٹ کیا جا رہا ہے‘ لیکن ان انتخابات میں بھارت کے سیاسی افق پر کچھ اور لیڈر بھی چمک دار ستارے بن کر ابھرے ہیں۔ ان میں کیرالہ کے چیف منسٹر پیارائی وجیائن (Pinarayi Vijayan) بھی شامل ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ریاست کی 40 سالہ روایت توڑ کر پہلی دفعہ دوسری ٹرم کے لئے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے قبل کانگریس کی قیادت میں قائم ہونے والے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF) اور کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) (CPM) کی رہنمائی میں تشکیل پانے والے سیاسی اتحاد لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (LDF) کے مابین پانچ پانچ سال باری باری ریاستی اقتدار کا تبادلہ ہوتا تھا‘ مگر اس دفعہ اسمبلی کی 140 نشستوں میں سے 99 پر کامیابی حاصل کر کے کانگریس کی قیادت میں قائم یو ڈی ایف کے حصے کو 41 سیٹوں تک محدود کر دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ پیارائی وجیائن کی ایک یادگار کامیابی یہ ہے کہ ریاست میں بی جے پی کی واحد نشست کو بھی چھین لیا۔ یہ نشست بی جے پی نے 2016 کے ریاستی انتخابات میں حاصل کی تھی۔ اس پر کمیونسٹ وزیر اعلیٰ کا تبصرہ یہ تھا ''بی جے پی نے 2016 میں کیرالہ میں اپنا اکائونٹ کھولا تھا‘ 2021 میں ہم نے یہ اکائونٹ بند کر دیا۔ اس سے ہم یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ریاست کیرالہ میں بی جے پی کے لئے کوئی جگہ نہیں‘‘۔ لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ کیرالہ میں کانگریس اور بی جے پی کا صفایا کرنے والی کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) مغربی بنگال کے انتخابات میں صرف ایک سیٹ لے سکی‘ حالانکہ اس ریاست یعنی مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) نے 1977 سے 2011 تک 34 سال حکومت کی تھی۔ مغربی بنگال کی سابقہ اسمبلی میں‘ جس کے لئے 2016 میں انتخابات ہوئے تھے‘ اس کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ)کے 26 اراکین تھے‘ اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں اس کے سات اراکین لوک سبھا کی نشستوں پر منتخب ہوئے تھے۔ حاصل کردہ ووٹوں کی شرح بھی بی جے پی سے زیادہ تھی۔ ایک زمانہ تھا جب بھارت میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا دوسرا نمبر تھا‘ لیکن پھر اس پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی‘ جس کی وجہ سے کمیونسٹ انتخابی سیاست میں بہت پیچھے رہ گئے۔ مغربی بنگال کے بعد کمیونسٹ اُڑیسہ میں بھی اقتدار سے محروم ہو چکے ہیں‘ لیکن ہتھوڑے اور درانتی والا سرخ جھنڈا اب بھی کیرالہ میں سرکاری عمارات پر اور تقریبات میں لہراتا نظر آتا ہے اور اس کا سہرا بلا شبہ وزیر اعلیٰ پیارائی وجیائن کو جاتا ہے جنہوں نے گورننس کو نظریے پر ترجیح دے کر ریاست میں مثالی ترقیاتی اور فلاحی کام کئے ہیں۔ کیرالہ میں کمیونسٹ حکومت کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کے مابین بہت قریبی تعاون ہے۔ پالیسی پارٹی طے کرتی ہے اور حکومت مکمل تابعداری کے ساتھ ان فیصلوں پر عمل کرتی ہے اور یہ عمل درآمد اوپر سے نیچے تک سرایت کرتا ہے۔ وزیر اعلیٰ عوام میں بہت پاپولر ہیں۔ اپنی محنت اور مستعدی کے باعث انہیں ''دوسرا مودی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ کیرالہ میں کمیونسٹ سیاست اور نظریے کی جڑیں بڑی گہری ہیں۔ یہ بھارت کی پہلی ریاست تھی‘ جہاں 1957 میں جمہوری عمل کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکومت برسرِ اقتدار آئی تھی۔
مغربی بنگال اور کیرالہ کے بعد حالیہ انتخابات میں جن ریاستوں کے نتائج نے بی جے پی کے جنوبی بھارت پر بالا دستی قائم کرنے کے ارادے کو خاک میں ملایا ہے‘ ان میں تامل ناڈو (سابق مدراس) بھی شامل ہے۔ یہاں بی جے پی نے موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سابقہ حریف پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے (All India Anna Dravida Munnetra Kazhagam) کے ایک دھڑے کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ اے آئی اے ڈی ایم کے آنجہانی جے للتا کی پارٹی ہے اور جنوبی بھارت میں مودی سرکار کے قدم جمانے کی کوششوں کو ناکام بنانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ مودی اور امیت شا کی جوڑی کی طرف سے اس کے ایک دھڑے کو ساتھ ملا کر تامل ناڈو میں اپنی موجودگی قائم کرنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن یہ کوشش بری طرح ناکام رہی اور اس کی حریف پارٹی ڈی ایم کے (DMK) نے 234 میں سے 175 نشستیں حاصل کر کے تامل ناڈو میں بی جے پی کے عزائم کو ناکام بنا دیا۔ ڈی ایم کے کی اس کامیابی میں اس کے لیڈر ایم کے سٹالن (Muthuvel Karunanidhi Stalin) نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ ڈی ایم کے‘ کے آنجہانی رہنما کرونا ندی کے بیٹے ہیں۔
ان انتخابات کا ایک اور اہم پہلو کانگریس کی انتہائی مایوس کن کارکردگی ہے‘ حالانکہ راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی نے پورے زور و شور کے ساتھ ان تمام ریاستوں میں انتخابی مہم چلائی تھی‘ لیکن کانگریس نہ صرف آسام میں بی جے پی سے اقتدار واپس لینے میں ناکام رہی بلکہ کیرالہ میں لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (LDF) کے ہاتھوں شکست کھا گئی۔ اس کے علاوہ اس نے پانڈی چری یونین ٹیریٹری میں بی جے پی کو اپنا اکائونٹ کھولنے کا موقع دیا۔ بھارت کے ان ریاستی انتخابات میں کانگریس کی خراب کارکردگی کے باعث راہول گاندھی کی قیادت پر پھر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بد ترین شکست کے بعد کانگریس ریاستی سطح پر بھی عوام کی حمایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ اگرچہ پنجاب اور چھتیس گڑھ میں اس کی حکومت ہے اور بعض دیگر ریاستوں میں وہ مخلوط حکومتوں کا حصہ ہے‘ مگر جنوبی بھارت میں اس کی پوزیشن متواتر زوال کا شکار رہی ہے۔ خاص طور پر آسام میں‘ جہاں پارٹی 2001 تا 2016 برسر اقتدار رہی۔ بی جے پی کے ہاتھوں ایک دفعہ پھر شکست اس کے مخدوش مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مغربی بنگال میں اس نے کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کو ساتھ ملا کر ترنمول کانگریس اور بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی‘ مگر بری طرح شکست کھائی‘ اس کا ووٹ بینک‘ جس میں مسلمان ووٹ ایک بڑے حصے کی حیثیت رکھتے ہیں‘ ممتا بینرجی کی طرف سونگ کر گیا ہے۔ اسے بھارت کی قومی اور علاقائی سیاست سے منسلک رہنے کیلئے اپنی ناکامیوں اور خامیوں کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا ہو گا۔ (جاری)