بھارت کے حالیہ ریاستی انتخابات کے نتائج کا اگر عمومی جائزہ لیا جائے تو بی جے پی ملک کے مشرقی اور جنوبی حصوں پر بالا دستی قائم کرنے کی اپنی دیرینہ کوششوں میں کافی کامیاب نظر آتی ہے‘ مثلاً آسام میں اس نے کانگریس کو شکست دے کر اپنے اقتدار کو برقرار رکھا ہے‘ جسے اس نے 2016 میں کانگریس سے چھینا تھا۔ جنوبی بھارت کی سب سے بڑی ریاست کرناٹک پہلے ہی اس کے قبضے میں ہے۔ پانڈی چری میں اس کی پہلی دفعہ حکومت قائم ہونے جا رہی ہے۔ جنوبی بھارت کی ایک اور اہم ریاست تامل ناڈو‘ جہاں چند سال پیشتر بی جے پی کا نام و نشان نہیں تھا‘ میں اب وہ ایک بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ AIADMK کے ساتھ مل کر تامل ناڈو میں حکومت قائم نہیں کر سکی اور DMK کے رہنما ایم کے سٹالن نے وہاں اپنی حکومت بنا لی ہے۔ اسی طرح بنگال میں‘ جہاں 2016 میں منتخب ہونے والی ریاستی اسمبلی میں اس کی صرف تین نشستیں تھیں‘ اب وہ 80 نشستوں کی مالک ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی بنگال کی اسمبلی میں اب ترنمول کانگریس کی رہنما ممتا بینرجی کو بی جے پی کا بحیثیت اپوزیشن جماعت سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک ایسی پارٹی‘ جسے گزشتہ تقریباً چار دہائیوں میں جنوبی بھارت میں قدم جمانے میں بار بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘ اب تین ریاستوں میں برسرِ اقتدار ہے اور دو اہم ریاستوں میں اپوزیشن جماعت بن کر ابھر چکی ہے‘ مگر ان کامیابیوں کے باوجود بی جے پی کے کیمپ میں مایوسی اور یاس کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ مغربی بنگال میں برسرِ اقتدار ترنمول کانگریس کی ممتا بینرجی‘ جنہیں وہاں کے عوام پیار سے ''دیدی‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں‘ کو شکست دینے میں اس کی ناکامی ہے۔
بھارت کے میڈیا نے مغربی بنگال میں بی جے پی کی اس شکست کو ''نریندر مودی کا سب سے بڑا فلاپ شو‘‘ اور قومی سیاست میں ''ایک اہم موڑ‘‘ قرار دیا ہے۔ بعض حلقے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ان انتخابات کے بعد بھارت کی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے‘ جو وزیر اعظم مودی کے گزشتہ آٹھ سالہ دورِ اقتدار سے بالکل مختلف ہو گا۔ ایسا کیوں کہا جا رہا ہے؟ اس کی ایک وجہ بھارت کی تاریخ‘ ثقافت اور سیاست میں بنگال کا منفرد مقام ہے۔ بنگال وہ سرزمین ہے‘ جہاں ٹیگور اور نذرالاسلام کی انسانیت نواز اور محبت بھری شاعری اور ادبی خدمات نے بھائی چارے اور برداشت کی فضا قائم کرنے میں مدد دی۔ مغربی بنگال میں سی پی ایم کی قیادت میں لیفٹ فرنٹ نے تیس برس سے زیادہ حکومت کی ہے اور اس دور میں ایسی اقدار کو پروان چڑھایا ہے‘ جو بی جے پی کے 'ہندوتوا‘ فلسفے سے براہ راست متصادم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے بنگال میں ہندو اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو ٹارگٹ کر کے مذہب اور ذات کو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا‘ لیکن بی جے پی کی یہ کوشش ناکام ہوئی اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوئوں کی بھاری تعداد نے بی جے پی کے ''ہندوتوا‘‘ نظریے کو مسترد کر کے سیکولر نظریے کی حامی ترنمول کانگریس کو ووٹ دئیے۔
مغربی بنگال بھارت کی چوتھی بڑی ریاست ہے اور لوک سبھا میں اس کی 42 نشستیں ہیں؛ چنانچہ یونین گورنمنٹ کے بنانے یا ہٹانے میں مغربی بنگال کا ایک کردار ہو سکتا ہے۔ اسی لئے 2021 کے ریاستی انتخابات میں نریندر مودی کی بی جے پی کے لئے مغربی بنگال میں کامیابی سب سے بڑا ''پرائز‘‘ (Prize) تھی‘ جسے حاصل کرنے کے لئے نریندر مودی نے تمام وسائل جھونک دیئے تھے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے شمالی‘ مغربی اور وسطی بھارت میں بی جے پی کی فتوحات کے معمار پُرانے‘ سیاسی ساتھی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ کئی ہفتوں تک مغربی بنگال میں ڈیرے ڈالے رکھے۔ بھارت کے دیگر حصوں کی طرح مغربی بھارت میں بھی کورونا وائرس پھیل رہا تھا‘ لیکن اس کی پروا نہ کرتے ہوئے مودی اور امیت شاہ نے جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان جلسوں اور جلوسوں میں اپنی تقریروں میں انہوں نے ممتا بینرجی کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے انتخابات سے پہلے ہی اپنی کامیابی اور ممتا بینرجی کی شکست کا اعلان کر دیا تھا۔ مرکز میں حکومت کا سربراہ ہونے کی وجہ سے نریندر مودی کو ممتا بینرجی پر ایڈوانٹیج حاصل تھا‘ اس کے علاوہ بھارت کے الیکشن کمیشن نے بھی مبینہ طور پر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگال میں انتخابی عمل کے دورانیے کو آٹھ مرحلوں میں چار ہفتوں سے زیادہ عرصے تک طویل کر دیا۔ ترنمول کے سیاسی سٹریٹیجسٹ پرشانے کشور کا دعویٰ ہے کہ الیکشن کمیشن نے بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنگال میں انتخابی عمل کو غیر ضروری طور پر طویل کر دیا حالانکہ انتخابات ایک ڈیڑھ ہفتے میں مکمل ہو سکتے تھے۔ بھاری سازوسامان اور بھرپور تیاریوں کے ساتھ نریندر مودی کی مغربی بنگال پر یلغار تیز تر رہی۔ ممتا بینرجی نے ایک حادثے میں زخمی ہونے کے باوجود ویل چیئر پر بیٹھ کر (جسے بھارتی میڈیا نے جنگی رتھ کا نام دیا ہے) اپنی انتخابی مہم کی قیادت کی اور اپنے سے کہیں زیادہ طاقت ور اور بے حد وسائل کے مالک نریندر مودی‘ جو شمالی‘ مغربی اور وسطی بھارت میں فتح کے جھنڈے گاڑتا ہوا‘ مغربی بنگال پر حملہ آور ہوا تھا تاکہ اس کے ''ہندوتوا‘‘ پر مبنی راج کی مزاحمت کرنے والے سب سے اہم مورچے پرقبضہ کر لیا جائے‘ کو شکست دی۔ ممتا بینرجی نے اس کی ایک نہ چلنے دی کیونکہ بقول اس کے یہ جنگ 'بھارت کی اصل روح‘ کو بچانے کے لئے لڑی جا رہی تھی۔
مغربی بنگال میں ممتا بینرجی کی بی جے پی پر فتح سے بھارت کی اپوزیشن کے مردہ جسم میں جان پیدا ہو گئی ہے‘ اور بی جے پی‘ جو نریندر مودی کی قیادت میں شمالی اور وسطی بھارت پر آندھی بن کر چھا چکی ہے‘ کے خلاف ممتا بینرجی بھارتی عوام کے لئے اجالے کی ایک کرن بن کر ابھری ہیں۔ مغربی بنگال کے بعد بھارت کے تمام علاقائی رہنما اس یقین کا اظہار کر رہے ہیں کہ مودی ناقابلِ شکست نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے 'مودی لہر‘ کو رول بیک کیا جا سکتا ہے۔ اس متحدہ اپوزیشن کی قیادت کے لئے سب نظریں ممتا بینرجی کی طرف اٹھ رہی ہیں‘ مگر بھارت کی انتخابی سیاست کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ملک میں کانگریس کے بغیر کوئی اپوزیشن اتحاد موثر ثابت نہیں ہو سکتا‘ لیکن کانگریس کے دو مسئلے ہیں۔ ایک تو راہول گاندھی کی قیادت ناکام ثابت ہوئی ہے اور دوسرے اس کا پُرانا مائنڈسیٹ ہے‘ جس کے تحت کانگریس اب بھی اپنے آپ کو دوسری بڑی پارٹیوں سے برتر سمجھتی ہے‘ اور تعاون کے بجائے اقتدار میں بڑا حصہ طلب کرنے پر اصرار کرتی ہے‘ بہرحال بھارت میں بی جے پی کے خلاف تشکیل پانے والا کوئی سیاسی اتحاد کانگریس کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ بھارت کے 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بری طرح شکست کھانے کے باوجود اس کا قومی ووٹ بینک میں اب بھی 20 فیصد حصہ ہے جو کہ اپوزیشن میں شامل کسی بھی پارٹی سے زیادہ ہے۔ مغربی بنگال میں کامیابی پر ممتا بینرجی کو دہلی کے کیجری وال‘ سماج وادی پارٹی (جس نے حال ہی میں یو پی میں پنچایت کے انتخابات میں بی جے پی کو ایودھیا‘ بنارس‘ لکھنو میں شکست دی ہے) کے اکھلیش یادیو ڈی ایم کے‘ کے‘ ایم کے سٹالن اور بی ایس پی کی مایا وتی نے جس طرح مبارک دی ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوک سبھا کے آئندہ (2024) کے انتخابات میں جو متحدہ اپوزیشن مودی کے مدِ مقابل ہو گی‘ اس کی قیادت ممتا بینرجی کے ہاتھ میں ہو گی۔