پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا سالانہ بجٹ بنیادی طور پر اس کے پہلے دو بلکہ پچھلی حکومتوں کی طرف سے پیش کئے جانے والے بجٹوں سے مختلف نہیں۔ وہی اعدادوشمار کا گورکھ دھندا‘ گزشتہ برس کے اہداف پورے کرنے کے دعوے اور آئندہ مالی سال کے بارے میں وعدے‘ ایسے خدوخال ہیں جو بجٹ کی نمایاں پہچان ہیں‘ البتہ اس سال کے بجٹ کی اگر کوئی خصوصیت ہے تو یہ کہ اسے پی ٹی آئی کی حکومت کی مدت کے چوتھے سال یعنی آئندہ انتخابی سال سے ایک سال پہلے کے مالی سال کیلئے پیش کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے وزیرِ خزانہ نے افزائش/ پیداوار میں اضافے (Growth) کو بجٹ کا سب سے اہم ہدف قرار دیا ہے۔ اپنے محکمے کا چارج سنبھالنے سے پہلے ہی وزیر خزانہ نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں معاشی ترقی کی حکمت عملی کی بنیاد ''گروتھ‘‘ ہونی چاہئے‘ کیونکہ معیشت کے سائز میں اضافہ نہیں ہوگا تو روزگار کے مواقع کیسے پیدا ہوں گے؟ برآمدات میں اضافہ کیسے ہو گا؟ مالیاتی خسارہ کیسے کم ہو گا؟ ٹیکس میں اضافہ کیسے ہو گا؟ روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں کیسے کمی ہو گی؟ اور زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی خوراک‘ صحت اور تعلیم کیسے پوری ہوں گی؟ ''گروتھ‘‘ کو معاشی ترقی کی منصوبہ بندی میں اولین ترجیح دے کر ہی معاشرے میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔
موجودہ بجٹ کے بارے میں وزیرِ خزانہ کا دوسرا بڑا دعویٰ یہ ہے کہ اس کے تحت معاشی ترقی کے ثمرات سے غریب لوگ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔ اس سے قبل غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے لوگوں کو معاشی ترقی کے ثمرات سب سے آخر میں ٹرکل ڈائون (Trickle Down) حکمتِ عملی کے تحت ملتے تھے‘ مگر اب وزیر خزانہ کہتے ہیں‘ غریبوں کی حالت سب سے پہلے بہتر بنانے پر توجہ دی جائے گی‘ اور اس کیلئے انہیں نہ صرف روزگار مہیا کرکے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا جائے گا بلکہ صحت‘ تعلیم اور ہائوسنگ کے شعبوں میں ان طبقات کیلئے متعدد اقدامات کے ذریعے ان کے معیارِ زندگی کو بلند کیا جائے گا۔
یہ دونوں اہداف قابلِ ستائش اور وقت کی اہم ضرورت ہیں‘ لیکن ماہرین کے نزدیک ان کا حصول پاکستان اور پاکستان کے اردگرد کے حالات میں مشکل نظر آتا ہے۔ جہاں تک معاشی ترقی اور جی ڈی پی میں 4 سے 6 فیصد اضافے کا تعلق ہے تو وزیر خزانہ خود کہہ چکے ہیں کہ اس کیلئے سرمایہ کاری سب سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کے بغیر کوئی معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے سرمایہ کاری کے سب سے مفید ذریعے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (Direct Foreign Investment) میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال دسمبر میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 61 فیصد کمی واقع ہوئی اور دسمبر 2020 میں پاکستان آنے والی ایف ڈی آئی دسمبر 2019 کی براہ راست سرمایہ کاری 493 ملین ڈالر کے مقابلے میں صرف 193.6 ملین ڈالر تھی۔ 2021 کے مالیاتی سال کے کچھ ماہ میں اس میں 30 فیصد مزید کمی واقع ہوئی اور اس سے پہلے سال کی اسی مدت میں 1.36 بلین ڈالر سرمایہ کاری کے مقابلے میں ایف ڈی آئی کا حجم 952.6 ملین ڈالر رہ گیا۔ اس کی وجہ کورونا وائرس کی وبا ہو سکتی ہے‘ لیکن بھارت‘ جہاں کورونا وائرس کی وبا نے پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہولناک تباہی مچائی ہے‘ میں سال 2020 (اپریل تا نومبر) ایف ڈی آئی 81 فیصد اضافے کے ساتھ 58.37 بلین امریکی ڈالر تھی۔ بھارت کے کسی بھی مالیاتی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں یہ سب سے زیادہ اضافہ تھا۔
حد یہ ہے کہ کورونا کی تباہ کاریوں کے باوجود بنگلہ دیش بھی ایف ڈی آئی حاصل کرنے کی دوڑ میں پاکستان سے 2020 میں آگے تھا۔ معاشی مسائل کو سیاسی حالات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اور سرمایہ کاری‘ خواہ وہ اندرونی ہو یا بیرونی‘ کا تو سیاسی حالات مثلاً ملک میں سیاسی استحکام اور حکومتی پالیسیوں میں تسلسل کے ساتھ بہت ہی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ کاری کا عمل کسی بھی ملک میں سکیورٹی اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال سے براہ راست اور فوری طور پر متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان گزشتہ تین برسوں سے نہیں بلکہ 2014 سے سیاسی عدم استحکام کا شکار چلا آ رہا ہے۔ ملک میں معاشی بحران خصوصاً ایف ڈی آئی کا پاکستان کی طرف رخ نہ کرنے کی بڑی وجہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین مسلسل محاذ آرائی کی کیفیت ہے۔
جہاں تک معیشت کی افزائش کا تعلق ہے ‘ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ یہ پائیدار (Sustainable) ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں‘ لیکن اسے پائیدار رکھنے کیلئے جن فوری نوعیت کے اور طویل المیعاد اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان کے بارے میں حکومتی پالیسی میں کوئی نشانات نظر نہیں آتے‘ مثلاً ہماری معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل اور برآمدات کا ذریعہ کپاس ہے۔ پاکستان کی لیبر فورس کا نصف سے زیادہ حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔ فوڈ سکیورٹی زراعت کی ترقی کے بغیر ممکن نہیں‘ اور جدید خطوط پر زراعت کو اس وقت تک ترقی نہیں دی جا سکتی‘ جب تک زرعی اصلاحات نافذ نہ ہوں۔ پاکستان کی کسی حکومت نے زرعی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی‘ کیونکہ ہر حکومت لینڈد ارسٹوکریسی کی حمایت پر انحصار کرتی چلی آئی ہے۔ ہمارا نہری نظام‘ جسے دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہونے کا اعزاز حاصل ہے‘ سو سال پُرانا ہے۔ اس میں دیگر ممالک کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جا سکے‘ لیکن چونکہ یہ اقدامات بھاری سرمایہ کاری کا تقاضا کرتے ہیں‘ اس لئے کوئی حکومت اس سمت میں قدم اٹھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ حکومت کی طرف سے وضاحت پیش کی گئی ہے کہ گزشتہ سال کم جی ڈی پی گروتھ کے اندازوں کے برعکس 3.94 فیصد کی غیر متوقع گروتھ کی وجہ زراعت اور بڑی صنعتوں کی اچھی پرفارمنس ہے‘ مثلاً ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) اور عالمی بینک (WB) نے اپنے اندازوں میں پاکستان میں 2020 کے دوران جی ڈی پی گروتھ کے بالترتیب 1.3 اور 1.5 فیصد اندازے لگائے تھے‘ لیکن حکومت پاکستان کے مطابق گزشتہ سال شرح نمو 3.94 فیصد رہی اور اس کی بڑی وجہ بڑی صنعتوں کے شعبوں میں 2.77 اور زراعت میں 3.57 فیصد کے حساب سے شرح نمو ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بجٹ میں آئندہ مالی سال (2021-2022 ) کیلئے شرح نمو کا ٹارگٹ 4.8 فیصد بھی انہی دو عوامل یعنی زراعت اور بڑی صنعتوں میں متوقع شرح نمو کی بنیاد پر مقرر کیا گیا ہے‘ مگر بجٹ تیار کرنے والے یہ بھول گئے کہ زراعت میں شرح نمو کا انحصار کلیتاً موسم پر ہوتا ہے اور گزشتہ برس بڑی صنعتوں میں سے ایک فارماسیوٹیکل کی شرح نمو میں اضافہ کورونا وبا کی وجہ سے ہوا۔ اگر اس وبا کی شدت میں کمی آتی ہے تو فارماسیوٹیکل کی شرح نمو بھی نیچے آ جائے گی۔ بجٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ 'عوام دوست‘ ہے اور ملک کے غریب اور محنت کش طبقات کی بھلائی کیلئے پیش کیا گیا ہے‘ مگر پاکستان کے محنت کشوں کی 80 فیصد تعداد بڑی صنعتوں سے نہیں بلکہ سمال اور میڈیم سائز انڈسٹریز سے وابستہ ہے۔ جب تک ان کی ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے‘ ملک میں بیروزگاری اور اس کی وجہ سے موجود غربت کا بوجھ ہلکا نہیں ہو سکتا۔