حال ہی میں پارلیمنٹ ہائوس میں ملکی اور علاقائی صورتحال پر قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے عسکری قیادت نے اراکینِ پارلیمنٹ کو جو بریفنگ دی‘ اسے ہر طرف سے سراہا گیا ہے‘ لیکن جیسا کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے پاور پوائنٹ پر اپنی پریزینٹیشن سمیٹتے ہوئے کہا کہ عسکری قیادت نے حقائق عوامی نمائندوں کے سامنے رکھ دیئے ہیں‘ اب یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ ان حقائق کی روشنی میں پالیسی گائیڈ لائنز مرتب کرے تاکہ ملک کو درپیش چیلنجز سے مؤثر طور پر نمٹا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خطے‘ خصوصاً افغانستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے پیشِ نظر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ضروری ایڈجسٹمنٹ کرنے کا جو عمل شروع کیا گیا ہے‘ حالیہ سکیورٹی بریفنگ اس عمل کی جانب پہلا قدم ہے‘ لیکن اصل کام پالیسی سازی ہے‘ جس میں درپیش چیلنجز کی نوعیت اور ان میں مضمر پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرات کا جائزہ لے کر خارجہ پالیسی کی ایک واضح سمت متعین کرنا بھی شامل ہے۔
پالیسی سازی ایک پیچیدہ‘ کثیر جہتی‘ ہمہ گیر اور طویل المیعاد تناظر میں مقاصد کے حصول کے لیے لائحہ عمل کی تشکیل کا نام ہے۔ یہ کسی ایک ادارے کا کام نہیں بلکہ یہ ہر متعلقہ سٹیک ہولڈر کی طرف سے رائے (Input) کے اجتماعی جائزے کی بنیاد پر فیصلہ سازی کا عمل ہے۔ پارلیمنٹ کے علاوہ وزارتِ خارجہ اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اہم ادارے ہیں‘ جو اس عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اب جبکہ علاقائی اور عالمی سطح پر تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال نے پاکستان کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کے از سر نو جائزے کو ناگزیر بنا دیا ہے‘ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے چند نئے حقائق کو پیشِ نظر رکھے۔ ایک تو یہ ہے کہ جس صورت حال میں ملک کو موجودہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ وہ 1980 کی دہائی اور مشرف دور کے چیلنجز سے بہت مختلف ہیں۔ 1980 کی دہائی میں جب امریکہ سابق سوویت یونین سے ویت نام میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے روسی حملہ آوروں کے خلاف افغان جہاد کی پیسے اور ہتھیاروں سے مدد کرنا چاہتا تھا‘ تو اس کے لیے اسے کلیتاً پاکستان پر انحصار کرنا پڑا کہ یہی واحد آپشن تھا‘ اس لئے کہ وسطی ایشیا کی ریاستوں کا اس وقت کوئی وجود نہ تھا۔ پاکستان کے بعد افغانستان کا سب سے بڑا ہمسایہ ملک ایران تھا۔ اگر ایران میں انقلاب بپا نہ ہوا ہوتا تو افغانستان میں روسیوں کے خلاف مدد فراہم کرنے کیلئے ایران آئیڈیل ملک تھا۔ پاکستان امریکہ کی اس مجبوری سے واقف تھا۔ اسی وجہ سے جنرل ضیاالحق نے صدر کارٹر کی طرف سے 200 ملین ڈالر کی پیش کردہ امداد کو مونگ پھلی (peanuts) کہہ کر مسترد کر دیا تھا اور کارٹر کے جانشین صدر ریگن کو 6 بلین ڈالر کا ایڈ پیکیج پاکستان کیلئے منظور کروانا پڑا تھا۔ امریکہ کے لیے کسی اور آپشن کی غیر موجودگی میں پاکستان نے اپنی جیو سٹریٹیجک پوزیشن کا کچھ فائدہ اٹھایا۔ افغانستان میں جنگ مجاہدین لڑ رہے تھے‘ ہتھیار امریکہ اور پیسہ سعودی عرب کا استعمال ہو رہا تھا‘ جس سے پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف کچھ لوگ بھی مستفید ہو رہے تھے۔ اس دوران پاکستان کو افغانستان میں تقریباً ویٹو کا اختیار حاصل تھا‘ مثلاً ایک موقع پر جب سابق سوویت یونین نے فوجی انخلا پر آمادگی کا اظہار کیا اور افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کے آپشن پر غور کرنے کی بات ہوئی تو پاکستان کی مخالفت کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ اسی طرح امریکیوں کو پاکستان کے اصرار پر افغان مجاہدین کو اسلحہ اور مالی امداد براہ راست کے بجائے پاکستان کے ذریعے فراہم کرنا پڑی۔
نائن الیون کے بعد صدر بش کی انتظامیہ افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کو دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد (World Coalition) کا حصہ بنانا چاہتی تھی۔ اسی لئے دسمبر 2001 میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام بون کانفرنس کا اہتمام کر کے حامد کرزئی کی زیرِ صدارت افغانستان میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی۔ طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے امریکہ اور اس کے نیٹو حلیف ممالک کے فوجی دستوں پر مشتمل انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس (ISAF) قائم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا مینڈیٹ حاصل کیا گیا۔ امریکہ نے افغانستان میں اس مشن کو مزید عالمی نمائندگی دینے کے لیے بھارت کو بھی وابستہ کرنا چاہا تو جنرل مشرف نے اپنا مشہور فقرہ Let it (India) lie at hay کہہ کر امریکہ کی کوشش کو ویٹو کر دیا تھا‘ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔
موجودہ صورت حال کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کی جگہ سنبھالنے والے نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی مدت چھ ماہ سے بھی زائد گزر جانے کے باوجود پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔ نئے امریکی صدر نے پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ ابھی تک براہ راست رابطہ نہیں کیا‘ اگرچہ دونوں ملکوں کی وزارتِ خارجہ اور دفاع کے اعلیٰ حکام کے مابین بات چیت ہوئی ہے۔ پھر کچھ عرصہ پیشتر موسمیاتی تبدیلیوں پر بین الاقوامی سربراہی کانفرنس میں مہمان ملک امریکہ کی طرف سے پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جان کیری‘ جو کانفرنس سے پہلے مختلف ممالک کے دورے پر تھے‘ بھارت اور بنگلہ دیش تو گئے مگر پاکستان کا دورہ کئے بغیر واپس چلے گئے تھے۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جہاں تک امریکہ کے ساتھ پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کا معاملہ ہے تو دونوں کو گزشتہ 60 برسوں میں ایسی مشکل صورتحال کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ پھر صدر اشرف غنی کی حکومت کی جانب سے پاکستان پر تنقید نے مسائل بڑھا دئیے ہیں۔
پاکستان نے اگرچہ 2001 کے معاہدہ بون کے تحت کابل انتظامیہ کو افغانستان کی جائز اور قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے اور گزشتہ 20 برسوں میں دونوں طرف سے قریبی اور برادرانہ تعلقات کا ہمیشہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد کابل تعلقات کے افق پر شکوک و شبہات کے بادل بھی چھائے رہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات‘ افغانستان کے بعض اعلیٰ اور دفاعی حکام کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے مزید کشیدگی کا شکار ہو چکے ہیں‘ حالانکہ موجودہ مرحلے پر دونوں ممالک میں قریبی مفاہمت اور تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ علاقائی سطح پر افغانستان میں جنگ اور امن سے متعلقہ صرف پاکستان ہی واحد سٹیک ہولڈر نہیں ہے بلکہ ایران اور افغانستان سے ملحقہ سرحدوں کی مالک وسطی ایشیا کی ریاستوں کے علاوہ روس اور چین بھی ہیں۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان نے ان تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مربوط کوششوں کے لیے ملاقاتوں کے سلسلے کو قائم کر رکھا ہے‘ لیکن علاقائی امن‘ استحکام اور ترقی کے بارے میں وسطی ایشیا کی ریاستوں‘ روس اور چین کا ایک نقطہ نظر ہے۔ ان کے لیے انتہا پسندی‘ منشیات کی سمگلنگ اور دہشت گردی اہم خطرات ہیں۔ یہ ممالک دیکھنا چاہیں گے کہ ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے عملی طور پر ان کو کہاں تک تعاون مل سکتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ نئے مسائل کو پُرانے طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان اور خطے کی موجودہ صورت حال اپنی نوعیت اور مضمرات کے حوالے سے پاکستان کے لیے ایک بالکل نیا چیلنج ہے۔ اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک نئی اپروچ کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ملک میں دیگر تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے ساتھ ایک نئی سوچ اور پہلے سے مختلف اپروچ کے ذریعے موجودہ چیلنج کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔