امریکی صدر جو بائیڈن نے چند روز قبل 8 جولائی کو قصرِ صدارت (وائٹ ہائوس) میں افغانستان کے بارے میں جو بیان دیا اور بیان کے بعد میڈیا کے نمائندوں کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جو جوابات دیئے‘ ان سے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے بارے میں امریکہ کی نئی پالیسی کے خدوخال اور ترجیحات واضح ہو گئی ہیں۔ افغانستان کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 31 اگست تک اس ملک سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہو جائے گا‘ لیکن اس کے بعد امریکہ افغانستان میں نہ صرف سفارتی بلکہ عسکری اور اقتصادی طور پر بھی اپنی موجودگی برقرار رکھے گا۔ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کا حق اور اختیار صرف افغان عوام کو حاصل ہے‘ البتہ تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علاقائی ممالک یعنی اس خطے میں واقع ممالک کو افغانستان میں قیامِ امن کی کوشش کرنی چاہئے۔ صدر جو بائیڈن‘ جو سابق امریکی صدر بارک اوباما (2008-2016) کی انتظامیہ میں نائب صدر رہ چکے ہیں‘ نے اپنے بیان میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے 2011 میں فیصلہ کر لیا تھا کہ تین سال بعد یعنی 2014 میں افغانستان میں اپنا فوجی مشن ختم کر دے گا‘ لیکن وزارتِ دفاع (پینٹاگون) کے اصرار پر اسے ہر سال موخر کیا جاتا رہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کے ساتھ فروری 2020 کے معاہدے کے بعد امریکی جرنیلوں کی طرف سے فوجی انخلا کا عمل نہ صرف سست بلکہ چھ ماہ سے ایک سال تک مزید موخر کرنے کی درخواست پیش ہوتی رہی‘ مگر ان کی حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ جن مقاصد کے لیے امریکہ نے افغانستان میں مداخلت کی تھی‘ وہ پورے کر لیے گئے ہیں‘ اس لیے افغانستان میں امریکہ کے مزید ٹھہرنے کا کوئی جواز نہیں‘ اسے وہاں سے جلد از جلد نکل آنا چاہئے۔ افغانستان میں خانہ جنگی کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکت کی ذمہ داری کو قبول کرنے کے مطالبے مسترد کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ اور نیٹو ممالک نے تین لاکھ افغان فوج کو تربیت دے کر جدید ترین اسلحے اور ہتھیاروں سے مسلح کر دیا ہے اور وہ طالبان‘ جن کی تعداد تقریباً 75000 ہے‘ کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے‘ وہ افغانستان کی حکومت کے ساتھ رابطے برقرار رکھے گا اور اسے عسکری اور مالی امداد فراہم کرتا رہے گا‘ البتہ گزشتہ 20 برسوں میں رونما ہونے والے واقعات کے باعث افغانستان میں امریکی کردار میں تبدیلی اور خطے میں امریکی افواج کے وسائل کی ری لوکیشن ناگزیر ہو چکی ہے۔
اس ساری صورتحال میں یہ سوال کئی لوگوں کے ذہن میں ابھرتا ہو گا کہ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ جن واقعات کے نتیجے میں امریکہ کو افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا‘ وہ اسے درپیش کچھ نئے چیلنجز ہیں۔ جن نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ جنوبی‘ وسطی اور مغربی ایشیا کا منصوبہ بنا چکا ہے‘ ان میں چین کا بطور ایک معاشی و عسکری طاقت ظہور سرِ فہرست ہے۔ یہ بات سبھی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ چین پچھلے کچھ عرصے میں ایک بڑی اقتصادی طاقت بن کر سامنے آیا ہے اور یہ بات بلکہ حقیقت امریکہ کو بے چین کر رہی ہے کہ کوئی اور ملک اس کی جگہ دنیا کی بڑی اقتصادی طاقت بن جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین نے گزشتہ تقریباً چار دہائیوں میں صنعت‘ زراعت‘ تعلیم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کو جدید خطوط پر استوار کر کے اپنی معیشت کو زبردست ترقی سے ہم کنار کیا ہے‘ اور اس کے ساتھ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں چین کے اثر و رسوخ اور علاقائی ممالک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں دو طرفہ بنیادوں پر تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی منطق بالکل واضح ہے۔ معاشی ترقی کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہوتی ہے‘ ان میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت کے علاوہ توانائی اور خام مال کی بر وقت اور بلا تعطل فراہمی بھی شامل ہے۔ اپنی برق رفتاری‘ معاشی ترقی اور قومی پیداوار میں اضافے کی شرح کو برقرار رکھنے کے لیے چین کو ان ممالک کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر معاہدوں کی ضرورت ہے‘ جو توانائی اور خام اشیا کے ذخائر سے مالا مال ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل‘ وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ افریقہ کے ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات کے پیچھے جو محرکات کارفرما ہیں‘ ان میں چین کی معاشی ترقی کے لیے خام اشیا اور توانائی (تیل‘ گیس) کا حصول نمایاں ہے۔ معاشی ترقی سے درآمدی اور برآمدی تجارت میں اضافہ ناگزیر ہے اور چین نے سب سے پہلے جن ممالک پر توجہ مرکوز کی‘ وہ مشرقِ بعید‘ جنوب مشرقی ایشیا کے ہمسایہ ممالک تھے۔
جب آج سے تقریباً 50 برس قبل جنوب مشرقی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون آسیان (ASEAN)کی امریکہ اور برطانیہ کی سرپرستی میں بنیاد رکھی جا رہی تھی تو چین نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے چین کے خلاف ایک سازش اور امریکی سامراج کا ایک ہتھکنڈا قرار دیا تھا۔ اس وقت چین یہ موقف اختیار کرنے میں حق بجانب تھا کیونکہ تب امریکہ نے چین کے گرد گھرا تنگ کرنے (Containment) کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی‘ مگر 1980 کے بعد جب چین کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ معاشی ترقی کے لیے محض اندرونی ہی نہیں بلکہ بیرونی طور پر بھی پُرامن ماحول کی ضرورت ہے‘ تو انہوں نے جاپان‘ جنوبی کوریا‘ حتیٰ کہ تائیوان کے ساتھ بھی باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں قریبی تعلقات استوار کرنا شروع کر دیئے۔ آج چین آسیان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور تنظیم سے باہر جن ممالک نے آسیان کے خطے میں سرمایہ کاری کی ہے‘ ان میں چین کا پہلا نمبر ہے۔
باہمی مفاد پر مبنی پالیسی کے حامل چین نے پُرامن‘ دوستانہ معاشی ڈپلومیسی کے ذریعے اپنی ہمسائیگی سے بھی دور خطوں مثلاً خلیج فارس‘ مشرقِ وسطیٰ‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بھی معاشی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دیا ہے‘ مگر امریکہ کو سب سے زیادہ فکر بحرالکاہل اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاقے اور مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی ہے کیونکہ بیسویں صدی کے آغاز تک وہ (امریکہ) بحرالکاہل میں اپنی عسکری اور سیاسی قوت کی بنا پر ایک عالمی طاقت بنا تھا اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں شکست خوردہ یورپی طاقتوں کی جگہ لے کر سپر پاور کے طور پر عالمی سیاسی افق پر ابھرا تھا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی حکومتیں اور میڈیا‘ دونوں ان علاقوں کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اور تجارتی تعلقات کو اپنی عالمی سیاست کے لیے ایک چیلنج قرار دیتے ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ نے بحرالکاہل اور بحرِ ہند کے خطوں میں اپنی عسکری پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل ایک دفاعی میکنزم کواڈ (QUAD) 2007 سے تشکیل دے رکھا ہے۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ چین اور پاکستان کے مابین اقتصادی راہ داری کا منصوبہ (سی پیک) چین کو بحر ہند تک رسائل حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے‘ جس سے اس سمندر کے ارد گرد واقع خطے مثلاً خلیج فارس‘ مشرق وسطیٰ اور مشرقی افریقہ کے علاوہ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور جنوب مشرقی ایشیا میں امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ (جاری)