بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے اپنے پاکستانی ہم منصب جناب عمران خان کو آموں کا تحفہ بھیجا ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم حسینہ واجد کی طرف سے آموں کا تحفہ وصول کرنے والے وزیر اعظم عمران خان خطے کے واحد رہنما نہیں ہیں اور بنگلہ دیش کی رہنما نے بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے رہنمائوں کو بھی آم بھیجے ہیں؛ تاہم پاکستان کے لیے خیر سگالی کے اس اقدام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے‘ اس لیے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں کچھ سرد مہری پائی جاتی ہے۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ دونوں ملکوں میں اس سرد مہری کو گرم جوشی میں تبدیل کرنے کے لیے ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔
گزشتہ سال بھی دونوں ملکوں کے ہاتھ ایک تاریخی موقع آیا تھا جب وزیر اعظم عمران خان نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر بات کر کے پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کے ساتھ خوش گوار اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جواب میں حسینہ واجد نے بھی پاکستانی وزیر اعظم کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ فالو اپ کے طور پر بنگلہ دیش میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے ڈھاکہ میں نہ صرف بنگلہ دیش کے اعلیٰ حکام بلکہ وزیر اعظم حسینہ واجد سے بھی ملاقات اور بات چیت کی تھی۔ اس ملاقات کے دوران بنگلہ دیشی رہنما نے دونوں ملکوں کے مابین ''برادرانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے‘‘ کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
گزشتہ برس باہمی تعلقات میں بہتری لانے کی ان کوششوں کو اس لیے بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ ان کی پہل بنگلہ دیش کی طرف سے اس وقت ہوئی‘ جب وہاں عوامی لیگ کی حکومت ہے۔ عام طور پر عوامی لیگ کو پاکستان میں بھارت نواز اور پاکستان کی مخالفت سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے اور اس کی حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کو بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ زیادہ دوستانہ رویہ اختیار کرنے کی حامی جماعت سمجھا جاتا ہے‘ لیکن گزشتہ چند برسوں میں خطے میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ جن کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی میں آزاد روی کے رجحانات نظر آنے لگے ہیں۔ انہی رجحانات کے تحت بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا‘ لیکن بات ملاقاتوں اور بیانات سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اب آموں کے تحفے کی صورت میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں جمود توڑنے کا ایک اور موقع میسر آیا ہے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی بنگلہ دیشی ہم منصب‘ دونوں اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش میں ایسے اقدامات کیے گئے‘ جن سے پاکستان میں ردِ عمل پیدا ہوا اور دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری آنے کے بجائے خرابی پیدا ہوئی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں سے بھی بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوئی فوکسڈ اور سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جنوبی ایشیا سے تاریخی اور جغرافیائی تعلق ہونے کے باوجود ہماری اس خطے کے بارے میں کوئی واضح‘ طویل المیعاد پالیسی نہیں ہے۔ کہنے کو تو ہم علاقائی تنظیم سارک (The South Asian Association for Regional Cooperation (SAARC)) کے رکن اور خطے میں آزادانہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے 2006 سے قائم ''سائوتھ ایشیا فری ٹریڈ ایریا‘‘ (The South Asian Free Trade Area (SAFTA)) میں شامل ہیں‘ لیکن علاقائی روابط کو بڑھانے کے لیے ہماری تمام تر کاوشوں کا رخ افغانستان اور ایران کے راستے وسطی اور مغربی ایشیا کے ممالک کی طرف ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیا میں پاکستان کو چھوڑ کر خطے کے دیگر تمام ممالک آمد و رفت‘ تجارت‘ اقتصادی تعاون اور سیاحت کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ آبادی‘ رقبے‘ وسائل‘ معیشت اور عسکری طاقت کے لحاظ سے بھارت خطے کے باقی تمام ممالک سے بڑا ہے‘ مگر بھارت جنوبی ایشیا کا واحد ملک نہیں ہے‘ اس کے علاوہ نیپال‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور مالدیپ بھی موجود ہیں‘ جو نہ صرف آزاد اور خود مختار ہیں بلکہ قانون کی نظر میں بین الاقوامی برادری کے برابری کے درجے کے ممالک ہیں‘ مگر 1948 سے اب تک ہم بوجوہ بھارت سے ایسے الجھے چلے آ رہے ہیں کہ ہماری تمام تر علاقائی توجہ بلکہ خارجہ پالیسی کا فوکس صرف اور صرف بھارت ہے۔ بھارت کے علاوہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی ہم نے دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے کی کوشش نہیں کی حالانکہ دو طرفہ بنیادوں پر جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کے تجارتی‘ ثقافتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعلقات کے فروغ کی زبردست گنجائش موجود ہے اور اس کے لیے مطلوبہ فریم ورکس بھی موجود ہیں۔
میری نظر میں بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کے راستے میں ایک رکاوٹ سابق مغربی پاکستان میں شروع سے پایا جانے والا چند حلقوں کا ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ پہلے اس کا اظہار مشرقی بنگال (1955 کے بعد مشرقی پاکستان) کو صوبائی خود مختاری سے انکار اور مضبوط مرکز کے ذریعے آہنی گرفت میں رکھنے پر اصرار کی شکل میں کیا جاتا تھا۔ دلیل یہ دی جاتی تھی کہ اگر مشرقی پاکستان والوں کو ان کے مطالبات کے مطابق اندرونی خود مختاری دی گئی تو پاکستان کا یہ مشرقی حصہ ملک سے علیحدہ ہو کر بھارت کی گود میں چلا جائے گا‘ حالانکہ مشرقی پاکستان کے لوگ دیگر پاکستانیوں کی طرح برابر کے محبِ وطن تھے۔ ان کی حب الوطنی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ ملک کے اتحاد کی خاطر انہوں نے برابری کی سطح پر پارلیمنٹ کی تشکیل کو قبول کر لیا تھا۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی اس مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدلی نہیں آئی‘ اور اس مائنڈ سیٹ کے حامل اس ملک کو سکم اور بھوٹان کی طرح بھارت کا سیٹلائٹ سمجھتے آئے‘ حالانکہ حالیہ کچھ عرصے میں بنگلہ دیش نے بھارت کے علاوہ دیگر ممالک مثلاً چین اور امریکہ کے ساتھ بھی آزادانہ طور پر تعلقات استوار کیے ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین بے شک قریبی تعلقات موجود ہیں لیکن اس کی ایک وجہ ملک کا جغرافیہ ہے۔ بنگلہ دیش کے جنوب میں خلیج بنگال ہے اور باقی تین اطراف میں یہ چار ہزار کلومیٹر کے قریب طویل سرحد کے ساتھ بھارتی علاقوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس طرح بھارت کے ساتھ کشیدگی سے پاک‘ قریبی تعلقات بنگلہ دیش کی مجبوری ہے اور ضرورت بھی‘ مگر یہ واضح ہے کہ ڈھاکہ دہلی کے تابع نہیں ہے اور بعض مسائل مثلاً دریائوں کے پانی کی تقسیم اور آسام میں نئے شہری قانون کے نفاذ پر دونوں ملکوں میں شدید اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین جغرافیائی فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے اگرچہ دو طرفہ تجارت کی گنجائش کم ہے (سال 2019-20 میں اس کا حجم 736 ملین ڈالر تھا) لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بنگلہ دیش ان چند ممالک میں سے ایک ہے جن کے ساتھ تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں ہے۔ اگر نیپال کے مطالبے کے مطابق بھارت اپنے علاقے سے نیپال پاکستان تجارتی کوریڈور کی تعمیر پر راضی ہو جاتا ہے تو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اپنے علاقے سے دو طرفہ تجارت میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ بنگلہ دیش اور نیپال کے مابین بھارتی علاقے سے گزرتے ہوئے تجارتی راستہ 1997 سے قائم ہے‘ لیکن ایسا صرف پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں نارملائزیشن کی صورت میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔