امریکی ذرائع کے مطابق افغانستان سے ان کی فوجوں کا انخلا 31 اگست تک مکمل ہو جائے گا۔ اس کے بعد ملک میں کیا ہو گا؟ اس کی جھلکیاں ابھی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ امریکیوں سے برسرِ پیکار اور 20 سال کے بعد انہیں پسپائی پر مجبور کرنے والے افغان طالبان آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر ملک پر اپنا مکمل کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان کے تقریباً دو سو سے زائد اضلاع اب تک ان کے قبضے میں آ چکے ہیں۔ اگر وہ اب تک صوبائی دارالحکومت یا مرکز میں کابل پر حملہ آور نہیں ہوئے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان شہروں کا دفاع ان کے لیے ناقابلِ تسخیر ہے‘ بلکہ طالبان کے اپنے بیانات کے مطابق انہوں نے شہری آبادی کو جانی نقصان سے بچانے کے لیے ان شہروں پر حملوں سے اجتناب کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے‘ لیکن ایک حکمتِ عملی کے تحت طالبان ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تجارت اور آمد و رفت کی غرض سے مستعمل راستوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔
امریکہ کے جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل مارک ملی کے مطابق طالبان کی حکمت عملی کا ایک مقصد دارالحکومت کابل کو ملک کے باقی تمام حصوں سے منقطع کرنا ہے‘ تاکہ صدر اشرف غنی کی حکومت بے بس ہو کر اقتدار سے دستبردار ہو جائے اور یوں بغیر کسی خون خرابے کے کابل طالبان کی دسترس میں آ جائے۔ طالبان کی طرف سے اس شرط پر کہ صدر اشرف غنی مستعفی ہو جائیں‘ جنگ بندی پر آمادگی کا اظہار‘ اس حکمت عملی کی تصدیق کرتا ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران جتنی آسانی سے طالبان نے ملک کے آدھے سے زیادہ حصے پر قبضہ کیا ہے‘ اس کے پیش نظر طالبان کی کامیابی اور صدر اشرف غنی کی اقتدار سے رخصتی نوشتۂ دیوار نظر آ رہی ہے۔ کچھ بین الاقوامی حلقوں کی جانب سے افغانستان میں طالبان کے اقتدار کی بحالی کو ناگزیر سمجھا جا رہا ہے‘ بلکہ کئی ممالک نے طالبان کو افغانستان کا آئندہ حکمران سمجھ کر ان سے رابطے بھی شروع کر دیئے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق کابل پر طالبان کے قبضے کو دیر نہیں لگے گی‘ کیونکہ افغان فوج اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ افغان فوج دل جمعی کے ساتھ نہیں لڑ رہی۔ اس کا ثبوت چمن اور چترال میں پاکستان سے ملنے والی افغان سرحد پر افغان فوجیوں کی پاکستان میں پناہ حاصل کرنے کے واقعات کی شکل میں موجود ہے‘ لیکن امریکہ کی اعلیٰ عسکری قیادت کی رائے میں افغانستان میں ابھی سب کچھ ہاتھ سے نہیں گیا‘ اور طالبان کی فتح ناگزیر نہیں ہے۔ امریکیوں کی یہ رائے ان کے اس خیال پر مبنی ہے کہ افغانستان کی تین لاکھ سے زائد سکیورٹی فورسز‘ جن کی تربیت اور جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح کرنے پر امریکہ نے اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں‘ طالبان کے خلاف کامیاب ہو سکتی ہیں۔ امریکیوں کو یقین ہے کہ ان کے انخلا کے باوجود طالبان طاقت کے بل پر حکومت پر قابض نہیں ہو سکیں گے‘ اور انہیں ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے مذاکرات کے ذریعے ایک عبوری حکومت کے قیام پر آمادہ ہونا پڑے گا۔
امریکیوں کی طرف سے افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کی صلاحیت پر جس حد تک انحصار کیا جا رہا ہے‘ اس پر یقین کرنا اس لیے مشکل ہے کہ افغانستان کے بارے میں امریکیوں نے اب تک جو اندازے لگائے تھے‘ وہ سب غلط ثابت ہوئے ہیں اور افغان سکیورٹی فورسز کی اب تک کی پرفارمنس سے امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ طالبان کے خلاف زیادہ دیر تک مزاحمت جاری رکھ سکیں گی‘ تاہم افغانستان ایک ایسی سرزمین ہے جس کے بارے میں کوئی رائے حتمی طور پر قائم نہیں کی جا سکتی۔ 1979 کے آخری دنوں کی ایک تاریک رات کو سوویت یونین کی فوجوں نے جب افغانستان پر حملہ کر کے اس کی تمام اہم تنصیبات‘ شاہراہوں اور سٹریٹیجک مقامات اپنے قبضے میں لے لیے تھے تو عام طور پر رائے ظاہر کی جا رہی تھی کہ افغانستان پر سوویت یونین اپنا قبضہ کبھی ختم نہیں کرے گا‘ کیونکہ سوویت یونین کے بارے میں مشہور تھا کہ ایک دفعہ جس علاقے میں اس کی فوجیں گھس جائیں‘ وہاں سے نکلتی نہیں ہیں۔ اس ضمن میں مثالیں دوسری جنگِ عظیم کے دوران سوویت فوجوں کا مشرقی یورپ میں داخلہ اور 1968 میں چیکوسلواکیہ میں مسلح مداخلت کی صورت میں موجود ہیں‘ لیکن دنیا نے دیکھا کہ دس سال کے اندر اندر سوویت یونین کو افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا اور وہاں سے رخصت ہونا پڑا تھا۔
2001 میں امریکیوں کی بمباری سے طالبان اتنی تیزی سے اپنے ٹھکانے خالی کر کے بھاگے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یقین ہو گیا کہ افغانستان میں طالبان کا دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اس لیے انہوں نے ملک میں امن و امان اور استحکام قائم کرنے کا کام شمالی اتحاد کی حکومت پر چھوڑ دیا۔ اسی دوران امریکہ نے عراق پر حملہ کر دیا اور اس کی توجہ افغانستان سے ہٹ کر عراق پر مرکوز ہو گئی۔ طالبان نے اس صورت حال سے پورا پورا فائدہ اٹھا اور چند ہی برسوں میں انہوں نے ری گروپ ہو کر اتنی طاقت حاصل کر لی کہ امریکہ کو ان کی شرائط پر افغانستان سے اپنی اور نیٹو اتحادیوں کی فوجوں کے انخلا پر راضی ہونا پڑا۔
امریکیوں نے 95 فیصد اپنا انخلا مکمل کر لیا ہے اور اگلے مہینے کے آخر تک ان کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔ اس دوران افغانستان میں طالبان کی پیش قدمیاں جاری ہیں‘ جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ طالبان نے بیشتر دیہی علاقوں پر اپنا تسلط جما لیا ہے اور اگر بڑے شہر اور دارالحکومت کابل ابھی تک ان کے تسلط سے باہر ہیں تو اس کی وجہ افغان فوج کی طرف سے مزاحمت نہیں بلکہ طالبان کی طرف سے جان بوجھ کر شہروں پر فی الحال حملے نہ کرنے کا فیصلہ ہے‘ اور اگر وہ چاہیں تو بڑی آسانی سے بڑے شہروں پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں‘ مگر اس ساری صورت حال کے باوصف ایک دفعہ پھر افغانستان دنیا کو سرپرائز دے سکتا ہے کیونکہ افغان نیشنل آرمی پر شدید دبائو کے باوجود محاذِ جنگ سے کچھ حوصلہ افزا اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے افغانستان میں امریکہ کے ایک سابق سفیر (2005-2007) رونالڈ نیومین نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا کہ عام رائے کے برعکس افغانستان میں سرکاری فوجیں طالبان کے خلاف سخت مزاحمت کر رہی ہیں اور بعض علاقوں میں انہوں نے طالبان کو پیچھے دھکیل کر کھوئے ہوئے اضلاع واپس لے لیے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے ہلمند شہر پر طالبان کے پے در پے حملوں اور سرکاری فوجوں کی طرف سے ان حملوں کو ناکام بنانے میں کامیابی کا ذکر کیا۔ سب سے زیادہ حوصلہ افزا اطلاع یہ ہے کہ شہروں میں مقامی لوگ اپنے طور پر نہ صرف سرکاری فوج کے شانہ بشانہ طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں بلکہ بعض مقامات پر انہوں نے یہ لڑائی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے‘ لیکن انہوں نے اعتراف کیا ہے مقامی مزاحمت میں حصہ لینے والے لوگ ایک مرکزی قیادت کے تحت منظم نہیں ہیں اور وہ چھوٹے ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ اگر طالبان مجتمع ہو کر ان پر حملہ کریں تو یہ مقامی مزاحمتیں ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتیں۔ اس لیے انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اعلانات اور دعووں کے مطابق افغان آرمی کی مدد کرے۔ یہ مدد ہتھیاروں‘ خوراک اور دیگر ضروری اشیا کی سپلائی کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور بحرِ ہند اور خلیج فارس میں لنگر انداز امریکی طیارہ بردار جہازوں سے طالبان کے ٹھکانوں پر بم باری کی صورت میں بھی۔ اگر امریکہ نے یہ اقدامات کئے تو افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بارے میں تمام تر پیش گوئیاں غلط ثابت ہو سکتی ہیں اور ملک میں ایک ایسا تعطل (Stalemate) پیدا ہو جائے گا جس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔