"DRA" (space) message & send to 7575

مڈ ٹرم انتخابات: امکانات اور خدشات

''عام انتخابات کسی وقت بھی ہو سکتے ہیں‘ اس لیے پارٹی کو ان میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے کراچی میں دیئے گئے اس بیان کے بعد ملک کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اس بات پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ بحث ہو رہی ہے کہ کیا مڈ ٹرم انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں؟ لیکن حکومتی حلقوں نے‘ جن میں برسرِ اقتدار پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی اتحادی جماعتیں بھی شامل ہیں‘ نے اس امکان کو یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ بلاول بھٹو نے اس قسم کے بیانات اس سے پہلے بھی جاری کئے تھے‘ اس لیے اس بیان کی کوئی اہمیت نہیں‘ البتہ وزیر اعظم عمران خان اس طرف مائل ہوں تو ان کی پارٹی کے لیے موجودہ سے زیادہ اور کوئی وقت موزوں نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی علیحدگی کے بعد حزبِ اختلاف کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں غیر متوقع طور پر بڑے مارجن کے ساتھ کامیابی اور سیالکوٹ کے حلقہ پی پی38 میں اہم فتح حاصل کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے حوصلے بلند ہو چکے ہیں اور پارٹی کے کارکنوں اور رہنمائوں کو یقین ہے کہ پنجاب میں ان کی حمایت میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ کے پی اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی پوزیشن پہلے ہی مستحکم ہے۔
جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو اس کے دیہی علاقوں میں پوزیشن بہتر بنانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں کئی اقدامات کئے ہیں۔ ان میں امسال اپریل میں اپنے دورہ سکھر کے دوران اندرونِ سندھ کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان اور صوبے کے ایک سابق وزیر اعلیٰ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GDA) کے رہنما ارباب غلام رحیم کی بطور خصوصی مشیر تعیناتی بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ پنجاب میں سپیکر صوبائی اسمبلی اور اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی کہا جا سکتا ہے۔
اگرچہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت کے ابھی دو سال باقی ہیں‘ اور اسے فی الحال کسی بڑے چیلنج کا سامنا بھی نہیں‘ تاہم پارلیمنٹ کی موجودہ ساخت اس کے راستے میں نہ صرف آئینی بلکہ سیاسی طور پر بھی ایک اہم رکاوٹ ہے۔ ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے اور وہ جب چاہے حکومت کی قانون سازی کے عمل کو بلاک کر سکتی ہے۔ ایوانِ زیریں میں حکومت کی اکثریت اتحادی جماعتوں‘ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم‘ کی حمایت پر مبنی ہے‘ جو آئے دن اپنے مطالبات منوانے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالتی رہتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ 18ویں ترمیم جیسی ''رکاوٹ‘‘ کو دور کرنے کیلئے جو دو تہائی پارلیمانی سپورٹ درکار ہے‘ وہ موجود ہ سیٹ اپ کے تحت حکومت کو دستیاب نہیں۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت نہیں ہے‘ جس نے مڈ ٹرم انتخابات کا عندیہ دیا ہے‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) بلکہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں بھی مڈ ٹرم انتخابات کو ملک میں موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل قرار دیتی رہی ہیں‘ لیکن پی ڈی ایم‘ خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کا نئے انتخابات کے بارے میں موقف یہ رہا ہے کہ انتخابات سے قبل یقین دہانی کرائی جائے کہ انتخابات صاف‘ شفاف‘ غیر جانبدارانہ اور آئین کے مطابق ہوں گے‘ جس کی وضاحت یوں کی جاتی رہی ہے کہ انتخابات سے پہلے سیاسی اور ریاستی اداروں میں ڈائیلاگ ہوں‘ جن میں یہ طے کیا جائے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے گا۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال اور سعد رفیق نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے ساتھ یہ بھی اعلان کرتے رہے ہیں کہ اگر آئندہ انتخابات بھی گزشتہ یعنی 2018 کے انتخابات کی طرح ہونے ہیں تو ایسے انتخابات کا کیا فائدہ؟ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کا الزام ہے کہ 2018 کے انتخابات صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ نہیں تھے کیونکہ انتخابات سے پہلے اور بعد میں غیر سیاسی طاقتوں نے مداخلت کر کے ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی حمایت کی تھی۔
گزشتہ انتخابات کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے تو نئی اسمبلی کے بائیکاٹ اور حلف نہ اٹھانے کی تجویز دی تھی مگر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے اس تجویز سے اتفاق نہیںکیا تھا اور اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بعد اپنی سیٹیں سنبھال لی تھیں‘ لیکن دونوں سیاسی پارٹیاں انتخابات 2018 کے دھاندلی زدہ ہونے کے دعوے سے دستبردار نہیں ہوئیں۔ دونوں پارٹیوں کا اب بھی یہ موقف ہے کہ موجودہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔ سسٹم کا حصہ ہونے اور اس کے اندر رہ کر کام کرنے کے فیصلے کو دونوں پارٹیوں نے جمہوریت کے تسلسل کی خاطر کڑوا گھونٹ قرار دیا تھا۔ اپوزیشن‘ خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کے موقف میں یہ تضاد ابھی تک موجود ہے۔ ایک طرف اس کا اصرار ہے کہ صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے آئین کی حکمرانی اور غیر سیاسی اداروں کی طرف سے عدم مداخلت کی یقین دہانی ضروری ہے‘ اور دوسری طرف وہ ہر ضمنی انتخاب میں حصہ بھی لیتی رہی ہے۔
کیا مڈ ٹرم انتخابات (اگر حکومت کی طرف سے ان کا اعلان ہوتا ہے) میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اسی طرح حصہ لینے پر آمادہ ہو جائیں گی جس طرح وہ اب تک ضمنی انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں؟ اگر یہ جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات کا چیلنج قبول کرتے ہوئے کسی قسم کی گارنٹی حاصل کئے بغیر پولنگ میں حصہ لیتی ہیں تو نواز شریف کے بیانیے کی رہی سہی جان بھی ختم ہو جائے گی۔ اس لیے نئے انتخابات کا اعلان پی ڈی ایم خصوصاً مسلم لیگ (ن) کو یقیناً ایک مشکل صورتحال میں ڈال دے گا۔ جس طرح احتساب کے نام پر اس پارٹی کی قیادت کے خلاف مقدمات درج کئے جا رہے ہیں‘ اس کے پیشِ نظر حکومت پر اپوزیشن کو ایک لیول پلیئنگ گرائونڈ سے محروم رکھنے کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو ایسی کسی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں‘ اور یہی وجہ ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو نے کارکنوں کو انتخابات کیلئے تمام تیاریاں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اگرچہ حکومت کے لیے ملک میں سیاسی حالات سازگار ہیں اور وہ مڈ ٹرم انتخابات میں 2018 کے مقابلے میں زیادہ پارلیمانی سیٹیں حاصل کرنے کی امید کر سکتی ہے‘ تاہم تین وجوہات ایسی ہیں‘ جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ بلاول بھٹو کے دعوے کے باوجود ملک میں مڈ ٹرم انتخابات کے امکانات کم ہیں۔ اول‘ حکومت کو کسی ایسے بحران کا سامنا نہیں‘ جس کی وجہ سے اسے عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہو۔ دوم‘ اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو عوام کی نظر میں کرپٹ ثابت کرنے کی حکومتی مہم موثر طور پر جاری ہے‘ اور دونوں پارٹیوں کے اختلافات اور باہمی چپقلش نے اپوزیشن کو اور بھی کمزور کر دیا ہے۔ سوم‘ افغانستان کے غیر یقینی حالات اور خانہ جنگی کے خدشات نے پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کے بارے میں شدید اندیشو ں سے دوچار کر دیا ہے۔ اگر افغانستان میں حالات مزید خراب ہوتے ہیں تو جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پاکستان پر شدید دبائو آئے گا۔ افغانستان سے ملحقہ دو صوبوں‘ کے پی اور بلوچستان میں حالات پہلے ہی نارمل نہیں‘ افغانستان میں صورتحال بدتر ہونے سے یہاں امن و امان کا مسئلہ اور بھی شدت اختیار کر جائے گا۔ ان حالات میں مڈ ٹرم انتخابات کا آپشن ممکن نظر نہیں آتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں