افغانستان سے امریکیوں نے جس گھبراہٹ، عجلت اور غیرمنظم طریقے سے اپنی فوجیں نکالیں، اس کی وجہ سے صدر جو بائیڈن کو نہ صرف اپنے ملک میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ افغان جنگ میں ساتھ دینے والے یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بھی بری طر ح متاثر ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کے بعض ممبر ممالک‘ جن میں فرانس، جرمنی اور اٹلی پیش پیش ہیں‘ نے برملا کہا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے امریکہ پر مزید انحصار نہیں کر سکتے۔ ان کے نزدیک افغانستان کی مثال کے بعد امریکہ ایک قابل اعتماد اتحادی نہیں رہا اور انہیں اب اپنے دفاع کا خود انتظام کرنا ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد یورپی ملکوں کو امید پیدا ہوئی تھی کہ سابق صدر کے دور میں یورپ اور امریکہ کے تعلقات کو جو نقصان پہنچا تھا، اس کی نہ صرف تلافی ہو جائے گی بلکہ بحر اوقیانوسی کے مشرقی اور مغربی کنارے پر آباد ممالک کے درمیان تجارت، دفاع اور ڈپلومیسی کے شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ حاصل ہو گا‘ لیکن صدر جو بائیدن نے ٹرمپ، طالبان معاہدے کے تحت افغانستان سے غیرملکی افواج اور امریکہ کا ساتھ دینے والے افغان شہریوں کے انخلا میں جس نااہلی کا مظاہرہ کیا، اس سے امریکہ پر یورپی ممالک کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی فرانس کو نظر انداز کرکے امریکہ نے بحرالکاہل کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھنے کیلئے آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ جو معاہدہ (AUSKUS) کیا ہے، اس نے یورپی ممالک خصوصاً فرانس کو سخت مایوس کیا ہے۔ اگرچہ دوسری جنگ عظیم کو 75 برس ہونے کے باوجود امریکہ کے بغیر یورپی دفاع کا کوئی سٹرکچر مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا‘ لیکن یورپی ملکوں میں یہ احساس تیزی سے تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کیلئے ہمیشہ امریکہ پر اعتماد نہیں کر سکتے اور انہیں اگر آج نہیں تو کل دفاع کیلئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ یورپی ملکوں میں اس احساس کی بنیاد افغانستان اور AUSKUS معاہدہ ہی نہیں‘ اس کی جڑیں امریکہ اور یورپ کے تعلقات کی گزشتہ 200 برس سے زیادہ قدیم تاریخ اور شمالی بحر اوقیانوس کی امریکہ کیلئے خصوصی اہمیت میں دبی ہوئی ہیں۔ ناروے سے لے کر پرتگال تک برطانیہ اور آئس لینڈ سمیت شمالی بحر اوقیانوس امریکہ کی ایک نہایت اہم مشرقی دفاعی لائن ہے‘ اسی لیے انیسویں صدی کے آغاز سے آج تک امریکہ کی سلامتی کا یہ تقاضا رہا ہے کہ یورپ پر کوئی واحد یورپی طاقت خواہ فرانس (نپولین کے عہد میں) جرمنی (دونوں عظیم جنگوں کے دوران) یا روس (جنگ عظیم دوئم کے بعد) ہو، پورے یورپ پر قابض نہ ہو کیونکہ اس سے شمالی بحر اوقیانوس کی صورت میں امریکہ کو جو قدرتی دفاعی شیلٹر میسر ہے، وہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اسی بنا پر امریکہ نے دونوں عالمی جنگوں میں جرمنی کے خلاف برطانیہ اور فرانس کا ساتھ دیا‘ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جب تباہ حال یورپ سوویت یونین کا ترنوالہ بن سکتا تھا، امریکہ یورپ کی معاشی بحالی اور دفاع کیلئے بالترتیب مارشل پلان اور نیٹو کے ساتھ مدد کو آ پہنچا۔ یورپ کی معاشی بحالی میں مارشل پلان کے اقتصادی پیکج نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح 1949ء میں ابتدائی طور پر 14 مغربی یورپی ملکوں اور کینیڈا کے ساتھ نیٹو کا دفاع معاہدہ کرکے مغربی یورپ کی طرف سوویت یونین کی کسی ممکنہ پیش قدمی کو روک دیا گیا۔
اس وقت سے لے کر آج تک یورپ اپنے دفاع اور معاشی خوشحالی کیلئے امریکہ پر انحصار کرتا چلا آ رہا ہے لیکن اسی دوران میں امریکہ اور یورپ کے مابین بعض امور پر اختلافات، غلط فہمیاں اور کشیدگی کے بھی مواقع پیدا ہوتے رہے ہیں‘ مثلاً امریکہ یورپی کامن مارکیٹ اور اس کے تحت یورپی سیاسی اتحاد کا مخالف تھا جبکہ فرانس کے سابق صدر چارلس ڈیگال کا مؤقف تھا کہ امریکہ اپنے مفاد کیلئے یورپ کو مغربی اور مشرقی یورپ کی شکل میں منقسم رکھنا چاہتا ہے۔ ڈیگال امریکہ پر یورپ کے دفاعی انحصار میں کمی چاہتے تھے۔ اس کیلئے انہوں نے امریکی مخالفت کے باوجود فرانس کے ایٹمی ہتھیاروں کے آزاد پروگرام کا آغاز کیا اور 1966ء میں نیٹو کے ملٹری ہیڈ کوارٹرز کو پیرس سے بلجیم کے دارالحکومت برسلز منتقل کر دیا۔ ڈیگال یورپی کامن مارکیٹ میں برطانیہ کی شمولیت کے بھی اس لئے مخالف تھے کہ وہ برطانیہ کو امریکہ کا ''ٹروجن ہارس‘‘ سمجھتے تھے۔ ڈیگال کے زمانے میں فرانس نے مشرق وسطیٰ اور ویتنام پر بھی امریکہ سے مختلف پالیسی اختیار کی حالانکہ نیٹو کے علاوہ فرانس ''سیٹو‘‘ میں بھی امریکہ کا اتحادی تھا۔ انہی پالیسی اختلافات کے باعث فرانس نے 1967ء میں سیٹو سے علیحدگی اختیار کرلی‘ تاہم نیٹو میں شمولیت برقرار رکھی کیونکہ سوویت یونین کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے یورپ کے پاس کوئی متبادل نظام نہیں تھا اور نہ اب تک ہے۔ اس کے باوجود یورپ اور امریکہ کے مابین ناراضگیوں، اختلافات اور شکایتوں کی کھچڑی آہستہ آہستہ پکتی رہی۔ اس کی بڑی وجوہات میں امریکہ کی مختلف حکومتوں کی طرف سے خارجہ‘ خصوصاً روس کے ساتھ تعلقات کے شعبوں میں یورپی اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بغیر یکطرفہ طور پر فیصلے کرنے کے واقعات ہیں‘ مثلاً 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کو محدود کرنے کے جو معاہدے کیے گئے تھے، یورپی ملکوں خصوصاً فرانس کی شکایت تھی کہ امریکہ نے ایسا کرتے وقت یورپی سکیورٹی خدشات کو پیش نظر نہیں رکھا۔
تازہ ترین واقعات میں سابق صدر ٹرمپ کی طرف سے ''امریکہ پہلے‘‘ کی پالیسی کا اختیار کرنا اور یورپی یونین کی مخالفت کے باوجود، صدر اوبامہ کے دور میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدگی جیسے معاملات شامل ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے غیرمستقل اور بعض مواقع پر غیر مناسب رویے کے باعث، امریکہ کے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بہت خراب تھے‘ لیکن افغانستان سے جس افراتفری کے عالم میں صدر جو بائیڈن نے غیرملکی افواج کا انخلا ہینڈل کیا ہے، اس نے یورپی ملکوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا وہ مستقبل میں اپنی سلامتی کیلئے امریکہ پر انحصار کر سکتے ہیں؟ اسی احساس کے ساتھ بعض یورپی ملکوں کی طرف سے ''یورپ کا دفاع یورپی ہاتھوں میں ہونا چاہیے‘‘ کا نعرہ بلند کیا جا رہا ہے‘ لیکن مستقبل قریب میں نیٹو کی جگہ کسی متبادل یورپی دفاعی نظام کے قیام کا امکان نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے، جیسا کہ نیٹو کے ایک سابقہ سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ''یورپ کو امریکی قیادت کی لت لگ چکی ہے‘‘۔ دوسرے‘ یورپ کی سب سے مضبوط معیشت ہونے کے باوجود جرمنی عسکری لحاظ سے روس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ خود یورپ کے متعدد ممالک امریکہ چھوڑ کر جرمنی کی قیادت قبول کرنے پر تیار نہیں۔ افغانستان میں ایک لاکھ سے زیادہ غیرملکی فوجیوں اور افغان شہریوں کے انخلا کیلئے جو وسائل درکار تھے، وہ امریکہ ہی مہیا کر سکتا تھا‘ یہ یورپ کے بس کی بات نہیں تھی۔ آنے والے زمانے میں امریکہ اور یورپ کے درمیان اختلافات، رنجشیں اور شکوہ و شکایات رہیں گی اور یورپ سے توجہ ہٹاکر ہر آنے والی امریکہ حکومت جس طرح ایشیا اور چین کو اپنی حکمت عملیوں کا محور بنا رہی ہے، اس سے ان میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے، لیکن دفاعی اور معاشی شعبوں میں امریکہ اور یورپ کا اتحاد اور تعاون جاری رہے گا۔