"DRA" (space) message & send to 7575

سانحہ سیالکوٹ اور درپیش چیلنجز

آج سے تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے یونان کے مشہور فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ انسان اور درندے میں فرق صرف قانون کی عملداری کا ہے۔ جب تک انسان اپنے آپ کو قانون کا پابند سمجھتا ہے، وہ اشرف المخلوقات ہے اور جب قانون کی پابندیوں سے آزادی اختیار کر لے، وہ بد ترین درندے سے بھی بد تر ہے۔ سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں اس کے ایک منیجر کے ساتھ خود اسی فیکٹری کے مزدوروں نے جو کچھ کیا، وہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق سری لنکن پریانتھا کمارا بطور منیجر قاعدے، قانون اور طے شدہ ضابطوں کے مطابق اور ذمہ داری و فرض شناسی کے جذبے کے تحت فیکٹری چلا رہا تھا۔ اس پر مالکان خوش تھے اور فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور مطمئن، کیونکہ یہ منافع بخش ہونے کے ساتھ سینکڑوں خاندانوں کی روزی کا بھی ذریعہ تھی۔ جب تک انتظامیہ کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور بھی قانون کے دائرے میں اپنے اپنے فرائض پورے کر رہے تھے‘ حالات پرامن، ماحول خوشگوار تھا اور فیکٹری کامیابی سے چل رہی تھی، لیکن معاشرے میں انتہا پسندی کے جو سلیپنگ سیل موجود ہیں، انجانے میں ایک واقعہ سے ایکٹو ہو گئے‘ یوں فیکٹری میں کام کرنے والے سینکڑوں افراد نے بدترین درندوں کا روپ دھار لیا اور وہ ہوا جس کا ذکر کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آدمیت شرما جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس عظیم مذہب کے نام پر کیا جا رہا تھا جسے نہ ماننے والے بھی امن کا مذہب کہتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا؟ اس درندگی کی کیا وجوہ ہیں اور اس جنونیت کی جڑیں کہاں تک جاتی ہیں؟ اور آئندہ ایسے واقعات کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس پر ہر طرف بحث جاری ہے۔
اس بحث سے کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے یا نہیں اس بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ تاہم ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نہ تو اس سانحے اور اس نوع کے دیگر سانحات کے اصل اسباب کو لب پر لایا جائے گا اور نہ اس کے پیچھے کارفرما قوتوں کو بے نقاب کیا جائے گا۔جنرل مشرف کے دور میں کافی کچھ ہوتا رہا اور کسی نے اس کا نوٹس نہ لیا۔ آج ریاست پاکستان کو جو چیلنج درپیش ہے، وہ اسی مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ ہے۔
اکثر لوگ جنرل ضیاالحق کی افغان اور جنرل مشرف کی طالبان پالیسوں کو پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کی ابتدا اور عروج کا باعث سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں اس کی بنیاد ان دونوں کے پیشرو جنرل ایوب خان نے ملک کے اعلیٰ ترین قانون یعنی آئین کو منسوخ کرکے رکھی تھی۔ آئین، ریاست کی عملی شکل ہوتا ہے اور اس کی منسوخی کا مطلب ریاست کی بنیاد پر کلہاڑا مارنا ہے‘ اسی لیے اس جرم کی سزا موت رکھی گئی ہے‘ مثلاً 1973ء کے آئین کی دفعہ 6‘ لیکن ہمارے ہاں آئین کی بیک جنبش قلم منسوخی کو قابل تعزیر سمجھنے کے بجائے، انعام کا حق دار فعل قرار دیا گیا۔ اس کی ایک مثال ایوب خان کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینا اور ان کے بعد جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کو عدلیہ کی طرف سے آئین میں اپنی مرضی کی ترمیم کا اختیار دینا ہے۔ ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر آئین اور قانون کی منسوخی اور صریح خلاف ورزی کی اجازت دے کر نچلی سطح پر قانون کی پامالی کی راہ ہموار کی گئی۔
پاکستان میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو محض نعروں کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب اس پر عملدرآمد کی گھڑی آتی ہے تو حکمرانوں کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں اور اصول کی جگہ مصلحت لے لیتی ہے۔ ان کے پاس اخلاقی برتری کی صورت میں وہ قوت نہیں ہوتی، جس کے بل بوتے پر وہ ریاست کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں۔ پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے جو کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ اس کی زندہ مثال ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ طور پر قتل ہونے والے فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے، اور وہ اکثر اس کی تعریف کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت کیلئے یہ ایک خبر ہو یا اچنبھے کی بات ہو، لیکن مغربی ایشیا کے امور پرکھنے والے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے یہ کوئی خبر یا حیرانی والی بات نہیں۔ جنوبی ایشیا کے جن چھوٹے ممالک میں پاکستان کے لیے انتہائی خیر سگالی کے عوامی سطح پر جذبات پائے جاتے ہیں، سری لنکا ان میں سے ایک ہے۔ اس کی وجہ خطے کی جیو پالیٹکس ہے۔ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ سری لنکا کے عوام، پاکستان کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 1998ء میں جب پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کرکے اپنی دفاعی صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا، تو اطلاعات کے مطابق سری لنکا میں بھی پاکستان کی طرح خوشی اور جشن کا مظاہرہ کیا گیا۔ جب سری لنکا میں تامل باغیوں کے سامنے حکومت اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہی تھی، تو امداد کیلئے سری لنکا نے جن ملکوں پر اعتماد کرکے رابطہ کیا ان میں چین کے بعد پاکستان تھا۔ تامل بغاوت کو کچلنے میں پاکستان نے سری لنکا کو جو امداد فراہم کی ہے، سری لنکا کی ہر حکومت اس کا برملا اعتراف کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا، جنوبی ایشیا کے خطے کا واحد ملک ہے، جس کے ساتھ نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ تجارت، سیاحت اور دفاع کے شعبوں میں بھی پاکستان کے انتہائی قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔
سیالکوٹ کی فیکٹری میں اس خوبصورت اور پرامن ملک کے ایک پڑھے لکھے، قابل اور پاکستان سے محبت کرنے والے فرض شناس شخص کو ان کے ساتھ گزشتہ دس برسوں سے کام کرنے والے مزدوروں نے درندوں کی طرح قتل کرکے دراصل پاکستان کے مفاد پر کاری ضرب لگائی ہے، اس کے امیج کو نقصان پہنچایا ہے، اپنے ملک کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں کی بلکہ خدا اور اس کے رسولؐ کے احکامات سے روگردانی بھی کی ہے۔ یقینا یہ لوگ عبرتناک سزا کے مستحق ہیں۔ سیالکوٹ کے اس واقعہ پر جو لکھا یا کہا جا رہا ہے، اس میں اس کی ہر پہلو سے مذمت کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں؟ اب تک جو کچھ کہا یا لکھا گیا اس میں تشویش کے ساتھ ساتھ مایوسی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ بعض لوگوں کی رائے میں پانی حد سے گزرنے والا نہیں بلکہ گزر چکا ہے اور جس دلدل میں ہم بحیثیت قوم پھنس چکے ہیں، اس سے باہر نکل آنے کی کوئی امید نہیں، لیکن ناامیدی کی کوئی وجہ نہیں۔ ماضی میں ہم نے بڑے بڑے چیلنجز کا کامیابی سے سامنا کیا۔ اب بھی انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کی علمبردار قوتوں کو شکست دینا مشکل نہیں‘ لیکن اس کے لیے پہلے کے مقابلے میں زیادہ سخت محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس جدوجہد کا ٹارگٹ آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے اور یہ کام وہی حکومت کر سکتی ہے جو عوام کی تائید، دوسرے الفاظ میں شفاف، بغیر کسی غیرسیاسی مداخلت اور آزادانہ طریقۂ انتخاب کے ذریعے برسر اقتدار آئے۔ پاکستانی قوم خصوصاً اس کے نوجوانوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک مخصوص لیکن محدود طبقے نے ان سے پیدائشی حقوق کو چھین کر یرغمال بنا رکھا ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے اس طبقے کے خلاف کامیاب جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ تبھی جا کر انتہا پسندی، دہشت گردی اور فاشسٹ نظریے کی حامی قوتوں سے نجات حاصل کی جا سکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں