پاکستان میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آج کل جس موضوع پر گرماگرم بحث ہو رہی ہے، وہ ملک میں پارلیمانی سیاسی نظام کی جگہ صدارتی نظام حکومت پر غور ہے۔ پاکستان میں 1973ء سے پارلیمانی نظام حکومت چلا آ رہا ہے۔ اس آئین کو قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اس کے باوجود صدارتی نظام کے حق میں کبھی کبھی آوازیں اٹھتی رہی ہیں بلکہ جنرل ضیاالحق (1977-1988) اور جنرل پرویز مشرف ( 1999-2008) نے بالترتیب آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم کے ذریعے 1973ء کے پارلیمانی نظام کو عملاً صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کرکے حکومت کی‘ مگر آئین کی بنیادی حیثیت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی۔ آج کل جن افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے، ان میں تو دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کے ایک اینکر پرسن کے مطابق اس ضمن میں فیصلہ ہو چکا ہے‘ صرف اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ اس تبدیلی کو عمل میں کیسے لایا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تجویز پر مبینہ طور پر فیصلے کی کوئی حلقہ بھی اونرشپ لینے کو تیار نہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اور افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں‘ حکومت کا ان سے کوئی تعلق نہیں‘ اگرچہ پی ٹی آئی قیادت کی چند سرکردہ شخصیتیں مبینہ طور پر صدارتی نظام حکومت کے حق میں بتائی جاتی ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ان افواہوں اور قیاس آرائیوں کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے اور اس کا مقصد حکومت کی نااہلی، ناکامی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عوام کی توجہ ہٹا کر نان ایشوز کی بیکار بحث میں الجھانا ہے‘ لیکن اپوزیشن کے بعض رہنما اس بحث کو قدرے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسے پارلیمانی اور دفاعی جمہوریت کی جگہ ملک میں صدارتی اور وحدانی نظام حکومت نافذ کرنے کے حکومتی منصوبے کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ ان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ پیشتر اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تجویز پیش کی تھی کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر 1973ء کے آئین کی حمایت میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی جائے تاکہ اس ممکنہ اقدام کو روکا جا سکے۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کی طرف سے قومی اسمبلی میں اس مقصد کیلئے قرارداد کا جمع کروایا جانا اور پی ڈی ایم کی سٹیئرنگ کمیٹی کے حال ہی میں منعقدہ اجلاس میں پارلیمانی نظام کی حمایت اور صدارتی نظام کے خلاف دوٹوک بیان کا بھی ان خدشات سے تعلق نظر آتا ہے، جن کا اظہار شاہد خاقان عباسی نے چند ماہ قبل کیا تھا۔
ان خدشات کے اظہار میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اکیلی نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی بھی اس نظام کے ایک اہم جزو یعنی صوبائی خود مختاری کو مبینہ طور پر لاحق خطرات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ موجودہ سیٹ اپ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کے درپے ہے۔ ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا پارلیمانی نظام پر اتفاق ہے اور وہ اس کی جگہ صدارتی نظام لانے کے خلاف ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی پارلیمانی نظام کو پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کے چار ستونوں میں سے ایک قرار دے چکی ہے‘ جسے نہ تو پارلیمنٹ اور نہ ریفرنڈم کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان نے صدارتی اور نیم صدارتی نظام کا تجربہ کر کے دیکھ لیا۔ اس سے خرابی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے باوجود پارلیمانی نظام کے خلاف اور صدارتی نظام کے حق میں مہم کیوں چلائی جا رہی ہے؟ پاکستان کے علاوہ جنوبی ایشیا کے خطے کے کسی ملک میں بھی صدارتی نظام کا تجربہ کامیاب نہیں رہا۔ اس ضمن میں بنگلہ دیش کی مثال دی جا سکتی ہے۔ بنگلہ دیش میں تقریباً 18 برس تک صدارتی نظام رہا، لیکن صدر حسین محمد ارشاد کی حکومت کے خلاف تحریک چلا کر پارلیمانی نظام کو دوبارہ بحال کر دیا گیا۔ اس فیصلے میں عوامی لیگ، بی این پی اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے شامل تھی۔
سری لنکا نے 1948ء میں آزادی کے بعد اپنا سیاسی سفر پارلیمانی جمہوریت کی حیثیت سے شروع کیا۔ 1978ء میں دائیں بازو کی یونائیٹڈ نیشنل پارٹی (UNP) کے دور میں صدارتی نظام نافذ کر دیا گیا تھا‘ لیکن اب وہاں پارلیمانی نظام کی طرف لوٹ جانے کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ پاکستان، بھارت اور سری لنکا کی طرح نیپال نے بھی اپنی آزاد سیاسی زندگی کا آغاز پارلیمانی جمہوریت کے تحت کیا تھا مگر شاہ مہندرا نے 1960ء کی دہائی میں اس کی بساط الٹ کر ایوب خان کی بنیادی جمہوریت (Basic Democracy) کی نقل پر تمام اختیارات کو اپنے ہاتھ میں مرتکز کرکے، نیا حکومتی نظام قائم کر دیا۔ 1980ء کی دہائی میں اس مطلق العنانیت کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کیلئے عوامی تحریک شروع ہوئی، جو کامیاب ہوئی اورملک میں دوبارہ پارلیمانی نظام حکومت قائم کر دیا گیا۔
پاکستان کے ابتدائی برسوں میں طرز حکومت پر اگر کوئی اختلافات تھے تو انہیں 1956ء کے آئین کے تحت حل کر لیا گیا تھا۔ اس آئین کو تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی اور اس کے تحت پارلیمانی نظام حکومت قائم کیا گیا تھا‘ مگر اسکندر مرز اور کمانڈر انچیف ایوب خان پارلیمانی نظام کے خلاف تھے۔ اس لئے اکتوبر 1958ء میں مارشل لا کی پہلی ضرب 1956ء کے آئین پر پڑی، جسے ختم کرنے کے بعد ایوب خان نے 1962ء میں صدارتی نظام نافذ کر دیا۔ الطاف گوہر نے اپنی کتاب ''Ayub Khan :Pakstan's First Military Ruler‘‘ میں لکھا ہے کہ ایوب خان کا موقف تھا کہ اگر پاکستان میں پارلیمانی نظام نافذ رہا تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان کے مارشل لاء، 1956ء کے آئین کی منسوخی اور ان کے صدارتی نظام نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کی جیسا کہ جسٹس محمد منیر نے اپنی کتابPresidential Government in Pakstan میں لکھا ہے: 1962ء کے آئین کے تحت پاکستان فی الواقع وفاقی سے وحدانی ریاست میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اب بھی صدارتی نظام کے قیام کا نتیجہ صوبائی خود مختاری کے دائرے کو تنگ کرنے کی صورت میں ظاہر ہو گا اور جو لوگ ایسا ارادہ رکھتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ برصغیر کی تاریخ میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی صوبائی خود مختاری کے مسئلے کو اولین حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان تقسیم ہوا اور دیگر بہت سی وجوہات کے ساتھ اس معاملے پر اختلافات کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے دور ہوتا گیا۔ ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ قومی اتفاق رائے (Consensus) کے ذریعے تشکیل پانے والے 1956ء آئین کو منسوخ کرکے ملک کیلئے اور قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر ایک نئے آئینی ڈھانچے کا حصول کتنا مشکل اور کٹھن کام ہے۔پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام کے نفاذ کی کوشش کسی مہم جوئی سے کم نہیں۔ ماضی میں ایسی مہم جوئیاں قوم اور ملک کیلئے خوفناک نتائج پیدا کر چکی ہے، بہتر ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھیں اور مزید ایسی مہم جوئیوں سے باز رہیں۔