پاکستان کی سیاست میں بوجوہ استحکام تو ہمیشہ سے ناپید رہا ہے، لیکن گزشتہ چند ماہ سے اس پر بے یقینی کے بھی گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال اپوزیشن کی دعووں یا دھمکیوں کی پیدا کردہ نہیں بلکہ یہ تاثر پیدا کرنے میں وزیر اعظم عمران خان کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر انہوں نے اپنے ایک بیان میں قوم کو بتایا تھا کہ اگلے تین ماہ بڑے اہم ہیں۔ کیوں اہم ہیں؟ ان میں کیا ہونے والا ہے؟ کیا یہ حکومت کیلئے اہم ہیں یا ملک کیلئے؟ اس کے بارے میں نہ تو خود وزیر اعظم نے اور نہ ہی ان کے آدھی درجن کے لگ بھگ مشیروں اور ترجمانوں نے کچھ بتایا؛ البتہ چند روز پیشتر عوام سے براہ راست مخاطب ہونے کے پروگرام ''آپ کا وزیر اعظم، آپ کے ساتھ‘‘ میں انہوں نے دو بظاہر متضاد بیانات دے کر ملک میں پھیلائی جانے والی افواہوں اور قیاس آرائیوں کو مزید ہوا دی۔
پہلے بیان میں انہوں نے اپوزیشن کے تمام دعووں کو رد کرتے ہوئے اپنی حکومت کے بارے میں بڑے اعتماد کے ساتھ کہا کہ یہ نہ صرف اپنی آئینی مدت پوری کرے گی بلکہ اگلی ٹرم یعنی 2023ء کے انتخابات کے بعد اگلے پانچ سال کیلئے بھی تحریک انصاف کی حکومت ہو گی‘ مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے بظاہر اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''میں یہاں خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر مجھے حکومت سے نکالا گیا تو میں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہوں۔ ابھی تو میں (وزیراعظم) کے دفتر میں آرام سے بیٹھا یہ سارا تماشا دیکھ رہا ہوں اگر میں سڑکوں پر آ گیا تو تمہیں چھپنے کیلئے جگہ نہیں ملے گی‘‘۔ وہ اس سے قبل بھی اپوزیشن کے بارے میں اس قسم کے رویے کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ہاتھ ملانے سے گریز، اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر میاں نواز شریف سے نمٹنے کی دھمکی اور دسمبر 2020 میں پی ڈی ایم کے لاہور میں جلسہ کے موقع پر اپنی رہائش گاہ کے لان میں پالتو کتوں کو خوراک کھلانے کی تصاویر کو وائرل کرنے کے واقعات شامل ہیں۔
تازہ ترین پریس بیان میں انہوں نے لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے اربوں روپے لوٹنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں قومی مجرم قرار دیا ہے حالانکہ گزشتہ ساڑھے تین چار برسوں میں وسائل اور مختلف طریقے استعمال میں لانے کے باوجود حکومت انہیں (شہباز شریف کو) کسی کیس میں مجرم ثابت نہیں کر سکی اور انصاف و عدل کے بنیادی اصول ''جب تک کسی شخص کا جرم ثابت نہ ہو جائے، وہ معصوم ہے‘‘ کے بالکل برعکس موقف اختیار کرتے ہوئے، وزیر اعظم، قومی اسمبلی میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ممبران قومی اسمبلی کے منتخب لیڈر آف دی اپوزیشن کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ ان کے اس طرز عمل سے نہ صرف حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہوئے بلکہ ملک میں سیاسی غیر یقینی صورتحال میں اضافہ بھی ہوا ہے لیکن اقتدار سے محرم کئے جانے کی صورت میں ایک دفعہ پھر سڑکوں پر آنے کی بات، اپنی نوعیت کا پہلا اور معنی خیز بیان ہے۔ مبصرین اور تبصرہ نگار معلوم کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وزیر اعظم کے اس بیان کے پیچھے کون سی وجوہات کار فرما ہیں اور ان کا اصل مخاطب کون ہیں؟ اپوزیشن یا کوئی اور؟
جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں تو یہ حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکی اور نہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ باقی ڈیڑھ سال میں یہ وزیر اعظم کو اقتدار سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت مخالف کوئی بھی تحریک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے باہمی تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی‘ مگر دونوں میں اگرچہ قومی اسمبلی میں بعض ایشوز پر اتفاق بلکہ تعاون بھی دیکھنے میں آیا ہے‘ لیکن تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو چلتا کرنے پر دونوں میں اتفاق نہیں۔
پی پی پی ایک عرصے سے حکومت خصوصاً پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر زور دے رہی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) راضی ہو تو یہ تحریک کامیاب ہو سکتی ہے‘ لیکن مسلم لیگ (ن) کو نہ تو پنجاب حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے میں دلچسپی ہے اور نہ وہ مرکز میں تحریک عدم اعتماد کیلئے تیار ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت جن اتحادی جماعتوں کی مدد سے ایوان میں اکثریت کی مالک ہے، ان کی طرف سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں منعقدہ پی ڈی ایم کے حالیہ سربراہی اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جب نمبرز پورے ہو جائیں گے تو فیصلہ کیا جائے گا؛ البتہ اس اجلاس میں 23 مارچ کو ''مہنگائی مارچ‘‘ کا اعادہ کیا گیا ہے‘ لیکن 23 مارچ کو ''مہنگائی مارچ‘‘ کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہنوز دلی دور است‘ کیونکہ اس میں دو ماہ ہیں اور ان دو ماہ میں کچھ بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے پہلے کی طرح ''مارچ‘‘ کی تاریخ بدلی جا سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے وزیر، مشیر اور ترجمان بھی یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں اور وہ 23 مارچ کو اسلام آباد پر مارچ کرکے اپنا شوق پورا کر ے‘ حکومت کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔ وزیر اعظم خود کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں اور وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ تو پھر وزیر اعظم کے بیان میں مضمر پیغام کس کیلئے ہے؟ اپوزیشن کے علاوہ میڈیا کے بھی بعض حلقے اس رائے کے حامی ہیں کہ وزیر اعظم نے اس بیان کے ذریعے ان حلقوں کو پیغام دیا ہے ''بقول اپوزیشن‘‘ جن کی مدد سے وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے کہ اگر انہیں اپوزیشن کے ساتھ ڈیل کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا تو وہ سڑکوں پر آ کر احتجاجی تحریک شروع کردیں گے۔ اگرچہ وزیر داخلہ شیخ رشید اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ تاثر تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اب ایک پیج پر نہیں۔ ان حالات میں حکومت کا کچھ بگڑتا ہے یا اپوزیشن کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں، ملک کا نقصان ہونے کا ضرور اندیشہ ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی میں کمی واقع ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہونے سے قومی سیاست میں غیر یقینی کی صورتحال اور بھی سنگین ہو جائے گی۔
اس کا براہ راست اثر نہ صرف سیاسی استحکام بلکہ قومی سلامتی پر بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی کی صورتحال میں معاشی ترقی کے عمل کو تیز کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ معاشی ترقی نہیں ہوگی تو مہنگائی، بیروزگاری میں کمی نہیں ہو گی۔ صحت، تعلیم اور ماحولیات کے شعبوں میں بہتری پیدا نہیں ہو گی۔ ان مسائل کی موجودگی بلکہ ان میں ناگزیر اضافے سے قوم، خصوصاً پڑھے لکھے بیروزگار نوجوانوں میں بددلی، مایوسی اور خطرناک رجحانات پیدا ہوں گے۔ ملک اور عوام دشمن عناصر اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور ملک کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ ان نتائج سے بچنے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ قومی سیاست میں تمام سٹیک ہولڈرز اپنے گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مصالحت، برداشت اور تعاون کی راہ اختیار کریں۔