حال ہی میں چین نے ''سرمائی اولمپکس‘‘ کا اہتمام کیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ان کھیلوں کے ''سفارتی بائیکاٹ‘‘ کے باوجود دنیا بھر سے آئے ہوئے کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ چینی حکومت کی دعوت پر کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے والوں میں 20 کے قریب سربراہانِ حکومت و مملکت بھی شامل تھے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی وہاں موجود تھے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے ان سربراہان سے فرداً فرداً ملاقات بھی کی، مگر بین الاقوامی میڈیا کی سپاٹ لائٹ روسی صدر ولادیمیر پوتن پر مرکوز تھی۔ دونوں رہنما اب تک تقریباً 38 دفعہ آپس میں مل چکے ہیں لیکن سرمائی اولمپکس کے موقع پر ہونے والی ملاقات پر بین الاقوامی اور خصوصاً مغربی ممالک کے فوکس کی خاص وجہ یوکرائن کے مسئلے پر روس اور امریکہ کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی تھی۔ اس کشیدگی کے پس منظر میں صدر شی پوتن ملاقات اور اس کے نتائج پر دنیا کی نظریں اس لئے ٹکی ہوئی تھیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کی حیثیت سے چین، یوکرائن کے مسئلے پر روس کے خلاف امریکہ کی طرف سے پابندیوں کے سلسلے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں چین نے یوکرائن کے مسئلے پر روسی موقف کی حمایت کرکے نہ صرف یہ واضح کر دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف امریکہ کی طرف سے پابندیاں لگانے کی ہر تجویز کی مخالفت کرے گا، بلکہ روس کے ساتھ 117.5 بلین ڈالر مالیت کے تیل اور گیس کے نئے معاہدوں پر دستخط کرکے امریکہ کو یہ پیغام بھی بھیجا ہے کہ یوکرائن پر تصادم یا کشیدگی میں مزید اضافے سے اگر یورپ کو روسی گیس کی فروخت متاثر ہوئی تو چین سائبیریا کے ذخائر سے روس سے مزید گیس خرید کر اس نقصان کی تلافی کیلئے تیار ہے۔ یاد رہے کہ روس پہلے ہی چین کو گیس سپلائی کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے‘ لیکن 4 فروری 2022 کو طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد سے یورپ کو روس کی گیس کی سپلائی متاثر ہونے کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ یہ گیس شمال مشرقی سائبیریا سے سپلائی کی جائے گی۔
بیجنگ اولمپکس کے موقع پر چینی و روسی صدور کی ملاقات کے نتیجے میں تیل اور گیس کی خرید کے علاوہ دونوں ملکوں نے 15 کے قریب دیگر معاہدوں پر بھی دستخط کئے۔ ان کا مقصد متعدد شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دینا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں باہمی تجارت میں مزید اضافہ کرنے کا منصوبہ شامل ہے۔ چین اور روس کے مابین اس وقت (2021 میں) دوطرفہ تجارت کا حجم 146 بلین ڈالر ہے۔ اطلاعات کے مطابق روس کے صدر پوتن اسے 200 بلین ڈالر سالانہ تک لے جانا چاہتے ہیں۔یوکرائن کے مسئلے پر روس اور ساؤتھ چائنہ سی کے جھگڑے میں چین کے خلاف امریکہ کے رویے نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کھڑا کیا ہے اور بیجنگ میں صدر شی اور صدر پوتن کی ملاقات کے بعد دنیا میں نئی سرد جنگ کے خدوخال واضح طور پر نظر آنے لگے ہیں۔
یوکرائن کا مسئلہ کیا ہے؟ اس سے روس اور امریکہ کے کون سے مفادات وابستہ ہیں؟ کیا امریکی دعووں کے مطابق روس یوکرائن پر حملہ کرنے والا ہے؟ یوکرائن کے مسئلے پر روس اور امریکہ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی بڑے تصادم کی شکل میں تبدیل ہو سکتی؟ اس کالم میں ان اہم سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ سرد جنگ کے خاتمے (1991) سے پہلے یوکرائن آبادی اور وسائل کے اعتبار سے سابق سوویت یونین کی دوسری سب سے بڑی جمہوریہ تھی، بلکہ امریکی صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر برزنسکی کے مطابق یوکرائن کے بغیر روس ایک بڑی طاقت کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یوکرائن کا اہم جغرافیائی محل وقوع ہے۔ یوکرائن کی سرحدیں بیک وقت روس اور مشرقی یورپ سے ملتی ہیں جو اب یورپی یونین کا حصہ بن چکا ہے‘ لیکن اس کی جیو سٹریٹیجک اہمیت بحر اسود کے ساتھ اس کے طویل ساحل کی وجہ سے ہے‘ جہاں روس کا ایک بڑا بحری بیڑا مقیم ہے۔ آبنائے باسفورس بحر اسود مشرقی بحراو قیانوس میں داخل ہونے کا روس کے بحری جہازوں کیلئے واحد سمندر ہے اور روس اس پر اپنے تسلط اور مکمل کنٹرول کو کسی جانب سے کوئی خطرہ برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اسی وجہ سے روس نے 2014ء میں بحر اسود میں واقع جزیرہ کریمیا میں فوجیں داخل کرکے قبضہ کر لیا تھا۔ کریمیا 1054ء سے یوکرائن کا حصہ چلا آ رہا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک نے کریمیا پر روس کے حملے کی سخت مذمت کی تھی اور اسے ابھی تک روس کے حصے کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسی باعث روس کے خلاف متعدد پابندیاں عائدکر رکھی ہیں‘ لیکن یوکرائن پر روس اور امریکہ میں کشیدگی کی واحد وجہ کریمیا کا روس کے ساتھ بزور طاقت الحاق نہیں ہے۔ موجودہ بحران کو جنم دینے میں کچھ تاریخی، جیو سٹریٹیجک اور جیو اکنامک عوامل کا بھی ہاتھ ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی روس پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے ایک لاکھ سے زیادہ فوج یوکرائن کی سرحدوں پر جمع کرکے موجودہ بحران کا آغاز کیا ہے حالانکہ یوکرائن کے مسئلے پر روس اور مغربی ملکوں میں کشیدگی کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب 2008ء میں نیٹو کی سربراہی کانفرنس میں یوکرائن اور جارجیا کی طرف سے معاہدے میں شمولیت کی خواہش کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔ یہ دونوں ممالک اگرچہ اس وقت آزاد اور خود مختار ہیں، لیکن روس، وسطی ایشیا کی ریاستوں کی طرح، اب بھی انہیں اپنا حلقہ اثر سمجھتا ہے۔ بحر بالٹک کی سابق سوویت ریاستوں، لیٹویا، استھونیا اور لتھوانیا کی نیٹو میں شمولیت کے بعد، روس کسی قیمت پر بھی یوکرائن اور جارجیا کی نیٹو میں شمولیت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ اس کی نظر میں اس طرح امریکہ کی سرکردگی میں قائم اس دفاعی اتحاد ‘ جس کے رکن ممالک کی ابتدائی تعداد (1949 میں) 12 سے بڑھ کر 30 ہو چکی ہے‘ کی سرحدیں روس سے آ ملیں گی۔ ان میں سے 2 ممالک (امریکہ اور کینیڈا) کا تعلق شمالی امریکہ اور باقی 28 کا یورپ سے ہے۔ نیٹو کے یورپی رکن ممالک میں سوویت یونین سے علیحدہ ہونے والی مشرقی یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں۔ یوکرائن اور جارجیا کی شمولیت سے مغربی سائبیریا سے بحر اسود تک روس کے خلاف نیٹو کا دفاعی حصار مکمل ہوجائے گا۔
سرد جنگ (1946-1991) کے دور میں بھی امریکہ نے ناروے سے لے کر جاپان تک فوجی اڈوں کی زنجیر بچھائی ہوئی تھی جہاں جوہری ہتھیاروں سے لیس امریکی فوج، بحریہ اور فضائیہ کے دستے ہر وقت چوکس موجود ہوتے تھے۔ یوکرائن پر روس اور امریکہ کے مابین موجودہ کشیدگی وہی پرانا منظر پیش کر رہی ہے۔ اس کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے اگر امریکہ روس کو یقین دہانی کرا دے کہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل نہیں کیا جائے گا‘ لیکن امریکہ کی طرف سے ایسی یقین دہانی کا کوئی امکان نہیں، بلکہ نیٹو کی گزشتہ سال سربراہی کانفرنس میں یوکرائن پر 2008ء کے اعلان کا ایک دفعہ پھر اعادہ کرتے ہوئے نیٹو میں اس کی شمولیت کی حمایت کی گئی۔کشیدگی میں کمی کا دوسرا راستہ یوکرائن کی سرحد سے روسی افواج کا ہٹانا ہے‘ لیکن روس اس کیلئے تیار نہیں کیونکہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکنے کیلئے روس کیلئے واحد آپشن اس پر فوجی دباؤ ہے۔ جہاں تک یوکرائن کا تعلق ہے اس کے یورپ سے ملنے والے مغربی سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت نیٹو میں شمولیت کی حامی ہے لیکن مشرقی یوکرائن جس کی آبادی میں روسی زبان بولنے والے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے، نیٹو میں شمولیت کی حامی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹو میں شمولیت پر فیصلہ کرنا خود یوکرائن کی حکومت کیلئے آسان نہیں۔ (باقی آئندہ)