بھارت کی5 ریاستوں (صوبوں) میں حال ہی میں اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں۔ نتائج کے مطابق ان میں سے چار یعنی اتر پردیش، اترکھنڈ، منی پور اور گوا میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کامیابی حاصل کی ہے جبکہ پنجاب میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کی عام آدمی پارٹی (AAP) نے 117 نشستوں میں سے 92 پر کامیابی حاصل کرکے ایک بار پھر سب کو حیران کر دیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی ریاستی اسمبلیوں‘ خصوصاً اتر پردیش کے انتخابی نتائج پر بہت خوش ہیں اور اس خوشی میں فتح کا جشن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ویسے بھی ہندوئوں کے مشہور تہوار ''ہولی‘‘ کا آغاز ہو چکا ہے‘ یوں بی جے پی کے کارکنوں کی خوشی دوبالا ہو گئی ہے‘ لیکن وزیر اعظم مودی کے لئے اتر پردیش میں انتخابی کامیابی ایک اور لحاظ سے بھی غیر معمولی ہے۔ انہوں نے اس کامیابی کو 2024ء کے عام انتخابات میں اپنی جیت کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں دوبارہ کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے یاد دلایا کہ تب بی جے پی نے لوک سبھا کے انتخابات بھاری اکثریت سے جیتے تو پنڈتوں اور گیانیوں نے کہا تھا کہ اس کا فیصلہ تو دو سال پہلے ہی ہو گیا تھا، جب 2017ء کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی نے یو پی کی اسمبلی کی 403 نشستوں میں سے 312 جیت کر فقیدالمثال کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے کہا ''میرا ماننا ہے کہ 2022ء میں اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے 2024ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی جیت کو یقینی بنا دیا ہے‘‘۔
اتر پردیش کے انتخابی نتائج نے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کے قد کاٹھ کو بڑا کر دیا ہے کیونکہ ریاست میں بی جے پی کی کامیابی کے پس پشت ان کی سٹریٹیجی بتائی جاتی ہے۔ مبصرین اور اپوزیشن کی نظر میں کورونا وائرس کی وبا میں وزیر اعظم مودی کی حکومت کے غلط فیصلوں اور شمالی ہندوستان میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی کسانوں کی احتجاجی تحریک سے بی جے پی کا ووٹ بینک متاثر ہونے کا امکان تھا‘ لیکن بی جے پی نے یو پی میں 403 میں سے 255 اسمبلی نشستیں جیت کر اپنے مخالفین کے اندازے غلط ثابت کر دئیے ہیں‘ بلکہ 2017ء کے انتخابات کے مقابلے میں اس سال فروری مارچ میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں اپنے ووٹ بینک میں 3.6 فیصد اضافہ بھی کیا ہے‘ لیکن بی جے پی کیلئے خطرے کا الارم بھی ہے۔
2017ء کے مقابلے میں اس کی جیتی ہوئی یوپی اسمبلی نشستوں میں 57 سیٹوں کی کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارت میں اس کے مدمقابل سماج وادی پارٹی (ایس پی) اگرچہ 111 نشستوں کے ساتھ بی جے پی سے بہت پیچھے ہے مگر 2017ء کے انتخابات کے مقابلے میں اس نے اپنی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے بلکہ اس کے امیدواروں کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی فیصد شرح، بی جے پی سے زیادہ ہے۔
اتر پردیش میں کانگریس بری طرح چت ہو گی ہے اور وہ جو ایک وقت میں دلت ملکہ کے نام سے مشہور تھی، ان کی پارٹی مشکل سے دو نشستیں جیت سکی۔ نہ صرف اتر پردیش بلکہ پنجاب کے سوا باقی تین ریاستوں میں بھی بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا دعویٰ ہے کہ یہی رجحان جاری رہے گا اور لوک سبھا کے آئندہ انتخابات (2024) میں بھی ان کی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گی۔ ان کی رائے میں بی جے پی کی یہ کامیابی خواتین اور نوجوانوںکی فلاح و بہبود کیلئے کئے گئے اقدامات سے حاصل ہوئی ہے‘ لیکن مبصرین کے خیال میں مودی نے ہندو نیشنل ازم (ہندوتوا) کا ڈھول پیٹ پیٹ کر ذات پات اور علاقائی تفریق سے بالاتر ہو کر تمام ہندوئوں کو ایک ہجوم میں تبدیل کر دیا ہے‘ جو بی جے پی کی سرکردگی میں رام راج کے قیام کا خواب دیکھتے ہوئے ہند میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے‘ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہندوتوا کے نظریے پر مبنی بی جے پی کی اس سیاسی بالادستی کو کوئی چیلنج درپیش نہیں۔ پنجاب کے حالیہ انتخابات میں ''عام آدمی پارٹی‘‘ کی حیران کن کامیابی کی روشنی میں پارٹی کے بانی اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو قومی سطح پر مودی کا متبادل نہ سہی مگر بی جے پی کے خلاف علاقائی پارٹیوں کے اتحاد کے ایک رہنما کے طور پر مانا جانے لگا ہے۔ پنجاب سے ملحقہ اتر پردیش میں 44 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی بی جے پی کو پنجاب میں صرف 2 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔
اس سال کے آخر تک وزیر اعظم مودی کی اپنی ریاست گجرات میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ ''عام آدمی پارٹی‘‘ نے گجرات میں ابھی سے بی جے پی کو ٹف ٹائم دینا شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطرے کو بھانپتے ہوئے نریندر مودی نے حالیہ ریاستی انتخابات میں سب سے اہم کامیابی یو پی میں حاصل کی ہے‘ لیکن اس کا جشن گجرات میں منایا جا رہا ہے۔ ایک ہوشیار سیاستدان ہونے کی وجہ سے نریندر مودی نے کئی ماہ قبل ہی ریاست (گجرات) میں انتخابی گہما گہمی کا سماں باندھ دیا ہے۔ نمبرز گیم میں بی جے پی کی اتر پردیش میں جیت کا بے شک پنجاب میں ''عام آدمی پارٹی‘‘ کی کامیابی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن بھارت کی معیشت اور دفاع میں پنجاب‘ جسے انگریزوں نے ہندوستان کا بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا‘ اور جو رقبے اور آبادی میں بہت چھوٹا ہونے کے باوجود پورے ملک کی 60 فیصد سے زیادہ غذائی ضروریات پورا کرتا ہے، کا مودی کے ہاتھ سے نکل جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مودی کا جادو بھارت میں ہر جگہ کارگر نہیں ہے، اور اس کی ''ڈبل انجن‘‘ والی ٹرین بعض علاقوں میں ڈی ریل بھی ہو سکتی ہے۔ پنجاب کے علاوہ جس دوسری ریاست میں بی جے پی کے ہندوتوا نظریے کو بڑا چیلنج درپیش ہے اور آئندہ بھی رہے گا‘ وہ مغربی بنگال ہے‘ جہاں ترینامول کانگریس کی رہنما اور ریاست کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے گزشتہ (2019) انتخابات میں مودی اور امیت شا کو بری طرح شکست دی تھی۔ بی جے پی کی حریف اور ہندوتوا مخالف دونوں یعنی ''عام آدمی پارٹی‘‘ اور ''ترینامول کانگریس‘‘ میں نریندر مودی کا مقابلہ کرنے کیلئے رابطہ اور صلاح مشورہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔
دونوں پارٹیاں بی جے پی کے خلاف ایک ''تیسرا محاذ‘‘ قائم کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں اور اس کیلئے ملک کی باقی سیکولر سیاسی پارٹیو ں کے ساتھ بھی مشورہ کرتی چلی آ رہی ہیں مگر ایک مرکزی لیڈر کی قیادت پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ انجام کو نہیں پہنچ سکا۔ تامل ناڈو کی آنجہانی جے للیتا کی وفات اور بہار کے لیڈر لالو پرشاد کے جیل میں ہونے کی وجہ سے بی جے پی مخالف سیاسی محاذ کے قیام میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں‘ لیکن بھارت کے ایک طرف مشرق میں ممتا بینرجی اور دوسری طرف مغرب میں اروند کیجری وال کی سیکولر شخصیتوں کی موجودگی، بی جے پی کیلئے ایک بڑا چیلنج رہے گی۔ جنوب میں جے للیتا کے مرنے سے پیدا ہونے والے خلا کو اگر کوئی قوت پُر کر سکتی ہے تو وہ مارکسسٹ ہیں جن کا کیرالا، کرناٹک اور اڑیسہ میں کافی اثرورسوخ ہے، اس لئے ضروری نہیں کہ حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی 2024ء میں لوک سبھا کے انتخابات میں اس کی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ (جاری)