سپریم کورٹ کے 7 اپریل کے فیصلے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ فیصلے سے اگرچہ مجھے مایوسی ہوئی؛ تاہم میں اسے تسلیم کرتا ہوں لیکن امپورٹڈ حکومت کو قبول نہیں کروں گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک بھر میں اپنی پارٹی‘ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اتوار (10 اپریل) کے روز بعد از نمازِ عشا باہر نکلنے اور ''پرامن‘‘ احتجاج کرنے کے لیے کال دی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دن ملک کے بیشتر شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کئے۔ غالباً اسی رسپانس سے حوصلہ پا کر عمران خان نے پشاور‘ کراچی اور لاہور میں جلسۂ عام کرنے کا اعلان کیا۔ پشاور میں 13 اپریل اور کراچی میں 16 اپریل کو جلسے ہو چکے ہیں جبکہ لاہور میں 21 اپریل کو ہو گا۔ اس کے بعد ممکنہ طور پر دیگر شہروں میں جلسے عوامی رابطے کی اس مہم کا حصہ ہوں گے جسے عمران خان نئی حکومت پر فوری انتخابات کروانے کیلئے بطورِ دباؤ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
آنے والے دنوں میں وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاجی جلسوں اور جلوسوں پر مشتمل تحریک زور پکڑے گی کیونکہ جو مقاصد آئینی اور قانونی ذرائع سے حاصل نہیں ہو سکے، عمران خان اور ان کے ساتھی اب سڑکوں پر حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مومینٹم بِلڈ کرنے کے لیے خان صاحب اب کون سا بیانیہ استعمال کریں گے؟ نواز شریف (2013-2017ء) کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے پہلے خان صاحب نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا بیانیہ استعمال کیا‘ لیکن جب یہ الزام ثابت نہ ہو سکا تو پانامہ لیکس کی آڑ میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر مبنی بیانیے کو اپنایا گیا اور اسے نہ صرف نواز شریف کی معزولی تک بلکہ 2018ء کے بعد پی ٹی آئی کی پونے چار سالہ حکومت کے دوران شریف فیملی اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف زور و شور سے استعمال کیا‘ مگر یہ بیانیہ اتنی بری طرح ایکسپوز ہوا ہے کہ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سوائے پی ٹی آئی کارکنوں کے کوئی اور اسے قبول نہیں کرتا۔ اس لیے خان صاحب نے اب مسلم لیگ (ن)‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی مخلوط حکومت کے خلاف نیا بیانیہ تراشا ہے اور وہ ہے امپورٹڈ حکومت کا۔ اس بیانیے کے تحت خان صاحب جلسوں جلوسوں کے ذریعے پاکستان کے عوام کو یقین دلائیں گے کہ ان کی حکومت کو ایک سازش کے ذریعے ختم کیا گیا۔ یہ سازش بیرون ملک تیار کی گئی ہے اور موجودہ حکومت میں شامل سب جماعتیں (سابقہ اپوزیشن) اس سازش کا حصہ ہیں۔
خان صاحب کے دعوے کے مطابق انہیں یہ سزا آزاد خارجہ پالیسی اپنانے پر دی گئی۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی نے یہ بیانیہ بڑی سوچ سمجھ کے بعد اپنایا ہے۔ پارٹی کے لیڈر عمران خان کو معلوم ہے کہ پاکستان کے عوام ''بیرونی سازش‘‘ کی افواہوں پر بڑی جلدی یقین کر لیتے ہیں، اس لئے پی ٹی آئی نے اس بیانیے کو بھرپور طریقے سے بیچنا شروع کر دیا ہے اور اگر اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عمران خان فین گروپ پر مشتمل لوگوں کے علاوہ عام لوگ بھی اس بیرونی سازش کے بیانیے سے وقتی طور پر متاثر ہوتے ہیں تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہ ہوگی۔ ایک ایسا ملک‘ جس کی ایک تہائی آبادی نہ لکھ سکتی ہے اور نہ پڑھ سکتی ہے، وہاں کوئی بھی بیانیہ بیچا جا سکتا ہے اور اگر پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل آبادی کے بیشتر حصے کو بھی یہ آگاہی نہ ہو کہ حکومت کیا ہوتی ہے؟ اس کو تبدیل کرنے کیلئے جمہوری طریقے کون کون سے ہیں؟ آئینی اور قانونی عمل کیا ہے اور ایک مہذب معاشرے کیلئے اس پر عمل پیرا ہونا کتنا ضروری ہے؟ تحریک عدم اعتماد کو ایک سازش نہیں تو اور کیا قرار دیں گے؟ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانیوں کی اکثریت تحریک عدم اعتماد کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ہوگی‘ اس لیے کہ ملک کی آدھی سیاسی زندگی آمرانہ حکومتوں کے تحت گزری ہے۔ جمہوری دور میں صرف ایک دفعہ (1989ء) محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، جو کامیاب نہ ہو سکی؛ البتہ عمران خان کی حکومت (2018-2022ء) کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور حکومت بھی تبدیل ہو گئی، لیکن لوگوں کو یقین نہیں آ رہا، خصوصاً عمران خان کے فین گروپ کو کیونکہ کپتان نے کہا تھا کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کر کے اپنی سیاسی موت کو دعوت دی ہے اور ''تین چوہے جو میرے شکار کو نکلے ہیں میں ان کا شکار کروں گا‘‘ لیکن جو کچھ ہوا وہ بظاہر الٹ ہوا، اس لیے عام لوگ یہ تبدیلی کسی سازش کا شاخسانہ سمجھتے ہیں‘ مگر جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی‘ بے بنیاد اور سر سے پیر تک جعلی مفروضوں پر مشتمل بیانیے کی زندگی بھی لمبی نہیں ہوتی۔
لوگوں کو جلد سمجھ آ جائے گی کہ آئین، قانون اور جمہوری اصولوں کے عین مطابق اپوزیشن کی عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کسی بیرونی سازش کا نتیجہ نہیں‘ یہ تحریک پی ٹی آئی کے منحرفین کے ووٹ کے بغیر کامیاب ہوئی، پھر بھی پی ٹی آئی کی طرف سے الزام لگایا جا رہا ہے کہ اپوزیشن نے اربوں روپے ادا کر کے پی ٹی آئی کے ارکانِ قومی اسمبلی کی وفاداریاں خریدی ہیں۔ جوں جوں حقائق منظر عام پر آئیں گے لوگ صحیح نتیجہ اخذ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
نئے وزیر اعظم شہباز شریف نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی‘ جس کے ارکان میں چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی شامل ہیں، کی اِن کیمرا پارلیمانی سماعت کا اعلان کر کے ایک درست اور بر وقت قدم اٹھایا ہے کیونکہ اس سے بقول وزیر اعظم دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی نے اس تجویز کو اگرچہ مسترد کر دیا ہے لیکن بند دروازے کے اندر پارلیمنٹ کے ارکان کو جب پوری عسکری قیادت اور وزارت خارجہ بریفنگ دی جائے گی تو ملک کے سب سے اعلیٰ ادارے یعنی پارلیمنٹ پر حقیقی صورت حال واضح ہو جائے گی۔
ملک کے اکثر، خصوصاً کاروباری حلقے آج کی حکومت اور کل کی اپوزیشن اور کل کی حکومت اور آج کی اپوزیشن کے درمیان سخت محاذ آرائی سے بہت پریشان ہیں‘ مگر اس صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سیاسی گرما گرمی اور بحث و تمحیص کی اس فضا میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی سیاسی آگاہی کا بھی مقصد حاصل ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان میں پہلی دفعہ ایسے ایشوز پر کھل کر بات ہو رہی ہے‘ جن پر اس سے پہلے اظہارِ خیال کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب کوئی مقدس گائے نہیں رہی۔ اگر آج کی بے وفائی پر واویلا مچایا جا رہا ہے تو اس سے پہلے کی جانے والی زیادتیوں کے حساب کتاب کا مطالبہ بھی سر اٹھائے گا۔