سابق وزیر اعظم عمران خان کی بیڈ گورننس اور مس مینجمنٹ کی ایک واضح اور تشویش ناک مثال مرکز اور صوبہ سندھ کے مابین مسلسل کشیدگی اور عدم تعاون کی کیفیت تھی جو کسی میں کم اور کسی میں زیادہ، تقریباً تمام شعبوں میں پی ٹی آئی کے گزشتہ ساڑھے تین برسوں پر محیط پورے دور کے دوران جاری رہی۔ اس کی تمام تر ذمہ داری سابق وفاقی حکومت اور خصوصاً سابق وزیر اعظم عمران خان پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سندھ حکومت کی طرف سے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں میں شراکت اور تعاون کی جب کبھی درخواست کی جاتی تو اسے حقارت سے ٹھکرا دیا جاتا تھا۔ حلف اٹھانے کے بعد پورے ایک سال تک وزیر اعظم نے سندھ کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات نہیں کی حالانکہ اس دوران وزیر اعظم نے متعدد بار کراچی کا دورہ کیا‘ لیکن ان دوروں کی نہ تو سندھ حکومت کو اطلاع دی جاتی تھی اور نہ ہی سابق وزیر اعظم وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرتے تھے۔ ان (سابق وزیر اعظم) کی صوبے میں مصروفیات گورنر ہاؤس میں اپنے اتحادیوں‘ پارٹی کارکنوں اور مقامی سرمایہ داروں اور تاجروں سے ملاقات تک محدود ہوتی تھیں۔ سندھ حکومت کی طرف سے تعاون کا ہاتھ بڑھانے کے بجائے سابق وفاقی حکومت کی طرف سے مسلسل صوبائی حکومت کے سر پر گورنر راج کی تلوار لٹکتی رہی۔ کراچی میں امن و امان کے قیام کے لیے رینجرز کی تعیناتی میں توسیع کا مسئلہ ہو یا وفاقی حکومت کے سینئر افسران (خصوصاً پولیس) کی ٹرانسفر یا پوسٹنگ کا ایشو‘ وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت میں ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی۔
سندھ کی اس شکایت کہ وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبے کو ملنے والی رقوم سے ہر سال کٹوتی کر لیتی ہے، عمران خان کی حکومت نے کبھی در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ تقریباً دو سال قبل جب دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی تو سندھ حکومت نے کراچی کے راستے وبا کو ملک کے دوسرے حصوں تک پھیلنے سے روکنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جن میں ایئر پورٹ پر قورنٹائن اور گنجان آبادی والے علاقوں میں لاک ڈاؤن جیسے اقدامات بھی شامل تھے۔ سندھ حکومت کے ان اقدامات کو نہ صرف بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا بلکہ نیشنل کمانڈ اینڈآپریشن سینٹر (National Command & Operation Center) کے سابق چیئرمین اسد عمر نے ایک بیان میں برملا اعترف کیا تھا کہ ابتدائی مرحلوں پر اس وبا کو ملک کے دوسرے حصو ں تک پھیلنے سے روکنے میں وفاقی حکومت کو جو کامیابی حاصل ہوئی تھی، اس میں سندھ حکومت کے ان اقدامات کا بہت اہم کردار تھا۔ اس کے باوجود وزیر اعظم (سابق) عمران خان کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیابی کا تمام تر کریڈٹ خود لیتے رہے اور سندھ حکومت کے بروقت اور موثر اقدامات کا نہ صرف تمسخر اڑاتے رہے بلکہ اسے نقصان دہ (Counter Promotive) قرار دیتے رہے‘ لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت آنے سے صورت حال میں ایک خوش گوار تبدیلی کے آثار نظر آئے ہیں۔
حلف اٹھانے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی کے پہلے دورے کے موقع پر وزیر اعلیٰ، ان کی کابینہ اور اتحادی پارٹیوں کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں اعلان کیا کہ سندھ کی حکومت کو ترقیاتی منصوبوں میں وفاقی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہو گا۔ اس ضمن میں انہوں نے کراچی کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ایک اعلیٰ درجے کے ٹرانسپورٹ سسٹم کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم جب ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچے تو ایئر پورٹ پر سندھ کی کابینہ نے ان کا پُر تپاک خیر مقدم کیا۔ یہ منظر گزشتہ ساڑھے تین برسوں کے مناظر سے بالکل مختلف تھا، جب وزیر اعظم عمران خان کے ایئر پورٹ پر استقبال کرنے والی شخصیتوں کی قطار میں صوبے کا چیف ایگزیکٹو موجود نہیں ہوتا تھا۔ ایسے مناظر سے مرکز اور ملک کے دوسرے سب سے بڑے صوبے کے درمیان ناخوشگوار تعلقات کی عکاسی ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ پاکستانی وفاق کی جڑوں کو کمزور کرنے کی ایک دانستہ یا نا دانستہ کوشش کا ثبوت بھی ملتا تھا۔
امید ہے کہ وفاق میں ایک نئی حکومت کے قیام سے مرکز اور سندھ میں باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کا ایک نیا باب شروع ہو گا‘ جس کا فائدہ نہ صرف صوبہ سندھ کے عوام بلکہ پورے پاکستان کے عوام کو ہو گا‘ کیونکہ اس سے جمہوریت اور وفاقیت کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور صوبوں کو وفاق کی اکائی کے طور پر اس کے قریب آنے کا موقع ملے گا۔ اس امید کی بنیاد یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور (2013-2018) کے دوران سندھ اور وفاق کے تعلقات کافی حد تک باہمی تعاون پر مبنی تھے۔
ستمبر 2013ء میں جب وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر کراچی میں قانون شکن اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو انہوں نے سندھ حکومت کو نہ صرف پوری طرح آن بورڈ لیا بلکہ اس وقت کے سندھ کے چیف منسٹر سید قائم علی شاہ کو اس آپریشن کا کپتان بنایا تھا۔ انہوں نے یہ اقدام اس حقیقت کے باوجود کیا تھا کہ ان پر کئی حلقوں کی طرف سے اس آپریشن میں سندھ حکومت کو بائی پاس کرنے پر زور دیا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ وفاق خود یہ آپریشن اپنی نگرانی میں کرائے۔ موجودہ حکومت کے تحت سندھ اور وفاق کے مابین بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کی اس وجہ سے بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ سندھ کی طرح وفاق میں برسر اقتدار پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو دیے گیے حقوق اور رعایات کی حمایت کرتی ہے۔
گزشتہ حکومت خصوصاً سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو پاکستان کی معاشی مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرا کر اس کو رول بیک کرنے کے عندیے بھی دئیے جاتے رہے تھے۔ باوجود اس کے کہ پنجاب کے کئی حلقوں کو اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعض حصوں پر تحفظات ہیں اور انہیں ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے، عمران خان کے حملوں کے جواب میں مسلم لیگ (ن) نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کا دفاع کیا گیا اور اسے رول بیک کرنے کی مکمل مخالفت کی گئی۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور وفاقی اکائیوں کے درمیان تنازعات کو باہمی رضا مندی اور اتفاق (consensus) کے ذریعے حل کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ 1991ء کا پانی کی تقسیم کا معاہدہ اس کی ایک مثال ہے۔ سندھ کے علاوہ باقی چھوٹے صوبوں میں بھی اس بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کے لیے خیر سگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ بحیثیت وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے ان کے معاملات میں وسیع القلبی اور فیاضی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک کی سرکردگی میں صوبائی حکومت کی تشکیل اس کی ایک مثال ہے۔ اس لئے مرکز میں دوبارہ اتحادیوں کی حکومت کے قیام سے سندھ میں وفاقی حکومت سے متعدد نئی توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں۔ دعا کی جانی چاہئے کہ یہ توقعات پوری ہوں تاکہ وفاق اور صوبوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور اچھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کا موقع ملے‘ جو گڈ گورننس کے لیے بے حد ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔