چیف جسٹس، مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے جس پانچ رکنی بنچ نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ (3 اپریل) کو کالعدم قرار دے کر اسمبلیاں بحال کر دی تھیں اور سابقہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا تھا، وہ ایک متفقہ فیصلہ تھا۔ ملک کی چاروں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کے علاوہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور آئین، قانون اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے والی متعدد تنظیموں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا‘ کیونکہ یہ فیصلہ پاکستان میں آئین اور قانون کی بالا دستی کا مظہر ہے۔
یہی رائے تمام سیاسی پارٹیوں کی تھی اور صورت حال اس لحاظ سے خوش آئند تھی کہ اس سے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود، تمام سیاسی جماعتوں اور گروپوں کے درمیان پاکستان میں موجودہ سیاسی نظام پر اتفاق رائے ابھرتا ہوا نظر آ رہا ہے لیکن صرف ایک سیاسی پارٹی جو کہ ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ cultکی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے؛ یعنی پاکستان تحریک انصاف‘ کو یہ فیصلہ منظور نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قائد حزب اختلاف (اب سابق) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی وفاقی حکومت ایک مخلوط حکومت ہے مگر جو سیاسی پارٹیاں اور گروپ اس حکومت کا باقاعدہ حصہ نہیں وہ بھی اس حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں پی ٹی آئی کے علاوہ کسی بھی سیاسی پارٹی، تنظیم یا گروپ نے اس حکومت کی آئینی یا قانونی حیثیت کو چیلنج نہیں کیا، یا اسے کسی بیرونی سازش کی پیداوار قرار دے کر اور اسے ''امپورٹڈ‘‘ قرار دے کر قبول کرنے سے انکار نہیں کیا‘ لیکن پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سنائی دینے والی واحد آواز ہے جو ''نا منظور، نا منظور‘‘ کی سوئی پر اٹکی ہوئی ہے۔
ہر معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا ہے لیکن لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اس اختلافِ رائے کو عدم برداشت اور پُر تشدد تصادم میں تبدیل کر دیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس پولرائزیشن (polorization) سے ہمارے ادارے، خصوصاً قانون نافذ کرنے والے ادارے محفوظ ہیں اور سختی سے قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت کو اپنے قیام کے بعد ملک بھر میں اپنی رِٹ قائم کرنے میں ذرہ بھر بھی دیر نہیں لگی اور انتظامی کارروائیاں فوری طور پر شروع ہو گئیں۔وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کی اس کامیابی میں اداروں‘ جن میں پولیس، بیوروکریسی بھی شامل ہے، کی طرف سے تعاون کا بہت بڑا کردار ہے۔ نئی حکومت کے آتے ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے اور سٹاک ایکس چینج میں مثبت رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کے صنعتی اور کاروباری طبقے کو نئی حکومت پر اعتماد ہے۔ اب روپے کی قدر میں ایک بار پھر کمی ہونا شروع ہو گئی ہے لیکن امید ہے کہ آئی ایم ایف سے ڈیل کے بعد معاشی معاملات میں بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔
متحدہ اپوزیشن کی سب سے اہم کامیابی، سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کو ایک بیچ پر لانا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ مذکورہ دونوں پارٹیوں میں کبھی نہیں بنی‘ بہرحال سندھ حکومت کے ساتھ اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے معاہدے کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان اب وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت کا بھی حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان معاہدے نے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے لیے کراچی میں مشکلات پیدا کرنے کے موقع سے محروم کر دیا ہے۔
اپنے دور میں سابقہ حکومت نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر سندھ کی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم دیا تھا بلکہ اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے اور گورنر راج کے نفاذ کا جواز تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگر اب سندھ اور وفاق یک جا ہیں اور ان کے باہمی تعلقات بھی مثالی ہیں۔ اسی کی وجہ سے وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو خیبر پختونخوا کے علاوہ ملک کے تمام باقی حصوں میں مکمل پذیرائی حاصل ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی راگ الاپ رہی ہے کہ ''امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘۔
موجودہ عہد میں قوموں کے درمیان فاصلے اتنے کم ہو گئے ہیں اور ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار اتنا بڑھ گیا ہے کہ دنیا ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو گئی ہے اس لئے کسی بھی ملک میں استحکام کا دار و مدار بہت حد تک اس بات پر ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً ہمسایہ ممالک، کسی ملک کی حکومت کے بارے میں کیا پالیسی یا رویہ رکھتے ہیں۔ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ جہاں نو ماہ گزر جانے کے بعد بھی کسی ایک ملک نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال افغانستان میں عدم استحکام کا ایک بڑا سبب اور اس ملک میں ترقی اور خوش حالی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن پاکستان میں حکومت تبدیل ہونے کے عمل کو دنیا کے دیگر خصوصاً ہمسایہ ممالک نے جس سرعت کے ساتھ خوش آمدید کہا‘ اور وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے ساتھ باہمی تعاون پر مبنی مل کر کام کرنے کی خواہش کا جس طرح اظہار کیا، وہ بھی موجودہ حکومت کے حق میں ایک پلس پوائنٹ ہے۔
اپنا منصب سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کو جن ممالک نے سب سے پہلے مبارکباد اور خیر سگالی کے پیغامات بھیجے، ان میں ترکی، چین، قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے علاوہ بھارت اور افغانستان میں طالبان کی حکومت بھی شامل ہے۔ اس سے موجودہ حکومت کے بین الاقوامی کریڈنیشنلز(Credentials) کے مضبوط ہونے کا ثبوت عیاں ہوتا ہے۔ اس سے عالمی برادری کا نئی حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے، بلکہ وزیر اعظم شہباز شریف کی گڈ گورننس اور اہلیت پر مبنی شہرت کا اعتراف بھی ظاہر ہوتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کو عہدہ سنبھالنے پر دنیا بھر سے جو تہنیتی پیغامات آئے، ان سے پتا چلتا ہے کہ وہ ممالک جو جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے خواہش مند ہیں اور اس مثبت ماحول میں یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، خوش ہیں‘ کیونکہ ان کے خیال میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے بے یقینی کا دور ختم ہو گیا ہے اور اب ایک ایسی حکومت برسر اقتدار آئی ہے جو نہ صرف دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مؤثر اقدامات کرے گی بلکہ اپنے سابقہ ریکارڈ کے مطابق ملک کے اندر اور باہر سرحدوں پر بھی پُر امن ماحول پیدا کر کے، علاقائی تجارت اور تعاون کا راستہ اختیار کر کے خطے میں ترقی اور خوش حالی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گی۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نئی حکومت اگر سنجیدگی سے آگے بڑھے تو اس کے لیے قومی مسائل پر قابو پانا ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی نعرہ بلند کر رہی ہے کہ ''امپورٹڈ‘‘ حکومت نامنظور‘‘۔ پتا نہیں اس نعرے کے پیچھے کیا منطق کارفرما ہے۔