"DRA" (space) message & send to 7575

سوشل میڈیا اور سیاست

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابی جنگ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے لڑی جائے گی‘ اس لیے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں مبینہ طور پر اپنی اپنی سوشل میڈیا کی ٹیموں کو منظم اور نئے آلات سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں۔ میرے خیال میں یہ فارمولا محض پاکستان تک محدود نہیں پوری دنیا میں یہی ٹرینڈ چل رہا ہے اور سیاست کے لیے سوشل میڈیا کا کردار بڑھ رہا ہے۔ کیسے ؟ اس کی مثالیں میں آگے چل کر دوں گا۔ میرے خیال اور میرے تجزیے‘ اور تحقیق کے مطابق انتخابی دوڑ میں حریف سے آگے نکلنے کے لیے سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے انحصار کی بنیاد غالباً سیاست کا یہ فلسفہ ہے کہ Politics is all communication یعنی سیاست کا سارا دارومدار پیغام رسانی پر ہے۔
آئیے درج بالا بیان کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔ اگر یہ درج بالا بات یا بیان یا بیانیہ درست ہے تو ایک مؤثر اور نتیجہ خیز پیغام رسانی (communication) کے لیے تین شرائط ضروری ہیں۔ رفتار (speed) یعنی کم سے کم وقت میں ٹارگٹ تک پیغام پہنچانا‘ ٹارگٹڈ پاپولیشن یعنی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا اور لاگت یعنی کم سے کم قیمت پر یہ مقصد حاصل کرنا۔ سوشل میڈیا سٹریٹیجک کمیونی کیشن یہ تینوں شرائط پوری کرتا ہے۔ ماضی میں اس مقصد کے حصول کے لیے پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات پر انحصار کیا جاتا تھا۔ ہر سیاسی جماعت کا اپنا اخبار ہوتا تھا جس کے ذریعے اس سیاسی جماعت کا نظریہ، منشور اور سیاسی مسائل پر مؤقف کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی تھی‘ لیکن اس ذریعے سے پیغام رسانی میں نہ صرف وقت زیادہ صرف ہوتا تھا، بلکہ پیغام موصول کرنے والے لوگوں کی تعداد بھی محدود تھی؛ تاہم ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی ایجاد اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے سٹریٹیجک کمیونی کیشن میں وہ انقلابی ترقی کی جسے ہم ''ماس میڈیا‘‘ (mass media) کہتے ہیں۔ لیکن اب سوشل میڈیا تیزی کے ساتھ ماس میڈیا کی جگہ لے رہا ہے، کیونکہ مؤخرالذکر میں مرکزی کردار حکومت، کارپوریشنز‘ سیاسی جماعتوں اور کمیونٹی (community) کو حاصل تھا، جبکہ اول الذکر میں فرد (individual) مرکزی کردار بن کر ابھرا ہے۔
اب وہ (یعنی فرد) اپنے شعور کے مطابق اپنے جذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے نہ تو کسی سٹیٹ (حکومت)، سیاسی پارٹی، اخبار، ٹیلی ویژن یا کارپوریشن کا محتاج ہے اور نہ ہی اسے اپنے حلقے تک رسائی کے لیے وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے‘ بھاری اخراجات (جیسا کہ ماضی میں اشتہارات کی مد میں بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی تھیں) کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا تھا۔ اب ایک موبائل فون کے ذریعے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں فالوورز تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں اور اس پر خرچ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس عمل میں فرد معاشرے سے الگ تھلک نہیں ہوتا، بلکہ اپنی ایک نئی برادری کی تشکیل کرتا ہے، جو اس کی ہم خیال ہے۔
دو سال قبل امریکہ میں پنار یلدرم (Pinar Yildirim)‘ ماریا پٹرووا (Maria Petrova) اور اننیا سین (Ananya Sen) نے سیاست پر سوشل میڈیا کے اثرات پر اپنا ایک مضمون امریکہ کی مشہور پبلی کیشن مینجمنٹ سائنس (management science) میں چھاپا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سوشل میڈیا نے سیاست کے کھیل میں نوواردوں (New comers) کے لیے میدان صاف کر دیا ہے اور وہ سوشل میڈیا کے چینل کو استعمال کر کے کمیونی کیشن کے لیے پوسٹرز، بینرز، اخبارات میں اشتہار یا ٹی وی شوز میں شرکت وغیرہ جیسے روایتی طریقے استعمال کرنے والے امیدواروں کے مقابلے میں سوشل میڈیا چینل مثلاً فیس بک، واٹس اَپ، وائبر، انسٹا گرام اور ٹویٹر استعمال کر کے بازی لے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا دنیا پر آندھی کی طرح چھا گیا ہے۔ سیاست دانوں کے لیے اپنے حلقے تک رسائی جتنی آسان اور سستی آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ اسی لیے انتخابی مہم میں سوشل میڈیا چینلز کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
امریکہ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے پہلے سابق صدر بارک اوبامہ نے اپنی پہلی انتخابی مہم میں کیا تھا۔ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹر کا استعمال کر کے شہرت حاصل کی۔ 2010-2011 میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک عرب سپرنگ (Arab Spring) نے شارٹ نوٹس پر ہزاروں مظاہرین کو اکٹھا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی‘ جو سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے قبل ایک مزاحیہ اداکار (comedian) کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، نے بھی سوشل میڈیا چینلز کو استعمال کر کے صدارتی مہم میں کامیابی حاصل تھی۔
ہمارے اپنے خطے میں ہمسایہ ملک بھارت کی ریاست پنجاب کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے امیدوار بھگونت مان سنگھ‘ جو مزاحیہ اداکاری کی وجہ سے مشہور ہیں‘ نے بھی سوشل میڈیا چینلز کو استعمال کر کے کامیابی حاصل کی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی عوام کے ساتھ رابطے کے لیے جلسے یا ٹویٹر استعمال کرتے ہیں۔ انہیں بھارت کے وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے 8 سال ہونے کو ہیں‘ لیکن اس دوران انہوں نے شاذ و نادر ہی الیکٹرانک میڈیا یا پریس کانفرنس کا چینل استعمال کیا ہو گا۔
ہمارے اپنے ملک میں سیاست پر سوشل میڈیا کے اثرات کی نمایاں مثال تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے چیئرمین عمران خان ہیں۔ اگرچہ دیگر سیاسی پارٹیوں مثلاً پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی سوشل میڈیا سیل قائم کر رکھے ہیں‘ مگر ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ونگ سب سے زیادہ منظم، فعال اور مستعد ہے۔ 2018 کے انتخابات کے دوران اور ان سے پہلے اگرچہ پی ٹی آئی کے امیج بلڈنگ میں الیکٹرانک میڈیا اور چند اینکر حضرات نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا تھا مگر شریف خاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات پر مبنی ان کے ''بیانیے‘‘ کی کامیابی میں سوشل میڈیا کا بہت ہاتھ ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد تو عمران خان کا بیانیہ، بقول ایک کالم نویس کے، پاکستانی سیاست پر چھا گیا ہے۔ یہ کرشمہ بھی سوشل میڈیا کا رہینِ منت ہے جس نے عمران خان کو ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا ہے جس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے، حالانکہ تحریک عدم اعتماد قانونی اور آئینی طریقے سے حکومت بدلنے کا نہ صرف ایک جائز طریقہ ہے بلکہ اپوزیشن کا آئینی اور قانونی حق بھی ہے۔ اس آئینی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سابقہ حکومت خصوصاً سابق وزیر اعظم نے جو ہتھکنڈے استعمال کیے، نظام عدل کی طرف سے انہیں ناکام بنانے کے اقدام کو تمام لیگل کمیونٹی اور سول سوسائٹی نے سراہا ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان کا امیج بطور ایک مظلوم اور نا انصافی کے شکار انسان کے بِلڈ اپ کیا گیا ہے۔ یہ سب سوشل میڈیا کی کرشمہ سازی ہے جو ایک تیزی سے روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں