جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ختم کر کے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور خود کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر لیا تھا مگر اپنے پیشرو (ایوب خان) کے برعکس آئین کو منسوخ نہ کیا بلکہ معطل صورت (Held in abeyance) میں رکھ کر آٹھ سال تک تمام اختیارات کے مالک رہے‘ لیکن بالآخر انہیںبھی اندرونی اور بیرونی دبائو کے تحت سویلین لبادہ اوڑھنا پڑا۔ غیر جمہوری حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج سیاسی پارٹیاں ہی رہی ہیں اور ہر حکمران نے اپنے انداز میں اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی ہے۔ ایوب خان نے اقتدار سنبھالتے ہی سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کر دی۔ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے خلاف سب سے بڑے خطرے کو ختم کر دیا ہے‘ لیکن جب مارشل لا اٹھایا گیا اور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ملی تو سیاسی جماعتیں پہلے سے زیادہ توانا ہو کر ابھریں۔ ایوب خان کو خود ایک سیاسی پارٹی مسلم لیگ کنونشن کی صدارت سنبھال کر دیگر سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔
ایوب خان کے بعد اقتدار پر قابض ہونے والوں نے اپنے پیشرو سے جو اہم سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ سیاسی پارٹیوں کو کسی بھی استبدادی طریقے سے ختم نہیں کیا جا سکتا‘ اس لئے انہیں ایک دوسرے سے لڑا کر اس حد تک کمزور کر دیا جائے کہ وہ کسی قسم کے خطرے کا باعث نہ بن سکیں۔ 1988ء کے بعد پاکستان میں سیاسی (حکومتی) تبدیلیوں کے پیچھے یہی محرک کارفرما تھا اور اسے بغیر کسی رکاوٹ کے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ضیا الحق نے آٹھویں اور پرویز مشرف نے17ویں آئینی ترامیم کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اپنے ہی چنیدہ (Hand Picked) وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو ضیا الحق نے آئین کی دفعہ 58(2B) کے تحت جس طرح معزول کیا اس کا ذکر اس کالم کی پچھلی قسط میں کیا جا چکا ہے۔ ان کے جانشین غلام اسحاق خان نے اس آئینی اختیار کو پہلے بے نظیر بھٹو (1990ء) اور پھر نواز شریف (1993ء ) کے خلاف جس طرح استعمال کیاوہ بھی سب کو معلوم ہے۔ پاکستان کی سیاسی حکومتوں کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے جو نسخہ استعمال کیا گیا وہ انگریزی کے اس مقولے سے مکمل مطابقت رکھتا ہے: Give a dog a bad name and hang him۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی (1988ء) ان کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوششیں شروع ہو چکی تھیں۔ پہلے بلوچستان اسمبلی کو تحلیل کر کے صوبے کی قوم پرست سیاسی پارٹیوں کو ان کے حمایتیوں سے الگ کر دیا گیا اور پنجاب کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ اور اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے سربراہ نواز شریف کو صوبائی سے قومی لیڈر بنا دیا گیا کیونکہ انہوں نے بلوچستان اسمبلی کی تحلیل کی مخالفت کر کے بلوچ قوم پرست رہنما اکبر بگٹی کی ہمدردیاںحاصل کر لی تھیں۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات لگا کر انہیں ''مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کے طور پر مشہور کیا گیا۔ خود وزیر اعظم کو ''سکیورٹی رسک‘‘ قرار دیا گیا اور ان کی کابینہ کے ایک اہم رکن اور وزیر داخلہ اعتزاز احسن پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے مشرقی پنجاب میں بھارت کی مرکزی حکومت کے خلاف سرگرم سکھ جنگجوئوںکی فہرستیں بھارت کی خفیہ ایجنسی کو فراہم کیں۔ سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والے شہریوں کے درمیان لسانی کشیدگی کو ہوا دے کر فسادات بھی کرائے گئے تاکہ لا اینڈآرڈر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی آڑ لے کر محترمہ کی حکومت کو معزول کیا جا سکے۔
اگست 1990ء تک ان تمام کوششوں کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف رائے عامہ اس حد تک ہموار ہو چکی تھی کہ لوگ ہر لمحہ اور ہر گھڑی اس حکومت کی برخاستگی کی خبریں سننے کو تیار تھے۔ صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 58(2B) کے تحت بدعنوانی‘ اقربا نوازی اورلا اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے الزام میں بے نظیر بھٹو کی پہلی (1988-90ء) حکومت کی برطرفی کی خبر ایک دن پہلے ہی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بن چکی تھی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنے ادارتی صفحے پر چھپنے والے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی معزولی میں صدر غلام اسحاق خان کو غیر سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل تھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد غلام مصطفیٰ جتوئی کی نگران حکومت کے تحت جو انتخابات ہوئے ان میں آئی جے آئی نے بھاری اکثریت حاصل کی اور میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم بنے‘ لیکن ابھی ان کی حکومت نے تین سال بھی پورے نہیں کئے تھے کہ اپریل 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58(2B) کو دوبارہ استعمال کرتے ہوئے ان کی حکومت کو برخاست کر دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی معزولی سے پہلے خود ایک پبلک ایڈریس میں یہ کہہ کر کہ ''میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ اس کی تصدیق کر دی تھی کہ بحیثیت وزیر اعظم ان کے اختیارات کے استعمال میں صدر غلام اسحاق خان روڑے اٹکا رہے تھے‘ لیکن بعض حلقوں کی رائے ہے کہ صدر غلام اسحاق خان کی نواز شریف سے ناراضگی کی اصل وجہ موخرالذکر کی جانب سے اُس وقت کی لیڈر آف دی اپوزیشن محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ حکومتی معاملات میں مداخلت کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کی کوششوں کا آغاز تھا۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا تھا مگر چیف آف آرمی سٹاف جنرل وحید کاکڑ کے مصالحتی فارمولے کے تحت وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان دونوں کو اپنے عہدوں سے الگ ہونا پڑا۔
نئے انتخابات ہوئے جن کے نتیجے میں وفاق میں ایک دفعہ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی مگر نواز شریف حکومت کی معزولی اور نئے انتخابات کے دوران ہونے والے واقعات نے پاکستان میں اقتدار کی جنگ میں صدر‘ چیف آف آرمی سٹاف اور وزیر اعظم پر مشتمل ٹرائیکا (Troika) کی ایک نئی اصطلاح متعارف کروا دی۔ اس کا مطلب تھا کہ ریاست کے اختیارات‘ جسے علم سیاسیات میں اقتدارِ اعلیٰ (sovereignty) کہا جاتا ہے‘ تین ہاتھوں میں ہوں گے اور سیاسی استحکام کے لیے طاقت کے ان تینوں مراکز کا ایک رائے (Consensus) کا حامل ہونا ضروری ہے۔ 1996ء میں بے نظیر بھٹو اور 1999ء میں نواز شریف کی حکومتوں کی برطرفی کی وجہ اس ٹرائیکا کے دو اہم ارکان یعنی صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات کی وجہ سے Consensus کی عدم موجودگی تھی۔
پاکستان میں ایسے وزرائے اعظم بھی رہے ہیں جن پر‘ عہدوں سے معزول کرتے وقت الزامات نہیں لگائے گئے۔ ان میں ذوالفقار علی بھٹو اورمحمد خان جونیجو شامل ہیں۔ جن وزرائے اعظم پر الزامات لگائے گئے‘ مقدمات چلائے گئے اور سزا بھی سنائی گئی‘ ان کے بارے میں بھی عوامی رائے یہی رہی ہے کہ کرپشن کے نام پر انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جب حسین شہید سہروردی پر مقدمہ چلانے کے لیے ٹربیونل کو ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ملی‘ جس کی بنا پر انہیں ملک کی سیاست سے مستقل طور پر بے دخل کیا جا سکتا‘ تو انہیں اس الزام پر مطلوبہ سزا دی گئی کہ 1945ء میں بنگال میں ہندو مسلم فسادات روکنے اور اس طرح سینکڑوں مسلمانوں کی جانیں بچانے کے لیے انہوں نے ایک مکان میں گاندھی کے ساتھ کیوں قیام کیا تھا؟ (ختم)