بھارت کی شمال مشرقی ریاست اڑیسہ کے ایک دور افتادہ علاقے میں بسنے والے ایک قبیلے کی سردار دروپدی مرمو (Droupadi Murmu) 2022ء سے 2027 ء تک کیلئے ملک کی صدر چن لی گئی ہیں۔ باقاعدہ سیاست میں آنے اور حکمران جماعت بی جے پی کی سرگرم رکن بننے سے پہلے وہ ایک سکول ٹیچر تھیں مگر اس دوران عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی وجہ سے بڑا نام کما چکی تھیں۔ وہ بھارت کی پندرہویں اور دوسری خاتون صدر ہوں گی۔ ان کا مقابلہ بھارت کے ایک معروف اور سینئر سیاست دان یشونت سنہا سے تھا۔ انہیں بی جے پی کی مخالف سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی‘ لیکن دروپدی مرمو نے اپنے حریف سے دوگنا ووٹ حاصل کر کے بھارتی صدر کا انتخاب جیت لیا۔
بھارت اور پاکستان میں صدر کے عہدے کی نہ صرف مدت (پانچ سال) ایک جیسی ہے بلکہ انتخابی طریقہ بھی ایک جیسا ہی ہے‘ یعنی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) اور ملک بھر کی ریاستوں اور یونین ٹیرٹریز کی اسمبلیوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل انتخابی حلقہ (Electorate) نئے صدر کا انتخاب کرتا ہے‘ بلکہ اختیارات بھی ایک جیسے (رسمی اور برائے نام) ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں پارلیمانی جمہوریت رائج ہے‘ جس میں حکومتی اختیارات (ایگزیکٹو پاورز) وزیراعظم کے ہاتھ میں ہوتے ہیں‘ لیکن پاکستان کی طرح بھارتی صدر بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہوتا ہے اور اس کے دستخطوں کے بغیر پارلیمنٹ کا منظور کردہ کوئی بل قانون کی حیثیت اختیار نہیں کرتا۔
رسمی اختیارات کا مالک ہونے کے باوجود پاکستان کی طرح بھارت میں بھی صدر کا عہدہ خاص تکریم‘ توقیر اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ صدر مسلح افواج کا کمانڈر انچیف اور ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے صدر کوخواہ وہ پاکستان کا ہو یا بھارت کا‘ کسی پارٹی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاتا۔ اس کی حیثیت پارٹی پالیٹکس سے بالاتر سمجھی جاتی ہے‘ مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا کیونکہ صدر کے عہدے کیلئے کسی بھی شخص کی نامزدگی پارٹی یا پارٹیوں کے اتحاد کی طرف سے کی جاتی ہے اور توقع یہی کی جاتی ہے کہ صدر نامزد کرنے والی پارٹی کے وژن کی نہ صرف تشریح کرے گا بلکہ اس کے سیاسی مفادات کو بھی تحفظ فراہم کرے گا۔
دروپدی کو صدارتی انتخاب میں بطور امیدوار بی جے پی کی سرکردگی میں قائم سیاسی اتحاد این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کی طرف سے نامزد کیا گیا تھا‘ اور مبصرین کی رائے میں اس کے ذریعے وزیراعظم نریندر مودی بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں آباد قبائل کی بی جے پی کیلئے 2024ء کے پارلیمانی انتخابات میں حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دو پارلیمانی انتخابات (2014ء اور 2019ء ) میں بی جے پی نے جنوبی اور مشرقی بھارت کی ریاستوں میں اپنے ووٹ بینک میں کافی اضافہ کیا ہے اور دس سال پہلے تک جن ریاستوں میں کانگریس دہائیوں سے برسرِ اقتدار چلی آ رہی تھی‘ آج وہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ ان ریاستوں میں آسام بھی شامل ہے مگر بی جے پی کو اب بھی مقامی اور علاقائی سطح پر مضبوط پارٹیوں کا چیلنج درپیش ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے بی جے پی نے ہندوتوا کے نام پر مذہب کا کارڈ استعمال کیا ہے اور اس حکمت عملی کے تحت اس نے ان ریاستوں میں بھی اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے میں کامیابی حاصل کی ہے‘ مگر قبائلی علاقوں میں بی جے پی کو اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ دروپدی مرمو کی بطور صدر تعیناتی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
دروپدی مرمو سے قبل بھارت کے صدر رام ناتھ کووند کا تعلق دلت یا ہریجن برادری سے تھا۔ انہیں بھی بی جے پی نے نامزد کیا تھا اور ان کی نامزدگی کا مقصد بھارت کے 20 کروڑ دلت باشندوں کی حمایت حاصل کرنا تھا تاکہ یہ تاثر زائل کیا جا سکے کہ بی جے پی صرف اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ اسی طرح آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کے دور (2002ء تا 2007ء)میں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو صدر کے عہدے کیلئے نامزد کیا گیا تو اس کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ بی جے پی ایک فرقہ وارانہ یا مسلمانوں کی مخالف سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ اس کے دروازے ہر مذہب کے پیروکاروں کیلئے کھلے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالکلام کے علاوہ دو اور مسلمان شخصیات ڈاکٹر ذاکر حسین (مئی 1967ء تا مئی 1969ء) اور فیروزالدین علی احمد (اگست 1974ء تا فروری 1977ء) بھارت میں صدر کے عہدے پر فائز رہ چکی ہیں۔ انہیں آل انڈیا کانگریس کی طرف سے نامزد کیا گیا تھا اور نامزدگی کا مقصد بھارت میں ہندوئوں کے بعد‘ تعداد میں سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو بھارت کے سیاسی نظام میں شرکت کا احساس دلانا تھا۔ یہی مقصد سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے گیانی ذیل سنگھ کی صدارت کیلئے کانگریس کی طرف سے نامزدگی کے پیچھے تھا۔ گیانی ذیل سنگھ 1982ء سے 1987ء تک بھارت کے صدر رہے۔ انہی کے دورِ صدارت میں آپریشن بلیو سٹار (1984ء) وقوع پذیر ہوا جس میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر حملہ کرکے سکھ رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا اور ان کے ساتھیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ انہی کے زمانے (اکتوبر 1984ء) میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اپنے سکھ باڈی گارڈز کے ہاتھوں قتل ہوئیں جس کے ردِ عمل میں دہلی میں سکھوں کا قتلِ عام کیا گیا۔
اگرچہ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی حکومت اور فیصلہ سازی کے اصل اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود بھارتی صدر کے ہاتھ میں چند ایسے اختیارات ہیں جو اُن کے پاکستانی ہم منصب کے پاس نہیں۔ ان میں سے ایک اختیار وزیراعظم کی نامزدگی ہے۔ پاکستان کے برعکس بھارت میں وزیراعظم کا عہدہ ایوانِ زیریں (لوک سبھا) میں انتخابات سے پُر نہیں کیا جاتا بلکہ صدر لوک سبھا کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی کے سربراہ کو حکومت سازی کی دعوت دیتا ہے۔ پاکستان میں اس قسم کا اختیار 1956ء کے آئین کے تحت صدر کو حاصل تھا لیکن صدر اسکندر مرزا کی طرف سے اس اختیار کو غلط مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے جواب میں 1973ء کے آئین میں وزیراعظم کے چنائو میں صدرِ مملکت کے کردار کو بالکل ختم کر دیا گیا تھا اور یہ اختیار یعنی وزیراعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کے حوالے کر دیا گیا۔
آزادی حاصل کرنے کے بعد بھارت میں 26 جنوری 1950ء کو آئین نافذ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت سے اب تک بھارت کے 15 صدور منتخب ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے ہر ایک کی نامزدگی کے پیچھے حکمران پارٹی کے اپنے سیاسی مقاصد کارفرما ہوتے ہیں لیکن پاکستان کے برعکس بھارت کے تقریباً تمام صدور قومی ترقی کے کسی نہ کسی شعبے میں نمایاں اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ خدمات سرانجام دینے والی شخصیات رہی ہیں‘ مثلاً بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک سرگرم رکن اور بلند پایہ وکیل تھے۔ ان کے جانشیں ڈاکٹر رادھا کرشن عالمی شہرت یافتہ فلاسفر تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور بھارت کے تعلیمی نظام کو نئے سرے سے ترتیب دے کر شہرت حاصل کی۔ ان کی ان خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ 'بھارت رتنا‘ دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالکلام کی نامزدگی کے پیچھے بی جے پی کے جو بھی سیاسی مقاصد ہوں‘ ان سے قطع نظر ڈاکٹر عبدالکلام ایک بلند پایہ سائنس دان تھے اور انہیں بھارت کا میزائل مین بھی کہا جاتا تھا۔