"DRA" (space) message & send to 7575

یوکرین میں امریکہ کی حکمت عملی ناکام

یوکرین میں جنگ کو چھڑے تقریباً چھ ماہ ہونے کو ہیں۔ کتنا عرصہ اور جاری رہے گی‘ اس کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ کیونکہ فرانس‘ ترکی بلکہ چین کی طرف سے اس جنگ کو بات چیت کے ذریعے ختم کرنے کی جو کوششیں کی گئی تھیں‘ کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس کے بجائے جنگ میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ فریقین کتنا نقصان اٹھا چکے ہیں‘ اس کی تصویر بھی واضح نہیں کیونکہ ہر دو اطراف سے متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔ البتہ زیادہ نقصان یوکرین کا ہوا ہے۔ امریکہ اور نیٹو کے رکن ممالک کی طرف سے بھاری جنگی ساز و سامان فراہم کرنے کے باوجود یوکرین نہ تو اپنے شہروں پر روسی فضائی اور زمینی حملوں کو روک سکا ہے اور نہ اپنے علاقوں کو روسی قبضے سے چھڑا سکا ہے بلکہ کچھ ماہرین کی رائے میں یوکرین یہ جنگ ہار چکا ہے۔ اب مقابلہ امریکہ اور روس کے درمیان ہے اور بدقسمتی سے اس کی قیمت یوکرین کو چکانا پڑ رہی ہے‘ لیکن چھ ماہ کے قریب عرصہ گزر جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے اس جنگ میں یوکرین کی پشت پناہی کا فیصلہ کرتے وقت جو اہداف متعین کیے تھے‘ ان کے حصول میں وہ بری طرح ناکام رہا ہے مثلاً یوکرین پر حملے کے ساتھ ہی امریکہ نے روس پر اقتصادی پابندیوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ان پابندیوں میں روس سے تیل اور گیس کی خریداری پر پابندی بھی شامل تھی۔
چونکہ روس کی گیس اور تیل کے سب سے بڑے خریدار یورپی ممالک (خصوصاً جرمنی) ہیں‘ اس لیے امریکہ نے مغربی اور وسطی یورپ کے ممالک کو ساتھ ملا کر روس کی گیس اور تیل کی خریداری پر پابندی عائد کر دی۔ روس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار اس کی گیس اور تیل کی فروخت پر ہے اس لیے امریکہ کا خیال تھا کہ اس کی فروخت کے بند ہونے سے اس کی معیشت بیٹھ جائے گی لیکن چین نے روس سے تیل اور گیس کی خریداری کا ایک بہت بڑا معاہدہ کرکے‘ روسی معیشت کو متاثر ہونے سے بچا لیا۔امریکی دباؤ کے باوجود کئی اور ملکوں نے بھی روس سے تیل کی خریداری جاری رکھی‘ ان میں بھارت کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جس نے نہ صرف روس سے خام تیل کی خریداری جاری رکھی بلکہ فضائی دفاع کے روسی نظام S-400 کی خریداری کا معاہدہ بھی برقرار رکھا۔ بھارت کے خلاف امریکہ کو اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے بجائے اسے امریکی قوانین کے نفاذ سے استثنا دینا پڑا کیونکہ ایشیا پیسفک خطے میں چین کے ابھرتے ہوئے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ نے بھارت کو اپنا سٹریٹیجک پارٹنر بنا رکھا ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے‘ مگر اس نے بھی روس سے گیس خریدنے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔امریکی اقتصادی پابندیوں کا مقصد نہ صرف روس کی معیشت کو مفلوج کرنا تھا بلکہ صدر جوبائیڈن کی حکومت روس کو یوکرین میں جارح قرار دے کر اسے پوری دنیا میں بالکل اسی طرح الگ تھلک کرنا چاہتی تھی جس طرح 1978ء میں افغانستان پر حملے کے بعد سوویت یونین کو عالمی برادری میں تنہا کر دیا تھا‘ مگر افغانستان کا کیس مختلف تھا۔ افغانستان ایک آزاد‘ خود مختار‘ غیر جانبدار مسلم ملک تھا‘ جس میں سوویت یونین نے بلا کسی اشتعال کے فوجیں داخل کر دی تھیں۔ اس کے خلاف سخت رد عمل ظاہر کرنے میں مغربی اور غیرجانبدار ایشیائی افریقی ممالک کے علاوہ تقریباً تمام مسلم ممالک بھی شامل تھے‘ حتیٰ کہ چین بھی سوویت یونین کے اس اقدام کے خلاف تھا۔
1979ء کے بعد ہر سال جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان کی صورتحال پر بحث ہوتی تھی تو بھارت‘ بھوٹان اور چند دیگر ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ کے ممبران کی بھاری تعداد سخت الفاظ میں ایک قرارداد کے ذریعے افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کی غیرمشروط اور فوری واپسی کا مطالبہ کرتی تھی‘ لیکن یوکرین کے مسئلے پر امریکہ روس کے خلاف عالمی رائے عامہ کو اس سطح پر موبلائز نہیں کر سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا روس کو یوکرین جنگ کا واحد ذمہ دار ملک نہیں سمجھتی بلکہ اس میں امریکہ کو بھی برابر کا قصوروار سمجھتی ہے کیونکہ 1991ء میں سوویت یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد امریکہ یوکرین کو روس کے مقابلے میں عسکری لحاظ سے مضبوط کرنے کے علاوہ اسے نیٹو میں بھی شامل کرنا چاہتا تھا۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اس پر امریکہ کو بار بار خبردار کیا تھا کہ روس مغربی دفاعی معاہدے‘ نیٹو کی روس کی سرحدوں تک توسیع کو برداشت نہیں کرے گا لیکن سابق صدر جارج ڈبلیو بش سے لے کر موجودہ صدر جو بائیڈن تک‘ امریکہ کی تمام حکومتیں یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنا چاہتی تھیں تاکہ بحیرہ اسود‘ جہاں روس کا بحری بیڑہ مقیم ہے‘ کے راستے روس کے بحر روم میں داخل ہو کر مشرق وسطیٰ پر اثر انداز ہونے کا خطرہ دور کیا جا سکے‘ لیکن روس کیلئے بحیرہ اسود اس لیے انتہائی اہم ہے کہ اس سے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ نہر سویز کے مشرق میں واقع تمام ممالک کے ساتھ روس کے رابطوں کا سلسلہ قائم ہے اور روس کسی قیمت پر بحیرہ اسود کو اپنی مخالف قوتوں کے زیر اثر برداشت نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب یوکرین میں امریکہ کے ایما پر روس مخالف سرگرمیوں نے زور پکڑا تو روس نے سب سے پہلے 2014ء میں کریمیا پر قبضہ کرکے اسے روس کا حصہ قرار دے دیا اور پھر یوکرین کی نیٹو میں شمولیت تقریباً یقینی دیکھ کر فروری 2022ء میں اپنی فوجیں یوکرین میں داخل کر دیں۔
یوکرین پر حملے کے بعد روسی صدر کو امید تھی کہ اس کی فوجیں تیزی سے آگے بڑھ کر یوکرین کے بڑے بڑے شہروں پر قبضہ کرکے دارالحکومت کیف کا محاصرہ کر لیں گی اور اس کے نتیجے میں روس مخالف صدر ولودومیر زیلنسکی کی حکومت کے خلاف بغاوت ہو جائے گی لیکن صدر پوتن کی یہ توقعات پوری نہ ہو سکیں اور یوکرینی فوجوں‘ جنہیں امریکہ اور نیٹو جدید ترین اسلحہ اور ہتھیار فراہم کر رہے تھے‘ کی سخت مزاحمت کے باعث روسی فوجوں کی پیش قدمی رک گئی‘ جنگ طویل ہو گئی اور اس کے ساتھ فریقین کیلئے مہنگی بھی۔
دوسری طرف امریکہ نے روس کو عالمی برادری سے الگ تھلگ کرکے یوکرین کی جنگ کو 1930ء میں سپین کی خانہ جنگی کی طرح اسے بین الاقوامی ایشو بنانے کی جو کوشش کی تھی‘ وہ بری طرح ناکام رہی‘ مگر دونوں طرف ہار تسلیم کرنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ روس یوکرین میں اپنے مقرر کردہ اہداف حاصل کیے بغیر جنگ روکنے پر آمادہ نہیں اور یوکرین‘ جس کی دفاعی قوت اب مکمل طور پر امریکہ اور نیٹو کے ہتھیاروں پر انحصار کرتی ہے‘ روس کے ساتھ مذاکرات پر تیار نہیں اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ یوکرین میں جنگ جاری رہے گی البتہ اس کی شدت میں کبھی کمی اور کبھی تیزی آ سکتی ہے۔ اس کے خاتمے کا صرف ایک راستہ ہے جو امریکہ اختیار کرنے پر تیار نہیں‘ اور وہ یہ ہے کہ امریکہ یوکرین کو نیٹو میں شامل نہ کرنے کی یقین دہانی کرائے۔ اس پر جنگ فوراً بند ہو جائے گی‘ مگر امریکہ اس پر آمادہ نہیں بلکہ وہ سویڈن اور فن لینڈ‘ جو برسہا برس سے غیر جانبدار خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے تھے‘ کو بھی نیٹو میں شامل کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ صدر بائیڈن روسی حملے کے خلاف صدر زیلنسکی کی حکومت کو جدید ترین ہتھیار فراہم کر کے روس کو یوکرین میں اپنے اہداف کے حصول میں ناکام کرکے افغانستان سے امریکہ کی شرمناک پسپائی کا داغ دھونا چاہتے ہیں‘ مگر یوکرین کی جنگ نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر دنیا کے کمزور معیشت والے ممالک بری طرح زیر بار آ چکے ہیں کیونکہ اس سے دنیا میں تیل اور گیس کی سپلائی کا مسئلہ شدید ہوتا جا رہا ہے‘ خوراک کی قلت پیدا ہو رہی ہے اور ہر ملک میں مہنگائی اور افراطِ زر کا طوفان اٹھ رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یورپی ممالک جو امریکہ کی روس دشمن پالیسی کے تحت اس سے تیل اور گیس نہ خریدنے پر مجبور ہوئے‘ اس بحران کے نقصان دہ اثرات کو کتنا عرصہ برداشت کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں