سرد جنگ کے گرم ترین دنوں میں تخفیفِ اسلحہ (Disarmament) ایک اہم بین الاقوامی مسئلہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ باہمی چپقلش میں ملوث دو سپر پاورز‘ سوویت یونین (موجودہ روس) اور امریکہ نے ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کیلئے روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگا رکھے تھے۔ ان کے درمیان حادثاتی طور پر معمولی سا تصادم عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا تھا۔ چونکہ ان دونوں ملکوں کے پاس ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل بھی موجود تھے‘ اس لیے ساری دنیا اس ممکنہ ہولناک جنگ کے نتائج سے خوفزدہ تھی اور اس کی طرف سے ان بڑی طاقتوں پر ہتھیاروں کی دوڑ کی رفتار کوکم کرنے کیلئے زبردست دباؤ تھا۔ اسی دباؤ کی وجہ سے بڑی طاقتیں بھی تخفیفِ اسلحہ کی حمایت کرنے پر مجبور ہو گئیں لیکن عملی طور پر ان میں سے کوئی بھی مطلوبہ اقدام کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ (مغربی) جرمنی کے چانسلر (1974-1982ء) ہیلمٹ شمٹ (Helmut Schmidt) نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر کوئی تخفیفِ اسلحہ کی بات کرتا ہے مگر کوئی ملک بھی عملی قدم نہیں اٹھاتا۔ تقریباً یہی صورتحال آج کل پاکستان میں ''قانون کی بالا دستی‘‘ پر بحث نے پیدا کر دی ہے۔ 'قانون کی بالا دستی‘ کیا ہے؟ اس موضوع پر لائبریریوں میں کتابیں بھری پڑی ہیں۔ سیاسیات اور قانون کے طلبہ کے تدریسی کورسز میں قانون کی بالا دستی اورپُرامن معاشرے کیلئے اس کی اہمیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اس موضوع پر آگاہی پھیلانے کیلئے سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ اخبارات میں مضامین لکھے جاتے ہیں اور ہر سیاسی اور انتخابی جلسے میں مقررین حضرات قانون کی بالا دستی کے حق میں جوش سے بھری تقریریں کرتے ہیں مگر موقع ملتے ہی قانون کی خلاف ورزی کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ یہی روش عام شہریوں کی ہے۔ اسے ہم روزانہ سڑکوں اور شاہراہوں پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ اب عام شہری قانون کی پابندی کو فرض نہیں بلکہ اس کی خلاف ورزی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس طرزِ عمل کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قانون کی بالا دستی کے حق میں باتیں تو بہت کی جاتی ہیں مگر اس کے نفاذ اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت تادیبی کارروائی کا واضح فقدان ہے۔
اب تک ان لوگوں کی بڑی تعداد وفات پا چکی ہے جنہوں نے انگریزوں کا دور دیکھا تھا۔ وہ مرتے دم تک اس میں قانون کی حکمرانی اور اس کے نفاذ کی تعریف کرتے رہے۔ 14 اگست 1947ء بے شک ہماری زندگیوں میں اہم ترین دن ہے چونکہ ہم غلامی کے دور سے آزادی کے دور میں داخل ہوئے تھے‘ جس کے مقابلے میں کسی بھی نعمت کی کوئی اہمیت نہیں‘ مگر برصغیر میں نوآبادیاتی حکمرانوں کی چھوڑی ہوئی میراث میں جو ادارے ابھی تک معاشرتی انصاف اور استحکام کی ضمانت مہیا کرتے ہیں‘ ان میں قانون کی حکمرانی کا تصور اور اس کے عملی نفاذ کیلئے آزاد عدلیہ کا قیام شامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ دنیا کا شاید ہی ایسا کوئی ملک ہو جس کے آئین میں عدلیہ کے ڈھانچے اور اس کے اختیارات کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔بھارت پر بشمول انگریز‘ باہر سے آنے والی متعدد قوموں نے مختلف مدتوں کیلئے حکومت کی۔ ان میں انگریزوں کا دور سب سے مختصر تھا لیکن اس کے باوجود جنوبی ایشیا میں زندگی کے ہر شعبے‘ خواہ اس کا تعلق حکومت کے ڈھانچے‘ نظام تعلیم‘ لباس‘ معیشت‘ صحت‘ زراعت‘ آب پاشی اور انفراسٹرکچر سے ہو‘ جتنا گہرا اثر انگریزوں کی طرزِ حکمرانی نے چھوڑا ہے‘ اس کا کسی اور قوم کے اثر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا‘ اور اس میں جن اداروں نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے وہ ایک آزاد عدلیہ ہے۔ انگریز دور میں آزاد عدلیہ کا کیا معیار تھا اور اس کو کیسے قائم رکھا جاتا تھا؟ اس کو بیان کرنے کیلئے انگریز دور کے ایک واقعہ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یہ کہانی مجھے میرے ایک وکیل دوست نے سنائی تھی اور وہ یوں ہے کہ تقسیم سے قبل لاہور میں ایک ہندو وکیل‘مسٹر رائے‘ قانون پر اپنی گرفت اور قابلیت کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ مسٹر رائے اور لاہور ہائیکورٹ کے انگریز چیف جسٹس تقریباً ہر روز جم خانہ میں ٹینس کھیلتے تھے اور دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔ انہی دنوں خبریں گرم تھیں کہ لاہور ہائیکورٹ میں نئے جج صاحبان کی تقرری کیلئے چیف جسٹس مناسب امیدواروں کی فہرست بنانے میں مصروف ہیں۔ مسٹر رائے کو ان کے قریبی ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ آپ روزانہ چیف جسٹس صاحب سے ملتے ہیں‘ اکٹھے ٹینس کھیلتے ہیں اور آپس میں بے تکلفی بھی ہے۔ آپ کیوں اپنے آپ کو ہائیکورٹ کے جج کے امیدوار کی حیثیت سے چیف جسٹس کے سامنے پیش نہیں کرتے؟ اپنے دوستوں کی رائے سے مغلوب ہو کر مسٹر رائے نے ایسا ہی کیا۔ اگلے دن صبح انگریز چیف جسٹس جب اپنے دفتر میں داخل ہوئے اور اپنے سیکرٹری سے امیدوار جج صاحبان کی فہرست منگوائی تو اس میں مسٹر رائے کا نام بھی تھا‘ مگر انہوں نے اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ مسٹر رائے کا نام اس فہرست سے نکال دیا جائے۔ اعلیٰ عدالتوں میں جج صاحبان کی تقرری میں جو اصول کارفرما تھا وہ یہ تھا کہ اس کا فیصلہ خواہش یا درخواست کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا تھا۔ انگریزوں یا دیگر مغربی قوموں نے یہ معیار ایک دو دہائیوں یا چند برسوں کے تجربے کے بعد اختیار نہیں کیا تھا بلکہ اس کے پیچھے دو ہزار سال سے زیادہ عرصے کے دوران مختلف حالات اور تجربات سے حاصل کردہ انسانی معاشرے کا اجتماعی شعور تھا۔ انسانی معاشرے کے تجربے سے حاصل کردہ شعور کا دوسرا نام ''قانون‘‘ ہے‘ جس کے بارے میں ڈھائی ہزار سال پہلے قدیم یونان کے فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ معاشرے کے فرد کی حیثیت سے انسان اشرف المخلوقات کا مقام صرف قانون کی پابندی سے حاصل کرتا ہے۔ اگر اسے قانون کی پابندیوں سے آزاد کر دیا جائے تو وہ ایک درندے سے بھی بد تر ثابت ہو گا۔
ہمارے ہاں یہ باتیں کتابوں میں تو محفوظ ہیں لیکن عملی طور پر کہیں متحرک نظر نہیں آتیں۔ اس کی بڑی وجہ قوانین کی کمی نہیں بلکہ ان کے نفاذ میں ناکامی ہے۔ ہمارے ہاں قانون سازی کیلئے اسمبلیاں موجود ہیں مگر ان قوانین کے سختی سے نفاذ کا کوئی مستقل میکانزم نہیں اور نہ ہی اس کی روایت قائم کی گئی ہے نتیجتاًلوگوں کے دلوں سے قانون کی خلاف ورزی کا ڈر اور خوف ختم ہو گیا ہے۔ کسی ملک کا بنیادی اور سب سے اعلیٰ قانون آئین ہوتا ہے‘ لیکن پاکستان میں ایک نہیں چار دفعہ آئین کو منسوخ یا اس کی صورت کو مسخ کیا گیا‘ لیکن آئین کے تحفظ اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے والے ادارے نہ صرف خاموش رہے بلکہ آئین شکنی کے ان اقدام میں تعاون کرتے رہے۔ 1956ء کے آئین کی منسوخی اور مارشل لاء کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ آئین نو برس کی محنت کے بعد تشکیل دیا گیا تھا اور دنیا میں آبادی کے دو گروپوں‘ جن کے درمیان نہ صرف ایک ہزار میل سے زیادہ مخالف ملک سے گزرتا ہوا فاصلہ تھا بلکہ مذہب کے علاوہ کوئی اور سماجی اور ثقافتی قدر مشترک نہیں تھی‘ کو ایک قوم بنانے کی واحد مثال تھا۔ اس آئین کو ایسے منسوخ کیا گیا جیسے چھری سے کیک کاٹا جاتا ہے۔ اگر 1956ء کے آئین کی تنسیخ پر خاموشی اختیار نہ کی جاتی تو بعد ازاں ملک میں آئین کو لپیٹنے کی روایت نہ پڑتی۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران آئین اور قانون کی انہی خلاف ورزیوں کے سلسلے کا نتیجہ ہے‘ جس کا آغاز 1956ء بلکہ اس سے قبل 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے پہلی آئین ساز اسمبلی کو توڑنے سے ہوا تھا۔