پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے گوجرانوالہ میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے خلاف گزشتہ تقریباً پانچ ماہ سے جاری جدوجہد کے ایک مرحلے کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے پارٹی کارکنوں اور خاص طور پر اپنی جماعت کے حامی نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کے خلاف جدوجہد کے اگلے مرحلے کیلئے تیار رہیں‘ جس کا مقصد فوری طور پر صاف اور شفاف انتخابات کروانا ہے۔ اگر حکومت اس پر راضی نہ ہوئی تو انہوں نے متنبہ کیا کہ وہ سڑکوں پر آ کر زبردستی انتخابات کروائیں گے۔عمران خان کے اس اعلان کے جواب میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضح کر دیا کہ انتخابات وقتِ مقررہ یعنی 2023ء میں ہوں گے اور کسی کو قانون ہاتھ میں لے کر من مرضی نہیں کرنے دیں گے۔ وزیر دفاع سے پہلے‘ وفاقی حکومت کے ترجمان اور دیگر رہنما بھی فوری انتخابات کے امکان کو رَد کر چکے ہیں۔ حکومت کے علاوہ غیر جانبدار مبصرین بھی سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر انتخابات کے انعقاد کو ناممکن قرار دے چکے ہیں۔ اس کا ثبوت ستمبر میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے چند حلقوں میں پولنگ موخر کرنے کا فیصلہ تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے 11 ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری اور انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے سے متعلق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نوٹی فکیشنز کو معطل کر کے الیکشن کمیشن سمیت فریقین کو نوٹس جاری کر کے 27 ستمبر تک جواب طلب کر لیا ہے جس سے صورتحال میں ایک بالکل نئی تبدیلی آ چکی ہے۔ اکثر تبصرہ نگاروں کی رائے ہے کہ عمران خان خود اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ وہ سڑکوں پر آ کر زبردستی انتخابات نہیں کروا سکتے‘ ان کی جدوجہد کا ایک مقصد اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کرنا ہے اور اس کے لیے وہ اداروں خصوصاً الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔
توہینِ عدالت اور توہینِ الیکشن کمیشن کے مقدمے کے علاوہ الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فنڈنگ کیس اور دہشت گردی کے الزام میں بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین کے خلاف کیس زیر سماعت ہیں۔ سیاستدانوں کے خلاف مقدمات کوئی نئی بات نہیں۔ عمران خان اس سے پہلے 2014ء کے دھرنے کے دوران بھی دہشت گردی جیسے مقدمات کا سامنا کر چکے ہیں‘ تاہم موجودہ صورتحال مختلف ہے۔ اس وقت عمران خان کو حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ اداروں کی جانب سے لیگل چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان اداروں کو حکومت کے برعکس پی ٹی آئی کے ساتھ سیاست میں حساب کتاب برابر کرنا مقصود نہیں بلکہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں آئین و قانون کی پاسداری ہو۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق خاں صاحب اب بھی منظورِ نظر ہیں۔ اس بات کی تائید میں ثبوت تلاش کرنے کیلئے دور جانے کی ضرورت نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار کھونے کے بعد خان صاحب نے پنجاب میں جن جلسوں سے خطاب کا سلسلہ شروع کیا تھا‘ ان میں سے ایک جلسے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کھلے عام مسلم لیگ (ن)پر ایسے الزامات عائد کیے تھے جن پر کوئی ردِ عمل سامنے نہ آیا۔ 25 مئی کے لانگ مارچ کے دوران‘ اگلے دن اسلام آباد پہنچ کر خان صاحب نے اپنے حامیوں کو پریڈ گراؤنڈ میں روکنے کے بجائے ڈی چوک کی طرف جانے کا اشارہ دے کر بادی النظر میں قانون کی خلاف ورزی کی تھی مگر اُن سے کوئی باز پرس نہ ہوئی۔ الیکشن کمیشن کو ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے میں آٹھ سال لگے اور اس دوران تین چیف الیکشن کمشنرز کی نگرانی میں تحقیقات ہوتی رہیں‘ مگر خان صاحب صرف موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو ٹارگٹ کر رہے ہیں‘ حالانکہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو خود خان صاحب کے دورِ حکومت میں تعینات کیا گیا تھا اور پی ٹی آئی کے چیئرمین اکثر مواقع پر ان کی ذہانت‘ غیر جانبداری اور قابلیت کی تعریف کر چکے ہیں۔اداروں کی جانب سے نرم رویے کی وجہ سے خان صاحب اور پی ٹی آئی کے دیگر قائدین شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ توہین عدالت کیس میں خان صاحب کو سزا نہیں دی جائے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ توہین عدالت کیس میں کیا فیصلہ کرتی ہے‘ یہ عدالت کا صوابدیدی اختیار ہے۔ دوسری طرف اگر ماضی کی طرح اب بھی خان صاحب اپنی مقبولیت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں تو اس سے ایک مخصوص لابی کے حامیوں کو اپنے بیانیے کو کامیاب کروانے کا حوصلہ ملے گا۔
جب سے ملک میں سیاسی بحران شروع ہوا ہے شمالی علاقوں میں دہشت گردوں نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ یہ عناصر اس گھڑی کا انتظار کر رہے ہیں جب حالات پر حکومت کی گرفت کمزور پڑ جائے اور وہ اپنے عزائم کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو دور کر سکیں۔ جہاں تک عمران خان کے اس عزم کا تعلق ہے کہ وہ اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لا کر زبردستی انتخابات کروا سکتے ہیں‘ تو اس بارے اگر کوئی خوش فہمی ہے تو اسے دور ہو جانا چاہیے۔ خان صاحب کے سامنے 25مئی کا تجربہ موجود ہے۔ اس وقت ان کی اپیل کا دائرہ موجودہ اپیل سے کہیں بڑا تھا۔ خان صاحب نے 25 مئی کی ریلی میں صرف اپنی پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو ہی شامل ہونے کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ ریٹائرڈ اور حاضر سروس سرکاری ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ اور موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ خان صاحب کو امید تھی کہ مئی کی گرمی اور سفر کی طوالت کے باوجود یہ تمام لوگ ان کی کال پر لبیک کہیں گے کیونکہ وہ ان سب کو یقین دلا رہے تھے کہ وہ سیاست نہیں کر رہے‘ اور نہ ہی کسی ایک پارٹی کے حق میں یہ تحریک چلا رہے ہیں‘ بلکہ یہ حقیقی آزادی کی تحریک پوری قوم کے لیے ہے۔ اس لیے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر پاکستان کے تمام عوام کو ان کا ساتھ دینا چاہیے‘ کیونکہ وہ حق پر ہیں اور ان کے مخالفین باطل کی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن خان صاحب کو جلد معلوم ہو گیا کہ جلسوں میں شرکت اور لانگ مارچ میں شمولیت میں بہت فرق ہے۔
اس دفعہ بھی انہوں نے اپنے حالیہ جلسوں میں حاضرین کی بدستور بڑی تعداد کو مدنظر رکھ کر سڑکوں پر آنے کی کال دی ہے‘ اور چونکہ 25مئی کے برعکس اس دفعہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ان کے کنٹرول میں ہے‘ اس لیے وہ بظاہر اپنی ''حقیقی آزادی کی تحریک‘‘ کی کامیابی پر زیادہ مطمئن نظر آتے ہیں۔ ایک بات اور بھی ہے‘ گوجوانوالہ کے جلسے میں عمران خان نے اپنی جماعت کے نوجوانوں سے کہا کہ آپ لوگ تیار ہو جائیں۔ میں نے آپ سے خاص کام لینا ہے۔ بس میری کال کا انتظار کریں۔ ان اشاروں اور کلمات سے یہ نتیجہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ عمران خان اپنی حقیقی آزادی کے تازہ فیز میں نوجوانوں کو اول دستے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے وہ دراصل اس خطرے کی طرف حکام بالا کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں‘ جس کا وہ اس سے پہلے کئی بار سری لنکا کے حالیہ واقعات کے تناظر میں ذکر کر چکے ہیں‘ مگر خان صاحب کو کون سمجھائے کہ پاکستان سری لنکا نہیں ہے۔