"DRA" (space) message & send to 7575

عمران خان پر قاتلانہ حملہ اور قومی سیاست

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی قیادت میں لانگ مارچ کا جب 28 اکتوبر کو لاہور سے اسلام آباد کیلئے براستہ جی ٹی روڈ آغاز ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آدھے سے بھی کم سفر (صرف 105 کلومیٹر) کے بعد وزیر آباد کے مقام پر اس کو روکنا پڑے گا۔ اس اقدام کی وجہ جیسا کہ سب کو معلوم ہے مسلح حملہ ہے جس کا نشانہ عمران خان تھے۔ اگرچہ ٹانگ میں گولی لگنے سے وہ زخمی ہوئے مگر خوش قسمتی سے جان بچ گئی اور حملہ آور اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کا قاتلانہ حملے میں محفوظ رہنا‘ حملہ آور کا موقع پر ہی گرفتار ہونا اور اس کا بیان منظر عام پر آنا‘ اس انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت واقعہ کے دو ایسے پہلو ہیں جنہوں نے ملک کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ حملہ آور کی گرفتاری اور اس کے بیان سے بہت سی بے بنیاد اور اشتعال انگیز قیاس آرائیوں اور افواہوں کا امکان ختم ہو گیا کیونکہ مرکزی ملزم کے علاوہ اس کے دو ساتھی بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔ ان سے تفتیش کے بعد اس واقعہ کے بارے میں مزید حقائق سامنے آئیں گے ۔
سابق وزیر اعظم پر یہ حملہ صوبہ پنجاب کی حدود میں کیا گیا ہے۔ لاہور سے روانہ ہونے والے لانگ مارچ کی سکیورٹی کی ذمہ داری حکومت پنجاب کی تھی اور اطلاعات کے مطابق وزیر آباد تک پنجاب پولیس کی ایک بڑی تعداد اس فرض کی ادائیگی پر مامور تھی؛ تاہم کنٹینر پر عمران خان کی سکیورٹی پر پولیس کے بجائے عمران خان کے پرائیویٹ گارڈز تعینات تھے۔ پنجاب میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت ہے اس لئے لانگ مارچ کی حفاظت کیلئے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ میڈیا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پولیس کنٹینر پر سوار عمران خان کی سکیورٹی کو بلٹ پروف شیلڈ اور بلٹ پروف روسٹرم نصب کرکے مزید مضبوط کرنا چاہتی تھی مگر اس سے پہلے کہ یہ حفاظتی اقدامات کیے جاتے حملہ آور نے اپنا کام کر دکھایا۔ حملے کی خبر پاتے ہی تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے آنے والا ردعمل نہ صرف قابل فہم بلکہ ناگزیر ہے‘ مگر اس کے نتیجے میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے‘ جیسا کہ گورنر ہاؤس لاہور کے گیٹ کو نذرِ آتش کرنے اور دیگر شہروں میں مظاہرے اور نعرے بازی کرنے سے احتراز کیا جا نا چاہیے تھا۔ اگر پی ٹی آئی کی قیادت‘ بشمول اس کے چیئرمین عمران خان‘ اپنے کارکنوں کو اپنے جذبات پر کنٹرول کرنے اور بلا ضرورت اشتعال انگیزی سے باز رہنے کی تلقین کرتے تو ایسا ممکن تھا۔ عمران خان کے بعد دوسری سطح کی پی ٹی آئی قیادت نے اپنی تقریروں کے ذریعے کارکنوں کو نہ صرف پورے ملک میں بھرپور احتجاج کی تلقین کی بلکہ بدلہ لینے پر اکسایا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں‘ لیکن واقعہ کے اگلے روز عمران خان نے لاہور میں شوکت خانم ہسپتال سے جاری کردہ بیان میں وزیر اعظم شہباز شریف‘ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر کو اپنے اوپر حملے کا ذمہ دار قرار دے کر ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی جو نہ صرف خود عمران خان بلکہ ملک کیلئے بھی خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ فوج کے ایک سینئر افسر پر الزام عائد کرنے اور ایف آئی آر کے مطالبے کے جواب میں پاک فوج کی طرف سے بھی سخت رد عمل آیا ہے جس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کے الزامات کو بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ فوج اور اس کے اداروں کو بدنام کرنے کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے اس قسم کی کارروائی کیلئے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے کیونکہ آئین میں فوج کی ساکھ کو خراب کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
دوسری طرف وفاقی وزارت داخلہ کی درخواست پر سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف 25 مئی کے مارچ کے معاملے پر توہین عدالت کی کارروائی کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی پر الزام ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلام آباد میں 25 مئی کو جلسہ کیلئے مجوزہ جگہ سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ڈی چوک کی طرف بڑھنے کی ہدایت کی جو کہ سپریم کورٹ کو ان کے وکلا کے ذریعے کرائی گئی یقین دہانی کے بالکل خلاف تھی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے تحت عمران خان کی بطور رکن قومی اسمبلی نااہلیت کی بنیاد پر لاہور ہائی کورٹ میں بھی ایک پٹیشن پر سماعت ہونے جا رہی ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے تفتیش کا آغاز اس کے علاوہ ہے۔
عمران خان نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی پیش قدمی پھر شروع کر دی ہے اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ملک کے ہر شہر میں احتجاج جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ تینوں افراد (جن کو عمران خان نے قاتلانہ حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے) اپنے عہدوں سے مستعفی نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ لانگ مارچ میں قدرے ٹھہراؤ کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی جاری رہے گی۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوں گی۔ کہیں جھڑپیں معمولی نوعیت کی ہو سکتی ہیں‘ کہیں شدید ہو کر تصادم کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہیں۔ دونوں طرف لوگ زخمی بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف الزام بازی اور سوشل میڈیا پر جعلی خبروں اور ویڈیوز کے ذریعے ایک دوسرے کو بدنام کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ اگرچہ عمران خان پر قاتلانہ حملے نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ملک بھر میں ایک نئے اور جارحانہ انداز کے ساتھ متحرک ہونے کا موقع فراہم کیا ہے اور عمران خان نے بھی لانگ مارچ کو اسلام آباد کی طرف شروع کرنے کے ارادے کا اعلان کیا ہے لیکن بہت سے مبصرین کے مطابق شاید اس کی نوبت نہ آ سکے یا اس کی ضرورت نہ پڑیـ کیونکہ لانگ مارچ کی معطلی کے بعد پیدا ہونے والے وقفہ میں بیک چینل رابطوں کا بھی امکان ہے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے حملے کے دوسرے دن شوکت خانم ہسپتال میں عمران خان کی عیادت میں تین گھنٹے گزارے ‘ جس کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی حیثیت سے تمام سٹیک ہولڈرز کو جمہوری اصولوں کی بنیاد پر مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان سے سپریم کورٹ کے ایک فل کورٹ کمیشن کے ذریعے حملے کی تحقیقات کی درخواست کی ہے۔ وزیر اعظم نے صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے کیس کو بھی اس کمیشن کے دائرے میں لانے کی درخواست کی ہے کیونکہ ان کا (وزیر اعظم) کا خیال ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر تحقیقات اور حقائق کے اعلان کے بغیر افواہوں‘ گمراہ کن خبروں اور جعلی آڈیوز اور ویڈیوز کے طوفان بدتمیزی کا سلسلہ بند نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے عمران خان کی براہ راست اور ریکارڈڈ تقریروں پر پابندی کا نوٹیفکیشن بھی معطل کر دیا ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کے ساتھ حکومت کے ارکان کا بھی سینیٹر اعظم سواتی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات اور کارروائی کا مطالبہ کرنے سے بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کیلئے فضا سازگار ہو سکتی ہے‘ لیکن پی ٹی آئی خصوصاً عمران خان ابھی تک اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ وہ اس ''امپورٹڈ حکومت‘‘ کو نہ کبھی قبول کریں گے اور نہ اس کے ساتھ مذاکرات کیلئے ایک میز پر بیٹھیں گے۔ پاکستان کے سیاسی افق پر چھائے ہوئے سیاہ بادلوں کے چھٹ جانے سے اگر کوئی روشنی کی ہلکی سی کرن نمودار ہوتی ہے تو وہ بھی جلد ہی معدوم ہو جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں