جنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جتنا آسان اسے شروع کرنا ہے‘ اتنا ہی مشکل اسے ختم کرنا ہوتا ہے۔ یہی سکہ بند اصول یوکرین کی جنگ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ 24 فروری 2022ء کو جب روس نے اپنی فوجیں یوکرین میں داخل کیں تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سابقہ سوویت یونین کے اس حصے میں اس کی یہ حالت ہو جائے گی کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا۔ تاریخ میں لڑی جانے والی تمام جنگوں کی طرح یوکرین کی جنگ نے بھی اپنے بارے میں کی جانے والی تقریباً تمام قیاس آرائیوں اور اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے۔ یوکرین پر حملہ کرنے سے قبل روس نے اس کی سرحدوں پر کیل کانٹے سے لیس فوجوں کو مجتمع کر دیا تھا۔ امریکی صدر جو بائیڈن دہائی دے رہے تھے کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے مگر باقی دنیا جس میں امریکہ کے یورپی اتحادی ممالک بھی شامل تھے‘ کو یقین تھا کہ اس کی نوبت نہیں آئے گی اور یوکرین کی سرحدوں پر فوجوں کے اجتماع سے روس کا اصل مقصد یوکرینی صدر زیلنسکی کی حکومت پر دبائو ڈالنا تھا تاکہ وہ اپنے ملک کو نیٹو میں شامل کر کے روس کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ نہ بن سکے۔ اور اگر وہ اس کے برعکس رویہ اپناتا ہے تو یوکرین‘ جس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ابھی تک روس کا حامی ہے‘ کے ذریعے اس کا تختہ الٹ دیا جائے۔
جہاں تک روس کا تعلق ہے اس کا خیال تھا کہ یوکرین میں اس کا فوجی آپریشن اسی طرح کامیاب ہو گا جس طرح آٹھ سال قبل کریمیا پر قبضہ کرنے میں اسے بغیر کسی بڑے نقصان اور مزاحمت کے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ کریمیا پر روسی قبضہ کے خلاف امریکہ نے روس پر متعدد اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کی تھیں۔ روس کو معلوم تھا کہ یوکرین پر حملہ کرنے کی صورت میں اسے امریکہ کی طرف سے نہ صرف سخت مزاحمت بلکہ مزید اقتصادی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا‘ مگر اسے یقین تھا کہ امریکہ کے یورپی اتحادی ممالک اس کا پوری طرح ساتھ نہیں دیں گے۔ اس کی بڑی وجہ مغربی یورپ اور خصوصاً جرمنی کا روسی گیس پر تقریباً کلیتاً انحصار تھا‘ لیکن جب روسی فوجیں یوکرین میں داخل ہو گئیں تو نہ صرف یوکرینی عوام نے سخت مزاحمت کا مظاہرہ کیا بلکہ صدر زیلنسکی کی حکومت اور پالیسیوں کی پوری طرح حمایت کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک سال بعد بھی روس یوکرین میں اپنے اہداف سے بہت دور ہے۔ یوکرینی فوج کے ہاتھوں روس کے جانی نقصان‘ جس میں بے شک امریکہ اور نیٹو کے ممالک کی طرف سے مہیا کردہ ہتھیاروں کا اہم کردار ہے‘ کا نہ صرف روس کی معیشت پر بُرا اثر پڑ رہا ہے بلکہ دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی کی فوج کو شکست دینے والی ریڈ آرمی کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ روسی اندازوں کے برعکس نیٹو کے رکن یورپی ممالک نے امریکہ کا پورا ساتھ دیا‘ روس سے تیل اور گیس کی خریداری بند کر دی اور یوکرینی فوج کو روسی فوج کی پیش قدمی روکنے کیلئے بھاری ہتھیار‘ جن میں لڑاکا اور بمبار طیارے‘ ہوا میں اور زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائل‘ دور مار توپیں اور اسلحہ و گولہ بارود بھی شامل ہے‘ مہیا کیے‘ لیکن امریکہ نے یوکرین پر حملے کی صورت میں بین الاقوامی برادری سے جو توقعات وابستہ کی تھیںوہ پوری نہیں ہوئیں۔ امریکہ کو امید تھی کہ جس طرح 1979ء کے آخری دنوں میں سابق سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے خلاف عالمی برادری نے ردِ عمل کا مظاہرہ کیا تھا‘ اسی طرح یوکرین پر روسی حملے کی بھی نہ صرف عالمگیر سطح پر مذمت کی جائے گی بلکہ امریکہ کی قیادت میں روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں پر بھی عمل کیا جائے گا‘ مگر نیٹو کے یورپی ممالک اور امریکہ کے بعض قریبی اتحادی ممالک کے علاوہ کسی ملک نے امریکہ کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرینی جنگ پر روس کے خلاف مذمتی قرارداد پر ووٹنگ سے اس کا صاف پتا چل جاتا ہے۔روس کے سب سے بڑے ہمسایہ ملک اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت‘ چین نے نہ صرف یوکرین پر روسی حملے کی واضح طور پر مذمت کرنے سے احتراز کیا بلکہ روس کے ساتھ اربوں ڈالر مالیت کی گیس اور تیل کی خریداری کے معاہدات کر کے امریکہ اور نیٹو کی طرف سے روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو غیر مؤثر کرنے میں مدد فراہم کی۔ سب سے بڑھ کر سعودی عرب‘ جس نے ایران کے خلاف امریکہ کی خلیجی حکمت عملی کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی ہے اور اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے قریبی تعلقات کو قائم کرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے‘ نے بھی امریکہ کی ناراضی کی پروا کیے بغیر روس کے ساتھ تیل کی پیداوار کم کرنے پر اتفاق کیا۔
یوکرین میں جنگ کا ایک سال مکمل ہونے پر امریکہ اور یورپ کے میڈیا میں چھپنے والے تجزیوں اور تبصروں میں برملا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے اعلان کردہ اقتصادی پابندیاں یوکرین میں روسی فوج کی پیش قدمی اور اہم فوجی اور شہری ٹھکانوں پر اس کے فضائی اور زمینی حملوں کی رفتار اور ہلاکت خیزی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ عالمی سطح پہ روس اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کا ثبوت حال ہی میں افغانستان پر ماسکو میں منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس ہے‘ جس میں چین‘ ایران‘ وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ بھارت نے بھی شرکت کی حالانکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت اور امریکہ کے درمیان قریبی دفاعی اور سکیورٹی تعلقات قائم ہیں۔ امریکہ کو یوکرین کی جنگ پر اگر روس کو دنیا میں الگ تھلگ کرنے میں ناکامی ہوئی ہے تو اس پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ دنیا کو معلوم ہے کہ کریمیا پر روس کے قبضے اور یوکرین پر حملے کے خلاف امریکی ردِ عمل دراصل اس کی اس پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت1991ء میں سابقہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکہ نے روس پر مزید دبائو ڈالنے اور اسے اپنی قومی سلامتی کیلئے خطرہ ختم کرنے کیلئے شروع کی تھی۔ 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹ کر 15 آزاد ریاستوں میں بٹ گئی تھی مگر روس رقبے اور جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے نہ صرف یورپ بلکہ بحرِ اوقیانوس کے پار امریکی سکیورٹی کیلئے بدستور خطرہ بنا رہا۔ اس کے تدارک کیلئے امریکہ نے مشرقی یورپ کے سابقہ کمیونسٹ ممالک کو نیٹو میں شامل کر لیا۔ اس کا واضح مقصد روس کو انڈر پریشر رکھنا تھا مگر ولادیمیر پوتن کے ہاتھ میں روس کی باگ ڈور آنے کے بعد امریکہ روس پر مزید دبائو ڈالنا چاہتا تھا اور اس مقصد کیلئے سابقہ سوویت یونین سے الگ ہونے والی سب سے بڑی ریاست یوکرین‘ جس کی تین طرف سے روس کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں‘ کو بھی نیٹو کا رکن بنانا چاہتا تھا۔ روس نے اعلان کیا کہ وہ اپنی دہلیز پر ایٹم اور ہائیڈروجن بموں سے لیس راکٹ اور میزائل کی موجودگی برداشت نہیں کرے گا۔ جب امریکہ کی طرف سے روس کو اس کے خلاف یقین دہانی نہ کرائی جا سکی اور یوکرین کے نئے صدر زیلنسکی نے بھی یوکرین کیلئے نیٹو کی رکنیت کی حمایت کر دی تو روس نے یوکرین میں اپنی فوجیں داخل کر دیں۔ ایک سال کی خونریز جنگ کے بعد‘ جس میں ہزاروں روسی‘ یوکرینی فوجی جوانوں اور افسروں کے علاوہ بڑی تعداد میں شہری بھی ہلاک ہو چکے ہیں‘ فریقین اسے ختم کرنے میں نہیں بلکہ اسے مزید تیز کرنے میں مستعد نظر آتے ہیں۔