1947ء میں پاکستان کے قیام کی صورت میں مسلمانانِ برصغیر نے ایک علیحدہ اور آزاد ملک کے حصول میں کامیابی حاصل کی تھی مگر ان کے سامنے ایک اور جدوجہد بھی کھڑی تھی اور یہ جدوجہد جمہوریت کے لیے تھی کیونکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں ضروری تبدیلیاں کرکے جس دستاویز (انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ 1947ء) کو ملک کے عبوری آئین کی حیثیت سے اختیار کیا گیا تھا‘ اس میں اہم تبدیلیوں کے باوجود غیر جمہوری اور آمرانہ اوصاف موجود تھے اور ان میں سب سے زیادہ نمایاں گورنر جنرل کے وہ اختیارات تھے جنہیں وہ اپنی صوابدید کے مطابق ایسے شعبوں میں استعمال کر سکتا تھا جو دراصل عوامی نمائندگی کے اداروں (پارلیمنٹ اور اسمبلی) کے دائرہ اختیار میں شامل ہونا چاہیے تھے۔ مثلاً وزیراعظم اور اس کی کابینہ کی تعیناتی اور برخاستگی‘ گورنر جنرل اپنی مرضی سے کسی کو بھی وزیراعظم کے عہدے پر مقرر کر سکتا تھا اور تقرری کے وقت ایسے شخص کے لیے اسمبلی کا رکن ہونا بھی ضروری نہیں تھا اور پھر گورنر جنرل بغیر کوئی وجہ بتائے اسے عہدے سے برطرف کر سکتا تھا۔
اس غیر جمہوری اور آمرانہ اختیار کے استعمال کا کھلا مظاہرہ اپریل 1953ء میں دیکھنے میں آیا جب گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو اپنی سرکاری رہائش گاہ پر چائے پر بلا کر معزولی کا حکم سنایا حالانکہ وزیراعظم چند دن پہلے آئین ساز اسمبلی سے بجٹ منظور کروا کر اپنی حکومت پر اسمبلی کے اعتماد کا ثبوت پیش کر چکے تھے۔ اور پھر ان کی جگہ ایک ایسے شخص کو وزیراعظم مقرر کیا گیا جو نہ صرف آئین ساز اسمبلی کا رکن نہیں تھا بلکہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہا تھا اور جب اسے پاکستان بلایا گیا تو کراچی پہنچنے پر پتا چلا کہ گورنر جنرل انہیں ملک کا وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں۔
محمد علی بوگرہ 17اپریل 1953ء سے 12اگست 1955ء تک پاکستان کے وزیراعظم رہے۔ اگرچہ ان کے کارناموں میں مشرقی بنگال میں وزیراعلیٰ فضل الحق کی جمہوری اور منتخب حکومت کو معزول کرنا اور اسکندر مرزا اور ایوب خان کو مرکزی حکومت کی کابینہ میں شامل کرنا بھی شامل ہے‘ مگر ان کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد چھ ماہ کے اندر پاکستان کے پہلے دستور کا پہلا مسودہ تیار کر لیا۔
جی ڈبلیو چودھری (G. W Choudhury) کی کتاب Constitutional Development in Pakistan 1959ء میں منظرِ عام پر آئی تھی جس میں انہوں نے پچھلی ایک دہائی سے اقتدار کی راہداریوں میں جاری آئینی و قانونی معاملات کا بھرپور جائزہ لیا تھا۔ اپنی اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ آئین ساز اسمبلی میں شق وار منظوری کے بعد اس مسودے کو قائداعظم کے یومِ ولادت (25 دسمبر 1954ء) کے موقع پر نافذ کرنے کا محض رسمی اعلان باقی تھا‘ لیکن اس سے قبل 24اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی توڑ کر اس کی نوبت ہی نہ آنے دی۔
کہا جاتا ہے کہ گورنر جنرل کے اس اقدام کی پشت پر مسودۂ آئین میں ان کے خصوصی اختیارات میں کمی کی تجاویز کی شمولیت تھی۔ ان خصوصی اختیارات میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین کی تقرری اور معزولی کے صوابدیدی اختیارات بھی شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دوسری آئین ساز اسمبلی نے دستور کے مسودے پر بحث کا آغاز کیا تو اسمبلیوں کی تحلیل اور وزیراعظم/ وزرائے اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین کے بارے میں سربراہِ ریاست (صدر) کے صوابدیدی اختیارات میں کمی کر دی گئی‘ مثلاً آئین (1956ء) کے مطابق وزیراعظم کے تقرر کا اختیار صدر کے ہاتھ میں تھا مگر اس کے لیے نامزد فرد (وزیراعظم) کے لیے قومی اسمبلی کا رکن ہونے کے علاوہ ضروری تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کا اعتماد (صدر کی تسلی کے مطابق) حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
پارلیمانی نظام کی روح کے برعکس اگرچہ 1956ء کے آئین کے تحت وزیراعظم کے بجائے صدر ملک کا ایگزیکٹو ہیڈ تھا اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ (1935ء) کے تحت گورنر جنرل کو حاصل بہت سے صوابدیدی اختیارات کو نئے آئین کے تحت سربراہِ مملکت (صدر) کے ہاتھ میں رہنے دیا گیا تھا‘ مگر آزادی کے بعد سات سال (1947-54ء) ملک کے عبوری آئین کے مقابلے میں پاکستان کا پہلا آئین بہتر جمہوریت کی طرف ایک اہم قدم تھا‘ تاہم ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا (1956-58ء) نے آئین میں درج اپنے صوابدیدی اختیارات کو جس طرح آمرانہ طریقے سے استعمال کیا‘ اس کے پیش نظر سیاسی پارٹیوں میں توازنِ طاقت کو پارلیمنٹ کے حق میں شفٹ کرنے کی ضرورت کا احساس شدت کے ساتھ پیدا ہو رہا تھا۔
ایوب خان کے مارشل لاء (1958-62ء) اور اس کے بعد صدارتی نظام (1962-69ء) کے طویل دور میں جس طرح بنیادی جمہوری اصولوں اور اقدار کی پامالی کی گئی اس نے اس احساس کو ایک عوامی تحریک میں بدل دیا‘ جس کا پاکستان کے دونوں حصوں میں سب سے اہم مطالبہ پارلیمانی نظام کی بحالی تھا۔ اس مطالبے نے پارلیمانی جمہوریت پر قومی اتفاقِ رائے (Consensus) کی شکل اختیار کر لی تھی۔ 1973ء کے آئین میں اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے صوابدیدی اختیار کو ختم کرکے اس قومی اتفاقِ رائے کو نئے سیاسی (پارلیمانی) نظام کی بنیاد بنایا گیا تھا‘ مگر صدر ضیاء الحق (1977-88ء) اور ان کے بعد صدر پرویز مشرف (1999-2008ء) نے بالترتیب آٹھویں اور 17ویں آئینی ترامیم کے ذریعے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ 2010ء میں تاہم 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ اختیار مرکز میں وزیراعظم اور صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کو دے دیا گیا ہے۔
موجودہ صورتحال میں اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کی تین صورتیں ہیں۔ مرکز میں قومی اسمبلی اور صوبوں میں اسمبلیاں اپنی آئینی مدت (5 سال) مکمل ہونے کے بعد خود بخود تحلیل ہو جاتی ہیں۔ اگر مرکز میں وزیراعظم اور صوبے میں وزیراعلیٰ‘ ایوان میں اراکین کی اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھیں اور صدر اور صوبائی گورنر کی نظر میں بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے لیے کوئی بھی امیدوار لازمی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کیا جا سکتا ہے یا وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر قومی اسمبلی کو تحلیل کر سکتا ہے۔
آئینِ پاکستا ن کے آرٹیکل 58کی شق (1) کے تحت صدرِ پاکستان وزیراعظم کی ایڈوائس پر اگر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان نہ بھی کریں تب بھی 48گھنٹوں کے بعد اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں بھی آرٹیکل 112کے تحت یہی طریقہ نافذ العمل ہے۔ صرف صدر کی جگہ گورنر اور قومی اسمبلی کی جگہ صوبائی اسمبلی کے الفاظ استعمال کیے جائیں گے اور گورنر کو آرٹیکل 112شق (2) کے تحت اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرنے کے لیے صدر کی پیشگی منظوری لینا پڑے گی۔
پاکستان کے پہلے آئین (1956ء) کی تیاری سے 18ویں آئینی ترمیم (2010ء) کے تحت 1973ء کے آئین کی اس کی اصل شکل میں بحالی دراصل ملک میں پارلیمانی جمہوریت کے دفاع کی ایک طویل داستان ہے۔ اس میں مرکزی حیثیت جمہوری طریقے سے منتخب اور نمائندہ اداروں (اسمبلیوں ) کو ان کے نمائندوں کی مرضی کے خلاف اور آئین کے اصلی معنی اور روح کے برعکس کسی بھی بیرونی عنصر کے یک طرفہ فیصلے‘ مرضی‘ ضد یا دباؤ سے محفوظ رکھنے کو حاصل ہے۔ (جاری)