ملک کے موجودہ نظام کی اساسی دستاویز ''قراردادِ مقاصد‘‘ (1949ء) کے مطابق ریاست پاکستان کے اختیارات کو عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیا جائے گا۔ مرکز میں اس مقصد کیلئے پارلیمنٹ‘ صوبوں میں اسمبلیاں ایک مخصوص مدت کیلئے تشکیل دی جاتی ہیں‘ جس دوران انہیں سوائے ان حالات کے‘ جن کا آئین میں ذکر کیا گیا ہے‘ کسی بھی صورت میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں اختیارات کے استعمال سے نہیں روکا جا سکتا۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے‘ جیسا کہ ماضی میں سربراہِ مملکت کو اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت ایسا کرنے کا اختیار حاصل تھا تو اسے پارلیمانی جمہوریت کے منافی سمجھا گیا ہے جسے پاکستان کے عوام نے کبھی قبول نہیں کیا اور اس غیرجمہوری قانون کو بدلنے کیلئے جدوجہد کی ہے۔ 1956ء کے آئین کے آرٹیکل 50(1)(3)‘ 1962ء کے آئین کے آرٹیکل23اور 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 58کا اگر ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جائے تو یہ جدوجہد اپنے تمام نمایاں خدوخال کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچتی ہوئی نظر آتی ہے کہ عوامی اقتدارِ اعلیٰ کی نمائندہ پارلیمنٹ کی قسمت کا فیصلہ کسی ایک شخص کی ڈکٹیشن کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کیلئے جمہوری اقدار کے تحت آئین میں طریقہ متعین کیا گیا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 58 کے تحت صدر صرف وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔
اس سے قبل اسے ایسا کرنے کیلئے صوابدیدی اختیارات حاصل تھے۔ ان صوابدیدی اختیارات کو ختم کرنے کیلئے پاکستانی عوام کو ایک لمبی اور کٹھن جدوجہد کرنا پڑی اور اس کے نتیجے میں منتخب اداروں کو پارلیمانی نظام میں اپنا صحیح اور جائز مقام حاصل ہوا۔ مرکز میں وزیراعظم اور صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کی ایڈوائس پر بالترتیب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کو آئین کا حصہ بنانے کا مطلب دراصل مرکز اور صوبوں دونوں میں بالترتیب وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو قائدِ ایوان کی حیثیت سے منتخب نمائندوں کے مقام اور حقوق کا محافظ اور ترجمان تسلیم کرنا ہے‘ اور اسی بنیاد پر اس (قائد ایوان) کے اقدام (اسمبلی کی تحلیل کیلئے ایڈوائس) کو آئینی اور قانونی طور پر جائز تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی طریقے سے یہ تاثر عام ہو جائے کہ ایوان کی اکثریت قبل از مدت تحلیل کی مخالف ہے اور اس کے باوجود وزیراعظم یا وزیراعلیٰ آئین کی شق کی سہارا لیتے ہوئے تحلیل کیلئے صدر یا گورنر کو ایڈوائس دیتا ہے تو اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ اقدام کسی دباؤ یا انفرادی اَنا اور ضد کے تحت تو نہیں اٹھایا گیا کیونکہ آئین کے مطابق اقدام کو فلسفۂ قانون (Jurisprudence) کی روشنی میں اسی صورت آئین کے مطابق سمجھا جاتا ہے جب وہ آئین کی روح اور معنی کے مطابق ہو۔ اگر اس سلسلے میں کوئی ابہام یا شک ہو تو اسے صحیح معنوں میں آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایوان کے منتخب نمائندوں کو سب سے مقدم حیثیت حاصل ہے۔ اگر ایک قائدِ ایوان برملا کہتا ہے کہ ایوان کے 95 فیصد اراکین ایوان کی تحلیل کے خلاف ہیں اور قائدِ ایوان اس کے باوجود آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایوان کی تحلیل کی سفارش کرتا ہے تو سوال تو پیدا ہوگا کہ قائدِ ایوان کا یہ اقدام صحیح معنوں میں آئینی ہے اور کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ نہیں؟
اس سوال کو ایک وسیع تر تناظر میں یوں بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ کیا کسی پارٹی‘ گروپ یا فرد کے محدود سیاسی مفاد کیلئے آئین کی دفعہ کے اس طرح کے استعمال کو‘ جس سے قوم اور ملک کا وسیع تر مفاد متاثر ہو‘ آئین کی روح اور معنی کے مطابق قرار دیا جا سکتا ہے؟ ماضی میں اس قسم کی متعدد مثالیں موجود ہیں جہاں فردِ واحد نے اپنی مرضی سے یکطرفہ طور پر آئین کا سہارا لے کر اسمبلیوں کو برخاست کیا۔ 1988ء میں آئین کی دفعہ 58 (2b) کے تحت صدر ضیاء نے وزیراعظم محمد خان جونیجو اور اسمبلیوں کو برخاست کر دیا تھا۔ اسی طرح ان کے جانشین صدر غلام اسحاق خان نے پہلے 1990ء میں محترمہ بینظیر بھٹو اور پھر 1993ء میں محمد نواز شریف کی حکومتوں اور اسمبلیوں کو آرٹیکل 58 (2b) کے تحت برطرف کیا۔ اپنے ان دو پیشروؤں کی پیروی کرتے ہوئے صدر فاروق احمد لغاری نے آئین کی اسی دفعہ کے تحت 1996ء میں بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت اور اسمبلیوں کو برخاست کیا۔ ضیاء الحق‘ غلام اسحاق خان اور فاروق احمد لغاری نے جو اقدامات کیے‘ وہ آئین میں درج دفعات کے مطابق تھے‘ مگر ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی مسائل سے قوم کو ابھی تک چھٹکارا حاصل نہیں ہو سکا۔
2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم میں صدر اور گورنرز کے بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے ان کے صوابدیدی اختیارات کو ختم کرکے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو اختیار دینے کا مقصد ماضی کی سیاسی الجھنوں سے بچنا اور عوامی نمائندوں کے صحیح مقام اور حقوق کو تسلیم کرنا تھا‘ مگر اس کے باوجود اگر سیاسی بحران پیدا ہو تو کیا وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ کو ایڈوائس کے ذریعے اسمبلیوں کی تحلیل کے یکطرفہ اختیار کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں؟
یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی موجودگی میں بھی عوامی نمائندگی کے اداروں کو ان کی آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے انفرادی‘ گروہی اور محدود سیاسی مفاد کی خاطر تحلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مثلاً 14 جنوری 2023ء کو پنجاب اور اس کے چار دن بعد کے پی کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں تھا۔ سوائے اس کے کہ آئین کے آرٹیکل 112کے تحت وزیراعلیٰ کو آرٹیکل میں بیان کیے گئے طریقے کے مطابق اسمبلی تحلیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر وزیراعلیٰ کے اقدام سے تقریباً ایک ماہ قبل پارٹی کے سربراہ نے ایک کھلے جلسے میں اس کے فیصلے کا اعلان کر دیا تھا۔ اعلان کے بعد پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے قریبی ذرائع سے معلوم ہوا کہ اراکین کی بھاری اکثریت اس فیصلے پر خوش نہیں تھی اور وہ ایک ایسے موقع پر جبکہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے میں صرف چھ ماہ رہ گئے تھے‘ ایوان میں اپنی نشستیں خالی کرنے پر رضا مند نہیں تھی بلکہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ نے تو بر سرعام بیان بھی دے ڈالا کہ ان کی اسمبلی کے 95 فیصد سے زیادہ اراکین اسمبلی کی تحلیل کے حق میں نہیں مگر پارٹی کی مرکزی قیادت اس پر مُصر تھی۔ اسی طرح 9 اپریل 2022ء کو سابقہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب سابقہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے اراکین کو اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کیلئے کہا تو اطلاع کے مطابق ان اراکین کی اکثریت تامل کا شکار تھی‘ مگر سابق وزیراعظم اور پارٹی کے سربراہ کی طرف سے اس دباؤ کے پیشِ نظر‘پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کی قوت اور اختیارات استعمال کرنے کے حقدار منتخب نمائندوں پر مشتمل ادارے ابھی تک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کی جنگ اس سوچ کے خلاف ہے جو عوام کی حاکمیت پر مبنی صحیح جمہوریت کو ملک میں پھلتے پھولتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ نوآبادیاتی دور کی غلامی کی زنجیروں کو ٹوٹنے اور آزادی کی فضا میں بنیادی انسانی‘ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی حقوق حاصل کرنے کے بعد عوام میں اپنی بھلائی کو بہتر سمجھنے اور مستقبل اپنے ہاتھوں میں لینے کا جو شعور اور جوش و جذبہ پیدا ہوا ہے‘ اس کے پیش نظر غیر جمہوری سوچ رکھنے والی قوتیں بھی جمہوریت کی سیڑھی چڑھ کر اقتدار کی کرسی پر قبضہ کرتی ہیں مگر اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد انہیں عوام کے جمہوری حقوق کے تحفظ کے بجائے اقتدار کی کرسی بچانے کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ (ختم )