مشرقِ وسطیٰ‘ جو اپنی پوری تاریخ میں بڑی طاقتوں کے درمیان جنگ و جدل‘ مسابقت اور کشمکش کا مرکز رہا ہے‘ میں ایک دفعہ پھر انقلابی اور غیر متوقع تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جس سے سلطنتوں کے عروج و زوال کی اتنی داستانیں وابستہ ہوں یا بالا دستی کے لیے متحارب طاقتوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں اتنا انسانی خون بہا ہو جتنا ایشیا‘ افریقہ اور یورپ کو ملانے والے تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع اس خطے میں بہا ہے۔
اب تک معلوم انسانی تاریخ میں قدیم ایرانی ایمپائر سے لے کر 20ویں صدی میں امریکی ایمپائر تک کسی بڑی طاقت نے اپنے آپ کو ایک سپر طاقت نہیں سمجھا‘ جب تک کہ مشرقِ وسطیٰ خصوصاً ترکیہ کے جنوب سے لے کر بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع شام‘ لبنان‘ فلسطین اور مصر کے علاقے اس کا حصہ نہ رہے ہوں۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے مشرقِ وسطیٰ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ اس جنگ میں جرمنی کے اتحادی برطانیہ اور فرانس نے سلطنت عثمانیہ کو شکست دے کر اس کو مختلف حصوں میں بانٹ کر قبضہ کر لیا۔
برطانیہ کا تسلط سب سے نمایاں اور مضبوط تھا جسے وہ سکندریہ (مـصر) اور عدن (یمن) میں فوجی اڈے قائم کر کے‘ نہر سویز کے مشرق میں واقع اپنی وسیع نو آبادیاتی سلطنت‘ جس میں ہندوستان‘ برما‘ ملایا (موجودہ ملائیشیا) اور ہانگ کانگ شامل تھے‘ کی حفاظت کا کام لے رہا تھا مگر دوسری جنگ عظیم میں فتح یاب ہونے کے باوجود برطانیہ اور فرانس معاشی اور عسکری لحاظ سے اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ پر کنٹرول قائم کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے ان کی جگہ لے لی اور عرب قوم پرستی اور سابقہ سوویت یونین کی طرف سے چیلنجز کے باوجود امریکہ اسرائیل کے ساتھ قریبی اتحاد اور اہم عرب ممالک مثلاً سعودی عرب‘ قطر‘ کویت اور بحرین کے ساتھ دو طرفہ دفاعی معاہدوں کے ذریعے خطے میں سب سے طاقتور عسکری قوت ہے۔ بحیرۂ روم کے ساحل سے لے کر خلیج فارس اور اس کے ارد گرد واقع سمندروں مثلاً بحر احمر‘ خلیج عمان‘ بحیرۂ عرب اور بحر ہند میں امریکہ کے تین بحری بیڑوں (پانچویں‘ چھٹے اور ساتویں) سے تعلق رکھنے والے بحری جنگی جہاز‘ طیارہ بردار جہاز‘ آبدوزیں اور دیگر امدادی بحری جہاز سینکڑوں کی تعداد میں مشرقِ وسطیٰ پر امریکی بالا دستی کو قائم رکھنے کے لیے موجود ہیں‘ مگر اب یہ بالادستی ختم ہونے کے آثار پیدا ہو رہے اور اس کا پہلا اور نمایاں اشارہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان گزشتہ چار دہائیوں سے جاری مسابقتی جنگ ختم کرانے اور خلیج فارس کے اہم ترین ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں چین کا کامیاب کردار ہے۔
اب اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چین مشرقِ وسطیٰ کی نہ صرف معیشت بلکہ سیاست میں بھی ایک اہم پلیئر کی حیثیت سے داخل ہو چکا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر چین کے معاشی‘ تجارتی‘ ثقافتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعلقات دہائیوں سے قائم ہیں اور ان کی گہرائی اور وسعت میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے۔ خصوصاً تیل اور گیس کی درآمدات میں چین سب ملکوں سے آگے ہے۔
اس وقت سعودی عرب کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر امریکہ نہیں بلکہ چین ہے جس نے گزشتہ سال (2022ء) میں سعودی عرب سے 87 ملین ٹن تیل خریدا تھا۔ اسی طرح چین نے ایران‘ کویت‘ متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ تیل اور گیس کی خریداری کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ ایران اور چین کے درمیان حال ہی میں ایک 25سالہ سٹریٹیجک پارٹنرشپ کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں جس کے تحت چین کی طرف سے ایران میں 400بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس خطیر رقم میں سے 280 بلین ڈالر تیل اور گیس کی تنصیبات کی تعمیر اور 180 بلین ڈالر سڑکوں‘ ریلوے اور شاہراہوں کی تعمیر پر خرچ کیے جائیں گے۔
چین نے ایران کے دارالحکومت تہران سے عراق کی سرحد تک ریلوے لائن تعمیر کی ہے۔ اس کے علاوہ عراق اور شام میں بھی چین نے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ گمان کیا جاتا ہے کہ عراق اور شام میں انفراسٹرکچر کی تعمیر میں حصہ ڈال کر چین مشرقی بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع ممالک لبنان‘ اسرائیل اور اردن کے علاوہ مصر تک رسائی حاصل کر کے اپنے تجارتی نیٹ ورک کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ اب تک چین نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی سرگرمیوں کو معیشت‘ ثقافت اور تجارت کے شعبوں تک محدود کیے رکھا ہے اور خطے کے سیاسی معاملات‘ خصوصاً ممالک کے درمیان تنازعات میں مداخلت کی کوشش نہیں کی۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کی کامیاب کوشش چین کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی معاملات میں مداخلت کی پہلی مثال ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی تنازع کو امریکی مداخلت کے بغیر طے کیا گیا ہو حالانکہ سعودی عرب اب بھی خلیج فارس کے خطے میں امریکہ کا سب سے قریبی حلیف اور امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔
10 مارچ کو بیجنگ میں چین کے سابق وزیر خارجہ وانگ یی کی موجودگی میں ایران اور سعودی عرب کے مشیران برائے نیشنل سکیورٹی کے درمیان چار روز تک ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں جس معاہدے پر دستخط کیے گئے اس کی اہمیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں چین نے محض سہولت کاری کا ہی نہیں بلکہ کسی حد تک ایک میڈی ایٹر (mediator) کا کردار ادا کیا ہے۔ اسی لیے اس معاہدے کا ایران اور سعودی عرب کے درمیان دو طرفہ نہیں بلکہ چین کو شامل کرکے سہ فریقی معاہدے کی حیثیت سے اعلان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کو اس معاہدے میں ایک پارٹی کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے‘ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت پہ ہوا ہے جب امریکہ چین کو روس سے بھی زیادہ خطرناک قرار دے چکا ہے‘ اور چین پر الزام لگا چکا ہے کہ چین مشرقِ وسطیٰ میں موجودہ حالات کے پیدا کردہ خلا کو پر کرکے خطے پر اپنی بالا دستی قائم کرنا چاہتا ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر دنیا بھر میں چین کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کو بحال کرکے انہیں معمول پر لانے اور تجارت‘ معیشت اور سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کے لیے جن معاہدوں پر ایران اور سعودی عرب نے کچھ عرصہ پیشتر دستخط کیے تھے‘ انہیں دوبارہ فعال کرنے کے معاہدے پر بحث اور تبصرے جاری ہیں۔ اس بحث اور تبصروں میں جن سوالات کو خاص طور پر اٹھایا جا رہا ہے‘ ان میں یہ بھی شامل ہیں۔ (1) خلیج فارس میں انٹری کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں خصوصاً طویل المیعاد سٹریٹیجک مفادات کے حوالے سے چین کا کردار کیا ہوگا؟ (2) خطے میں امریکہ کی پوزیشن پر کیا اثر پڑے گا؟ (3) اسرائیل کا ردِ عمل کیا ہو گا اور تین سال قبل ''ابراہم اکارڈز‘‘ کے تحت اسرائیل اور متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات کے قیام سے عرب اسرائیل مصالحت کیلئے جس عمل کا آغاز ہوا تھا‘ اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ (4) کیا سعودی عرب کے ساتھ مصالحت کے بعد ایران یمن میں حوثی قبائل اور لبنان میں حزب اللہ کی پشت پناہی ترک کر دے گا اور (5) ایران اور سعودی عرب کے درمیان اس مصالحت سے جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اگلے کالم میں ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔