10اپریل کو پاکستان کے موجودہ آئین کی 50ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں ایک کنونشن منعقد کیا گیا جس میں اراکینِ پارلیمنٹ کے علاوہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے بھی شرکت کی اور آئین کی تشکیل میں پیش آنے والے مختلف مشکل مرحلوں کے علاوہ اس کی نمایاں خصوصیات کا بھی ذکر کیا۔ بھارت کی طرح پاکستان کا موجودہ آئین بھی پاکستانی ریاست کو وفاقی اور حکومت کو پارلیمانی نظام پر مبنی قرار دیتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے دستور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی بنیاد پر تشکیل دیے گئے ہیں جس کے تحت انگریزوں نے پہلی مرتبہ ہندوستان میں وفاقیت (Federalism) اور پارلیمانی نظام حکومت رائج کیا تھا مگر 1935ء کا ایکٹ نہ تو پوری طرح وفاقی تھا اور نہ ہی صحیح معنوں میں پارلیمانی تھا کیونکہ گورنر جنرل (سربراہِ ریاست) کو وسیع صوابدیدی اور سپیشل اختیارات حاصل تھے جن میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین کا تقرر اور عہدوں سے علیحدگی کے اختیارات بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ صوبوں کو برائے نام اندرونی خود مختاری حاصل تھی اور انتظامی کنٹرول کے علاوہ صوبے مالی اعتبار سے تقریباً مکمل طور پر مرکز پر انحصار کرتے تھے۔ اس لیے آزادی کے حصول کے بعد دونوں ملکوں کو اپنے آئینی ڈھانچوں کو جمہوری اور صحیح معنوں میں وفاقیت کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے 1935ء کے ایکٹ میں بنیادی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔
ان میں سب سے پہلی اور سب سے اہم تبدیلی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر بغیر کسی مذہبی‘ نسلی‘ جنسی‘ رنگ یا زبان کی تخصیص کے ریاست کے تمام شہریوں کو ووٹ دینے کے حق کا نفاذ تھا۔ بنیادی انسانی حقوق کے تعین اور ان کے دفاع کے لیے ایک آزاد اور طاقتور عدلیہ کا قیام اس کے علاوہ تھا۔ ان کے ساتھ دیگر ضروری تبدیلیوں کا عمل مکمل کرکے ایک مکمل جمہوری‘ وفاقی اور پارلیمانی آئین کی تشکیل کا کام پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے بہت پہلے مکمل کر لیا تھا‘ اور نئے آئین کی بنیاد پر 1952ء میں پہلے عام انتخابات بھی کروا لیے تھے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کو اپنا پہلا باقاعدہ آئین حاصل کرنے میں 9سال لگ گئے اور ملک کے پہلے عام انتخابات 1970ء میں ہو سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کو ابتدا سے ہی نامساعد اور غیر معمولی حالات کا سامنا تھا۔ اس کے باوجود سیاست دانوں نے ہمت نہ ہاری اور پہاڑ جیسی بلند مشکلات پر قابو پا کر پاکستان کے عوام کو جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے احترام کے ماحول میں زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا۔
یہ کہا گیا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاست دانوں کے بغیر مسلمانانِ برصغیر پاک و ہند آزادی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ آئین کی تشکیل میں سیاست دانوں کا کردار مرکزی ہے۔ اور یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے جس کا آغاز قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہو گیا تھا۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو اس کا ایک حصہ دوسرے سے ایک ہزار میل سے بھی زیادہ فاصلے پر تھا‘ اور یہ فاصلہ ایک ایسی دھرتی سے گزرتا تھا جس پر قائم حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات دوستانہ نہیں تھے۔ دونوں حصوں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان مذہب کی سوا کوئی چیز مشترک نہ تھی۔ دونوں حصے زبان‘ رنگ‘ نسل‘ ثقافت‘ معیشت اور مطمح نظر میں ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ اس کے باوجود سیاست دانوں نے ان دو مختلف ثقافتی اکائیوں کو سیاست کی ایک لڑی میں پرو کر ایک قوم بنا دیا جس کا مظہر 1956ء کا دستور تھا۔
ڈسٹرکشن آف پاکستانز ڈیمو کریسی (The Destruction of Pakistan's Democracy) کے مصنف ایلن میکراتھ کے مطابق پاکستان کے بانی سیاست دانوں کا یہ کارنامہ معجزے سے کم نہ تھا‘ اور اس کا امریکہ کے فائونڈنگ فادرز کے کارنامے سے موازنہ کیا جا سکتا ہے‘ حالانکہ 1956ء کا آئین ایک پرفیکٹ آئین نہیں تھا‘ اس کی کئی شقوں پر کچھ سیاسی جماعتوں‘ خصوصاً جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا‘ کو تحفظات حاصل تھے۔ خاص طور پر ''مساوات‘‘ کا وہ اصول جس کے تحت آبادی میں زیادہ ہونے کے باوجود وفاقی مجلسِ قانون ساز (قانونی اسمبلی) میں مشرقی پاکستان کے لیے مغربی پاکستان کے برابر نشستیں تفویض کی گئی تھیں۔ یہ جمہوریت کے پہلے اصول‘ جس کے لیے ہندوستان کے عوام نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی تھی‘ یعنی ''ون مین‘ ون ووٹ‘‘ کی خلاف ورزی اور مشرقی پاکستان میں رہنے والے بنگالی بھائیوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف تھا۔ اس کے باوجود مشرقی پاکستان کے عوام نے قومی اتحاد اور ملکی یک جہتی کی خاطر اسے قبول کیا۔
مشرقی پاکستان کی رائے عامہ کو اس آئین کے حق میں کرنے والی سیاسی جماعتوں میں سے ایک عوامی لیگ بھی تھی‘ جس کے رہنما حسین شہید سہروردی اس آئین کے تحت ملک کے وزیراعظم بھی رہے‘ مگر پاکستان کے پہلے فوجی حکمران ایوب خان نے انہیں جیل میں ڈال دیا اور احتساب کے نام پر ایک جھوٹے مقدمے میں ان کا ٹرائل شروع کر دیا۔ ایوب خان کی قیادت میں پاکستان کے پہلے مارشل لاء کا صرف 1956ء کا دستور ہی شکار نہیں تھا بلکہ اس دور میں سیاسی پارٹیوں اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر معاشرے میں اس آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی جو آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں بلند ہو سکتی تھی۔ اس کے ساتھ سیاست دانوں کی کردار کشی پر مبنی ایک سوچے سمجھے اور منظم پروپیگنڈے کے تحت ان عناصر کو‘ جنہوں نے ایک ہزار میل سے زیادہ فاصلے پر واقع دھرتی کے دو خطوں کو جوڑ کر پاکستان کو قوم بنا دیا تھا‘ ہر قسم کی برائی‘ کرپشن‘ اقربا نوازی‘ اختیارات کے ناجائز استعمال اور نا اہلی کا مرتکب قرار دے کر عوام کی نظروں میں گرانے کی مہم شروع کر دی گئی۔ ایوب خان نے 1956ء کے دستور کو منسوخ کرکے دراصل پاکستان کے اتحاد کی بنیاد پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی تھی جس کے نتیجے میں ملک بالآخر 1971ء میں دولخت ہو گیا۔ حیرانی کی بات ہے کہ اس جرم کے مرتکب افراد کے ہاتھوں ملک اور قوم کو پہنچنے والے نقصان اور جواب دہی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا جاتا‘ مگر سیاست دان جنہوں نے انگریز دور میں پولیس کے ڈنڈے کھائے‘ جیلیں کاٹیں اور جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا اور آزادی کے بعد آمروں کے غضب کا شکار ہوئے‘ بے بنیاد الزامات میں جیل گئے‘ انہیں ملک کے ہر بحران کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
1973ء کے آئین کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر جہاں ہم 1970ء کی دہائی کے سیاست دانوں کو مختلف سیاسی نظریات کے حامل ہونے کے باوجود ایک متفقہ آئین‘ جسے ہم سب کی اور پاکستان کی پہچان کہا جاتا ہے‘ دینے پر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں وہاں ہمیں 1950ء کی دہائی کے ان سیاست دانوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے‘ جنہوں نے بنیادی انسانی حقوق‘ نمائندہ جمہوریت اور وفاق میں شامل تمام اکائیوں کے مفادات کے تحفظ کی صورت میں ایسی اقدار کے حق میں جدوجہد کی جو آج کے دستور (1973ء) کا بنیادی ڈھانچہ ہیں۔ یاد رہے کہ 1973ء کے آئین کی طرح 1956ء کے آئین کو بھی متفقہ کہا جاتا تھا کیونکہ اسے مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں سے تعلق رکھنے والی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی۔