حکمران اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان موجودہ سیاسی بحران کا حل تلاش کرنے کیلئے مذاکرات کے تین ادوار (27‘ 28 اپریل اور 2 مئی) منعقد ہوئے۔ یہ مذاکرات غیرمتوقع طور پر خوشگوار ماحول میں ہوئے اور فریقین نے پہلے دن سے ہی ان پر اطمینان کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس لیے قوم کی ان مذاکرات سے اہم توقعات وابستہ ہو گئیں۔ بعض معاملات مثلاً انتخابات کا ایک ہی دن انعقاد‘ انتخابی نتائج کو خوشدلی سے قبول کرنا اور تاخیری حربوں سے احتراز پر جتنی آسانی سے فریقین نے رضا مندی ظاہر کر دی اس سے ان توقعات کو اور بھی تقویت ملی‘ لیکن اصل مسئلے یعنی انتخابات کی تاریخ کے تعین پر اتفاق نہ ہو سکا۔ اگرچہ حکمران اتحاد 8اکتوبرکی تاریخ سے دستبردار ہو کر ستمبر میں عام انتخابات منعقد کروانے پر رضا مند ہو گیا تھا۔
یاد رہے کہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی آئینی مدت 13اگست کو ختم ہوتی ہے اور آئین کے مطابق ان کی تحلیل کے 60روز بعد ان کے انتخابات کی تاریخ اکتوبر کے وسط میں آتی ہے؛ تاہم پی ٹی آئی کا اصرار تھا کہ اگر حکمران اتحاد ان سے ایک ہی دن قومی اور صوبائی انتخابات کے انعقاد کی رعایت چاہتا ہے تو وہ صرف اس صورت میں مل سکتی ہے اگر حکومت 14مئی یا اس سے قبل اسمبلیوں کو تحلیل کرکے اگست میں انتخابات پر راضی ہو جائے مگر حکومت کا موقف تھا کہ بجٹ کی منظوری سے قبل اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتیں۔اس موقف کی حمایت میں بجٹ کے علاوہ حکومت کی طرف سے یہ دلیل بھی پیش کی جا رہی تھی کہ سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل پر راضی نہیں ہوں گے۔ اب پی ٹی آئی نے مزید مذاکرات کی طرف سے منہ موڑ کر سپریم کورٹ کی طرف رجوع کر لیا ہے اور عدالتِ عظمیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے 4اپریل کے فیصلے پر کاربند رہتے ہوئے 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے حکم پر عملدرآمد کرائے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ مذاکرات سیاسی پارٹیوں کا اپنا فیصلہ ہے‘ جہاں تک سپریم کورٹ کا تعلق ہے تو اس کا 14مئی کا فیصلہ بدستور قائم ہے۔ اس تناظر میں عدالتِ عظمیٰ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر پنجاب میں انتخابات کیس کی گزشتہ روز سے سماعت شروع کر دی ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے مزید کیا ہدایت جاری ہوتی ہے‘ اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ مگر اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ کیا پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں؟ اور کیا ان کے دوبارہ شروع ہونے کی کوئی امید ہے؟ ان سوالات کے جوابات معلوم کرنا اس لیے اہم ہے کہ موجودہ بحران بنیادی طور پر ایک سیاسی بحران ہے اور پوری قوم کی خواہش ہے کہ اس کا سیاسی ذرائع سے ہی حل نکالا جائے کیونکہ وہی حل پائیدار اور تسلی بخش ہوگا۔ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے کہ کیا یہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں تو اس بارے میں خود فریقین کا موقف یہ ہے کہ انہیں ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان مذاکرات نے بعض امور پر مثبت پیش قدمی حاصل کی ہے۔ مذاکرات کے دوران فریقین ایک دوسرے کے رویے سے مطمئن رہے ہیں اور دونوں نے نہ صرف لچک کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ اسے مثبت قرار دے کر سراہا گیا ہے‘ البتہ مذاکرات کے سب سے اہم نکتے یعنی اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا‘ اس لیے مذاکرات کے اگلے دور کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا اور پی ٹی آئی 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کیلئے سپریم کورٹ پہنچ گئی ہے لیکن 14مئی کو ان انتخابات کا انعقاد مشکل نظرآ رہا ہے۔
اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر اپنے 4اپریل کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست بھی کی ہے۔ 14مئی کو الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لیے بہت سی ٹائم لائنز کی ڈیڈ لائن ختم ہو چکی ہے‘ جس کی وجہ سے 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کا انعقاد عملی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔ سپریم کورٹ اس صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے اور کیا راستہ نکالتی ہے؟ یہ الگ بات ہے مگر تیسرے رائونڈ کے اختتام پر حکومت اور پی ٹی آئی وفود کے رہنمائوں نے جو بیانات دیے‘ وہ مثبت تھے۔ ان سے مایوسی یا ناامیدی نہیں جھلکتی تھی بلکہ امید کی کرن نظر آتی تھی کہ اگر یہ مذاکرات جاری رہیں تو فریقین میں انتخابات کی تاریخ پر بھی اتفاقِ رائے ہو سکتا ہے۔ فریقین اس پوزیشن پر اپنے اپنے موقف میں لچک دکھانے کے بعد پہنچے ہیں اور مزید لچک کا مظاہرہ کرکے وہ باقی فاصلہ بھی طے کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وفد میں شامل شاہ محمود قریشی اور سینیٹر بیرسٹر ظفر علی کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف مذاکرات جاری رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں بلکہ فریقین کے درمیان انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کو بھی ممکن سمجھتے ہیں۔ پھر پی ٹی آئی مذاکرات نے کا راستہ کیوں چھوڑ دیا؟ اس کی وجہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی پارٹی کی مذاکراتی ٹیم کو حکم دیا تھا کہ اگر حکومت 14مئی یا اس سے قبل اسمبلیاں تحلیل کرکے اگست میں انتخابات پر راضی نہیں ہوتی تو مذاکرات سے باہر آ جائیں۔ اس لیے مذاکراتی عمل جاری نہ رہ سکا حالانکہ حکومت اسے جاری رکھنا چاہتی تھی۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے ایک انٹرویو کے مطابق اگر عمران خان یہ حکم نہ دیتے تو مذاکراتی عمل نہ صرف جاری رہتا بلکہ اس کے نتیجے میں فریقین کے موقف میں باقی ماندہ بُعد بھی ختم ہو سکتا تھا‘ مگر پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں میں ایک لابی ایسی ہے جو شروع سے ہی ان مذاکرات کی حامی نہیں تھی‘ اور انہیں اپنے اشتعال انگیز بیانات سے سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض سرکردہ رہنما شروع سے ہی ان مذاکرات کو ایک بیکار اور عبث کوشش گردانتے تھے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا بلکہ فیصلہ سڑکوں پر ہو گا یا سپریم کورٹ میں حالانکہ 14مئی کے فیصلے کے باوجود سپریم کورٹ نے سیاسی مسئلے کے سیاسی حل کی حمایت کی ہے۔
دوسری طرف پی ڈی ایم اور خصوصاً (ن)لیگ سے تعلق رکھنے والے بعض رہنماؤں اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے ان مذاکرات کی بدستور مخالفت کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض سرکردہ رہنمائوں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور مقدمات کے اندراج نے بھی ماحول کو خراب کیا۔ اس سے یقینا ان عناصر کے ہاتھ مضبوط ہوئے جو شروع ہی سے ان مذاکرات کے خلاف تھے‘ مگر اس کے باوجود یہ مذاکرات جاری رہ سکتے تھے کیونکہ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنے کی اہمیت کا دونوں طرف بخوبی احساس پایا جاتا ہے۔جولائی اور ستمبر میں کوئی زیادہ فرق نہیں‘ لیکن پی ٹی آئی کے چیئرمین جولائی سے آگے نہیں جانا چاہتے حالانکہ وہ 14مئی کو پنجاب کے انتخابات کی تاریخ سے دستبردار ہونے پر رضا مند ہو چکے ہیں‘ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو سڑکوں پر لا کر حکومت پر اتنا پریشر ڈال سکتے ہیں کہ اسمبلیاں 14مئی کو تحلیل کر دی جائیں اور جولائی میں انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ مسئلہ سیاستدانوں کے ہاتھوں سے نکل کر ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ کے پاس پہنچ گیا ہے‘ جو پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ اگر سیاستدان مذاکرات کے ذریعے کسی متفقہ حل پر نہ پہنچے تو 14مئی کا فیصلہ برقرار ہے۔ آنے والے دنوں میں صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی‘ اس کا انحصار اب سپریم کورٹ کے آئندہ اقدام پر ہے لیکن بہتر ہوگا کہ حکومت اور پی ٹی آئی ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ سے درخواست کرکے مذاکرات کی طرف لوٹ آئیں اور باقی ماندہ اختلافات کو دور کرکے انتخابات کی تاریخ پر راضی ہو جائیں۔